عمران کی واپسی کا انتظار
پاکستان کا سیاستدان عمران خان بچ گیا اور خود پاکستان بھی کسی بڑی خطرناک اور جان لیوا متوقع صورت حال سے بچ گیا۔
پاکستان کا سیاستدان عمران خان بچ گیا اور خود پاکستان بھی کسی بڑی خطرناک اور جان لیوا متوقع صورت حال سے بچ گیا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاست جماعتوں کے نام سے نہیں چلتی افراد اور لیڈروں کے نام پر چلتی ہے، اس لیے جب کسی لیڈر کو خطرہ ہوتا ہے یا اسے کوئی انہونی پیش آ جاتی ہے تو قومی سیاست کا ایک گروہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
ایسے کسی خطرے کو سنبھالنے کے لیے لیڈر کی جماعت موجود پوری طرح مستعد نہیں ہوتی یا وہ جماعت اپنے لیڈر کی متبادل نہیں ہوتی اس لیے لیڈر کا خلا ملک کے لیے خطرناک بن جاتا ہے خصوصاً الیکشن جیسے بیدار اور مشتعل ماحول میں جب جذباتی سیاسی کارکن اپنے لیڈر کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مایوسی کے اس ماحول میں ان پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے ان کے لیڈر عمران خان کو سر جیسے اور کمر کی ہڈی جیسے نازک مقامات پر چوٹیں آئی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ان کا مریض یہ چوٹیں برداشت کر گیا ہے یہ بالکل ابتدائی طبی رپورٹ ہے خدا کرے یہ بالکل درست ہو یہی دعا ہے۔
میں چونکہ نئی وقتی قسم کی جماعتوں میں سے کسی کا پیروکار نہیں ہوں اس لیے جب کوئی سیاسی واقعہ رونما ہوتا ہے تو میں پاکستان کی وجہ سے مضطرب ہو جاتا ہوں ۔عمران خان کا حادثہ میرے لیے ایک سانحہ بھی تھا اور اس کی وجہ اس کے والد ماجد سے میرا پرانا تعلق تھا جو ظاہر ہے اپنے اکلوتے بیٹے سے غیر معمولی پیار کرتے تھے۔ یہ بیٹا انھیں آغا جان کہہ کر یاد کرتا تھا اور جب بھی باہر سے آتا تو اپنے آغا جان یعنی اکرام اللہ نیازی کے لیے ایک سویٹر ضرور لے آتا۔ اکرام نیازی سے ہماری دوستی کا ذریعہ محترم مظہر منیر تھے معروف جسٹس منیر کے صاحبزادے۔
یہ دونوں ہم پیشہ یعنی ٹاؤن پلینر انجینئر تھے مگر دونوں بہت مجلسی قسم کے۔ یہ ہر روز ہماری محفل میں شریک ہوتے۔ مظہر منیر تو لاہور میں رہتے تھے البتہ نیازی صاحب اگر دو چار دن غیر حاضر ہو جاتے تو مظہر منیر اعلان کرتے کہ اکرام میانوالی جا رہا تھا اس نے راستے میں کہیں گاڑی مار دی ہو گی اور عموماً یہ دوستانہ قیاس آرائی سچی ہوتی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ اکرام اللہ نیازی کا بیٹا مجھے بہت عزیز ہے۔ عمران خان کے ایک چچا جو وکیل تھے مسلم لیگ میانوالی کے واحد لیڈر تھے نام غالباً امان اللہ نیازی تھا۔ نیازیوں کے نام میں ''اللہ'' کا لفظ ضرور آتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ عمران کا پیدائشی نام بھی عمران اللہ نیازی ہو گا۔
اکرام اللہ بڑے خوبصورت تھے عمران اپنے والد کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں اس کی وجاہت اس کے باپ کے سامنے بہت کمزور ہے لیکن خوبصورت عمران خان کو دیکھ کر اس کے والد کا اندازہ کر لیجیے۔ اکرام صاحب نے جب بھی عمران کا نام آتا اور اس کی شادی کا ذکر ہوتا تو وہ کہتے کہ میں نے اس سے کہا ہے پاکستان میں جہاں کہو بات کریں گے لیکن میم نہ لانا۔ عمران بالآخر میم لے آیا مگر اس کے بعد اکرام صاحب سے بات نہ ہو سکی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ عمران بطور ایک سیاستدان کے ہی نہیں اکرام اللہ کے بیٹے کے حوالے سے بھی عزیز ہے اور اس کو جب میں نے اسپتال میں بے ہوش لیٹے دیکھا تو مجھے اس کا والد بہت یاد آیا جس کا یہ اکلوتا بیٹا تھا۔
ابتدائی طبی رپورٹوں سے یوں لگتا ہے کہ عمران اب اس الیکشن کی عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا اس کی گرجتی برستی آواز اب کسی سیاسی جماعت کی اسٹیج سے سنائی نہیں دے گی اور قوم اسے غائبانہ ووٹ دے گی۔ عمران ایک اچھا سیاستدان تھا وہ غلط کار نہیں تھا اس کی جوانی کسی مسجد کے حجرے میں نہیں یورپ کی رزمگاہوں اور عشرت کدوں میں گزری ہے لیکن وہ اس کے باوجود شراب نہیں پیتا۔ عزیزم یوسف صلی جو اس کا خاص دوست ہے پوچھنے پر اس کے بارے میں بتا دیتا ہے عمران کوئی نشہ نہیں کرتا سوائے ماضی کے کھیل کرکٹ اور آج کی سیاست کے۔ وہ کرپشن نہیں کرے گا جو ہمارا آج کا سب سے بڑا مرض ہے جتنی کچھ عقل سمجھ ہو گی وہ ملک کی بہتری کی کوشش کرے گا میرا خیال ہے کہ مال نہیں بنائے گا۔
میں میانوالی کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے جس کا یہاں کے باشندوں سے رابطہ رہتا ہے یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک استثناء ہو گا۔ اب میانوالی اور قریبی ضلع خوشاب کا ذکر آیا ہے تو ایک مقامی لطیفہ سنا دوں۔ میرے گاؤں کا نام کھوڑہ ہے اور وادی سون کی طرح پوری آبادی اعوانوں کی ہے اس علاقے کے نوجوانوں کا ایک شوقیہ مشغلہ اور روز گار بھی ٹرانسپورٹ ہے چنانچہ میانوالی کے نیازی اور کھوڑہ کے اعوان ٹرک چلاتے ہیں۔
یہاں کا ایک لطیفہ ہے کہ میانوالی کے نیازی کھوڑہ کے اعوان اور ایک کمپنی کا ٹائر تینوں ناقابل اعتبار ہیں کسی بھی جگہ پھٹ سکتے ہیں۔ جب سے عمران خان سیاست میں طلوع ہواہے اور میں اپنے علاقے میں جاؤں تو یہ لطیفہ بھی سننا پڑتا ہے لیکن میں عمران پر اعتبار کرتا ہوں اور لوگوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ قابل اعتبار سیاستدان ہے۔ کسی سیاستدان پر اعتماد اور اعتبار کی تہمت لگانا ذرا مشکل ہے لیکن میں عمران پر یہ تہمت لگا سکتا ہوں۔ وہ کوئی نظریاتی لیڈر نہیں ہے اس کے لیڈر قسم کے اکثر ساتھی بھی صرف دنیا دار لوگ ہیں اور وہ اقتدار کے طلب گار ہیں لیکن عمران ایک شریف اور انسانی ہمدرد اقتدار کا قائل ہے۔
وہ ایک جدید مسلمان ریاست بنانا چاہتا ہے لیکن یہ سب تو تب کھلے گا جب عمران کی سیاست کے پھول کھلیں گے کہ ان کی خوشبو اور رنگ کیا ہے فی الوقت تو عمران کی مکمل صحت کی شدید خواہش ہے ہم اچھے لیڈروں کے اس قحط میں اس سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں اس سے بھلائی کی توقع ہے۔
ایسے کسی خطرے کو سنبھالنے کے لیے لیڈر کی جماعت موجود پوری طرح مستعد نہیں ہوتی یا وہ جماعت اپنے لیڈر کی متبادل نہیں ہوتی اس لیے لیڈر کا خلا ملک کے لیے خطرناک بن جاتا ہے خصوصاً الیکشن جیسے بیدار اور مشتعل ماحول میں جب جذباتی سیاسی کارکن اپنے لیڈر کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مایوسی کے اس ماحول میں ان پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے ان کے لیڈر عمران خان کو سر جیسے اور کمر کی ہڈی جیسے نازک مقامات پر چوٹیں آئی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ان کا مریض یہ چوٹیں برداشت کر گیا ہے یہ بالکل ابتدائی طبی رپورٹ ہے خدا کرے یہ بالکل درست ہو یہی دعا ہے۔
میں چونکہ نئی وقتی قسم کی جماعتوں میں سے کسی کا پیروکار نہیں ہوں اس لیے جب کوئی سیاسی واقعہ رونما ہوتا ہے تو میں پاکستان کی وجہ سے مضطرب ہو جاتا ہوں ۔عمران خان کا حادثہ میرے لیے ایک سانحہ بھی تھا اور اس کی وجہ اس کے والد ماجد سے میرا پرانا تعلق تھا جو ظاہر ہے اپنے اکلوتے بیٹے سے غیر معمولی پیار کرتے تھے۔ یہ بیٹا انھیں آغا جان کہہ کر یاد کرتا تھا اور جب بھی باہر سے آتا تو اپنے آغا جان یعنی اکرام اللہ نیازی کے لیے ایک سویٹر ضرور لے آتا۔ اکرام نیازی سے ہماری دوستی کا ذریعہ محترم مظہر منیر تھے معروف جسٹس منیر کے صاحبزادے۔
یہ دونوں ہم پیشہ یعنی ٹاؤن پلینر انجینئر تھے مگر دونوں بہت مجلسی قسم کے۔ یہ ہر روز ہماری محفل میں شریک ہوتے۔ مظہر منیر تو لاہور میں رہتے تھے البتہ نیازی صاحب اگر دو چار دن غیر حاضر ہو جاتے تو مظہر منیر اعلان کرتے کہ اکرام میانوالی جا رہا تھا اس نے راستے میں کہیں گاڑی مار دی ہو گی اور عموماً یہ دوستانہ قیاس آرائی سچی ہوتی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ اکرام اللہ نیازی کا بیٹا مجھے بہت عزیز ہے۔ عمران خان کے ایک چچا جو وکیل تھے مسلم لیگ میانوالی کے واحد لیڈر تھے نام غالباً امان اللہ نیازی تھا۔ نیازیوں کے نام میں ''اللہ'' کا لفظ ضرور آتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ عمران کا پیدائشی نام بھی عمران اللہ نیازی ہو گا۔
اکرام اللہ بڑے خوبصورت تھے عمران اپنے والد کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں اس کی وجاہت اس کے باپ کے سامنے بہت کمزور ہے لیکن خوبصورت عمران خان کو دیکھ کر اس کے والد کا اندازہ کر لیجیے۔ اکرام صاحب نے جب بھی عمران کا نام آتا اور اس کی شادی کا ذکر ہوتا تو وہ کہتے کہ میں نے اس سے کہا ہے پاکستان میں جہاں کہو بات کریں گے لیکن میم نہ لانا۔ عمران بالآخر میم لے آیا مگر اس کے بعد اکرام صاحب سے بات نہ ہو سکی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ عمران بطور ایک سیاستدان کے ہی نہیں اکرام اللہ کے بیٹے کے حوالے سے بھی عزیز ہے اور اس کو جب میں نے اسپتال میں بے ہوش لیٹے دیکھا تو مجھے اس کا والد بہت یاد آیا جس کا یہ اکلوتا بیٹا تھا۔
ابتدائی طبی رپورٹوں سے یوں لگتا ہے کہ عمران اب اس الیکشن کی عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا اس کی گرجتی برستی آواز اب کسی سیاسی جماعت کی اسٹیج سے سنائی نہیں دے گی اور قوم اسے غائبانہ ووٹ دے گی۔ عمران ایک اچھا سیاستدان تھا وہ غلط کار نہیں تھا اس کی جوانی کسی مسجد کے حجرے میں نہیں یورپ کی رزمگاہوں اور عشرت کدوں میں گزری ہے لیکن وہ اس کے باوجود شراب نہیں پیتا۔ عزیزم یوسف صلی جو اس کا خاص دوست ہے پوچھنے پر اس کے بارے میں بتا دیتا ہے عمران کوئی نشہ نہیں کرتا سوائے ماضی کے کھیل کرکٹ اور آج کی سیاست کے۔ وہ کرپشن نہیں کرے گا جو ہمارا آج کا سب سے بڑا مرض ہے جتنی کچھ عقل سمجھ ہو گی وہ ملک کی بہتری کی کوشش کرے گا میرا خیال ہے کہ مال نہیں بنائے گا۔
میں میانوالی کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے جس کا یہاں کے باشندوں سے رابطہ رہتا ہے یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک استثناء ہو گا۔ اب میانوالی اور قریبی ضلع خوشاب کا ذکر آیا ہے تو ایک مقامی لطیفہ سنا دوں۔ میرے گاؤں کا نام کھوڑہ ہے اور وادی سون کی طرح پوری آبادی اعوانوں کی ہے اس علاقے کے نوجوانوں کا ایک شوقیہ مشغلہ اور روز گار بھی ٹرانسپورٹ ہے چنانچہ میانوالی کے نیازی اور کھوڑہ کے اعوان ٹرک چلاتے ہیں۔
یہاں کا ایک لطیفہ ہے کہ میانوالی کے نیازی کھوڑہ کے اعوان اور ایک کمپنی کا ٹائر تینوں ناقابل اعتبار ہیں کسی بھی جگہ پھٹ سکتے ہیں۔ جب سے عمران خان سیاست میں طلوع ہواہے اور میں اپنے علاقے میں جاؤں تو یہ لطیفہ بھی سننا پڑتا ہے لیکن میں عمران پر اعتبار کرتا ہوں اور لوگوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ قابل اعتبار سیاستدان ہے۔ کسی سیاستدان پر اعتماد اور اعتبار کی تہمت لگانا ذرا مشکل ہے لیکن میں عمران پر یہ تہمت لگا سکتا ہوں۔ وہ کوئی نظریاتی لیڈر نہیں ہے اس کے لیڈر قسم کے اکثر ساتھی بھی صرف دنیا دار لوگ ہیں اور وہ اقتدار کے طلب گار ہیں لیکن عمران ایک شریف اور انسانی ہمدرد اقتدار کا قائل ہے۔
وہ ایک جدید مسلمان ریاست بنانا چاہتا ہے لیکن یہ سب تو تب کھلے گا جب عمران کی سیاست کے پھول کھلیں گے کہ ان کی خوشبو اور رنگ کیا ہے فی الوقت تو عمران کی مکمل صحت کی شدید خواہش ہے ہم اچھے لیڈروں کے اس قحط میں اس سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں اس سے بھلائی کی توقع ہے۔