کراچی تاریخ کے آئینے میں
آج ایک ایسی کتاب کا تذکرہ ہے جو 1996 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کے مصنف ہیں جناب عثمان دموہی اور نام ہے ...
آج ایک ایسی کتاب کا تذکرہ ہے جو 1996 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کے مصنف ہیں جناب عثمان دموہی اور نام ہے اس منفرد کتاب کا ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' دراصل اسے موضوع بنانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی شہر پر جس تحقیق اور لگن سے عثمان دموہی نے یہ کتاب لکھی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے اس کا حق ملے۔
یہ کتاب اب نایاب ہے۔ 1996 کے بعد شہر ہر لحاظ سے بہت پھیل گیا ہے۔ ویرانے آباد ہوگئے ہیں نئی نئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔ جدید ترین پلازا، اسپتال، تعلیمی ادارے اور شاپنگ سینٹرز نے شہر کی خوبصورتی کو بڑھادیا ہے۔ لیکن اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے کراچی پر کام کیا۔ اس کے حوالے سے سیمینار منعقد کیے۔ ہمارا کراچی نامی فیسٹیول منعقد ہوئے۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے چھوٹی چھوٹی گائیڈ بک چھاپیں، لیکن کسی نے بھی اس اہم کتاب کا حوالہ نہ دیا۔
بلکہ بعض کتابیں اور گائیڈ بک میں نے ایسی بھی دیکھیں جن میں اس کتاب کی ہو بہو نقل کی گئی۔ بس اس کے تمام ابواب اور تفصیلات کو مختصر کردیا گیا لیکن کہیں بھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ انھوں نے استفادہ دراصل کس کتاب سے کیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ مصنف نے کبھی کسی کی توجہ اس بات کی جانب نہیں دلائی نہ ہی اعتراض کیا کہ ان کی کتاب سے مواد جوں کا توں نقل کیا گیا لیکن ان کی کتاب اور ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر کہ جو کسی کی بھی تصنیف کو اپنے نام سے شایع کروانے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ کبھی جب اخلاقیات کی پاسداری کی جاتی تھی تو لوگ کسی کی ایک سطر بھی نقل کرتے تھے تو اس کا حوالہ دیتے تھے۔ لیکن اب ''پائریسی'' کا دور دورہ ہے۔ لوگ بڑی ڈھٹائی اور دھڑلے سے کسی کی بھی تصنیف میں معمولی سا ردوبدل کرکے اپنے نام سے چھپوا دیتے ہیں۔
تقسیم سے پہلے ایک لغت چھپی تھی ''فرہنگ آصفیہ'' جو تین جلدوں پر مشتمل تھی، اس بے حد اہم لغت کے مولف تھے خاں صاحب مولوی سید احمد دہلوی۔ جنہوں نے ایک ایک لفظ کی تحقیق کے لیے کئی کئی کالم اور صفحے مخصوص کردیے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک معروف اشاعتی ادارے نے اس لغت کو جوں کا توں چھاپ دیا۔ لیکن سید احمد دہلوی کا کہیں بھی اشارتاً حوالہ نہ دیا۔ بس انھوں نے یہ کہا کہ کسی بھی لفظ، محاورے، کہاوت یا شخصیات کے بارے میں جو نہایت گرانقدر معلومات مولوی صاحب نے دی تھیں انھیں حذف کردیا۔ باقی لفظ بہ لفظ نقل کردیا۔ جن لوگوں کے پاس دونوں لغات ہیں وہ اس دیدہ دلیری بلکہ سرقے سے واقف ہیں۔ ایسا ہی عثمان کی کتاب کے ساتھ ہوا ہے۔ اسی لیے میں نے مناسب جانا کہ اصل کتاب کو سامنے لایا جائے۔
مصنف نے یہ کتاب دس سال کے طویل عرصے میں تحقیق کے بعد تخلیق کی ہے۔ اس میں کل چودہ ابواب ہیں جن میں کراچی کا تاریخ و جغرافیہ، سماجی حالات اور دیگر تفصیلات نہایت سلیقے سے بیان کی گئی ہیں۔ پہلے باب کی ابتداء سیٹھ بھوجومل نامی ایک ہندو تاجر کے ذکر سے ہوتی ہے جو ایک بہترین بندرگاہ کی تلاش میں مچھیروں کی اس بستی کی طرف اتفاقاً آ نکلا تھا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ اس کے بعد انگریزوں نے اور پارسیوں نے اس شہر پر اپنی مہربانیوں کے دروازے کھول دیے۔ انگریزوں نے تو اپنی تجارتی ضروریات کے تحت اس شہر کو ترقی دی، لیکن پارسی کمیونٹی نے صرف خدمت خلق اور انسانی جذبے کے زیر اثر یہاں اسکول، کالج، ڈسپنسریاں اور دیگر عمارات تعمیر کیں۔
کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جو عثمان کی تحقیق و جستجو کے مطابق ماضی میں 30 سے زائد ناموں سے پکارا گیا۔ یہ نام اس طرح ہیں۔ کروکالا، سکندری جنت، مورون ٹوبارا، دریو، خورالدہبل، خورعلی، دیبل، قلاچی، قلاچی جو گوٹھ، کلاچی جو کن ، قلاچی جو کنڈ، خراچی، ککرالہ، کراشہر، قلاتی بندر، کروکل، کروکالی، کرنجی، کورہ، کروکانا، دھاروجہ، کراشی، کھوراجی، کراچر، کورنجی، کاؤمارا، گھراچر، داراجا، کراچی جو گوٹھ، کراچے ٹاؤن، کوراچی اور کراچی ۔
اس کتاب میں شہر کے حوالے سے ہر وہ معلومات ہیں جو اس شہر کو جاننے کے لیے ضروری ہیں۔ کراچی کی تاریخ زمانہ قبل از مسیح سے شروع کی گئی ہے، پھر ترخانوں کا دور مغلوں کا دور، کلہوڑہ دور، تالپور دور، انگریزوں کا دور، برطانوی نظم و نسق کے حوالے سے سرچارلس نیپئر کا دور، کراچی کی بمبئی سے وابستگی، کراچی کے مختلف کمشنر اور ان کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل، جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے قدم جمنے کی بنیادی وجہ ان کا نظم و نسق، تعلیمی اصلاحات، ترقیاتی منصوبے اور عام آدمی کی پہنچ عدلیہ تک، میرٹ پر عمل، یہ ایسی خصوصیات تھیں جنھوں نے انھیں طویل مدت تک حکمرانی کا موقع دیا بلکہ آج بھی لوگ انگریز کے دور کو یاد کرتے ہیں۔
کراچی کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے سندھ مدرسۃالاسلام کے قیام کا حال تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح جسٹس سید امیر علی جو نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے سیکریٹری تھے اور حسن علی آفندی جو اس شاخ کے صدر تھے دونوں نے ملکر اس ایسوسی ایشن کے معتمد اعزازی مولوی اللہ بخش کے ساتھ مل کر ''سندھ مدرسہ بورڈ'' قائم کیا۔ بولٹن مارکیٹ کے قریب ایک مختصر سی عمارت کو کرایہ پر لے کر 30 اگست 1885 میں سندھ مدرسۃ الاسلام کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ذرایع نقل و حمل کے باب میں ٹراموں اور بسوں کا بھی ذکر ہے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ غالباً 1970 تک کراچی کے سابقہ بندر روڈ اور موجودہ ایم۔ اے جناح روڈ پر ٹرامیں چلتی تھیں۔ جس کا کرایہ صرف 10 پیسے ہوتا تھا۔
اپنے اختتام تک صرف 25 پیسے کرایہ لیا جاتا تھا۔ یہ ٹرامیں محمد علی ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں۔ اس وقت موجودہ رمپا پلازہ کی جگہ محمد علی ٹراموے کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا۔ یہ بات بھی قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ابتداء میں ان ٹراموں کو گھوڑے کھینچتے تھے اور گھوڑوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے انھیں سروں پر خاص قسم کے ہیٹ پہنائے جاتے تھے تاکہ وہ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہیں۔ ہر دو میل کے بعد یہ ہیٹ تبدیل کردیے جاتے تھے بلکہ مقررہ فاصلے کے بعد گھوڑے بھی تبدیل کردیے جاتے تھے تاکہ تازہ دم گھوڑے ٹراموں کی رفتار کو کم نہ ہونے دیں۔
ایک علیحدہ باب میں کراچی کی نام ور شخصیات کا ذکر ہے جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں۔ لیکن خدا جانے کیوں مصنف محترمہ رعنا لیاقت علی اور عطیہ فیضی کا ذکر خیر کرنا بھول گئے۔ ان کے علاوہ کراچی سے وابستہ شعراء اور نثرنگاروں کا ذکر بھی موجود ہے۔ جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے اولیاء کرام، علماء اور مشائخ کا ذکر بھی ہے۔ جن میں 24 صوفیائے کرام اور 13 علماء و مشائخ شامل ہیں۔ اولیائے کرام میں حضرت عبداللہ شاہ غازی، حضرت سخی سلطان منگھوپیر، حضرت قطب عالم سید عالم شاہ بخاری، حضرت میوہ شاہ، حضرت سید یوسف شاہ غازی اور حضرت سید نور علی شاہ کے نام نامی نمایاں ہیں۔ گویا کراچی بھی خوش قسمتی سے صوفیوں اور ولیوں کی سرزمین ہے۔
یقینا یہی وجہ تھی کہ گزشتہ دنوں جو زلزلہ یہاں آیا تھا۔ وہ اپنی شدت کے باوجود زیادہ نقصان نہ پہنچا سکا۔ ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں سمندری ہوائیں بہت خطرناک ہوجاتی ہیں۔ ہمیشہ سمندری طوفان کی پیش گوئی کی جاتی ہے لیکن آخری لمحوں میں طوفان اپنا رخ بدل لیتا ہے آخر کو کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی محو خواب ہیں اور منوڑہ میں حضرت یوسف شاہ غازی۔ ''تذکرہ اولیائے سندھ'' میں آپ کی کرامت کا ایک واقعہ یوں لکھا ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پورے ملک میں بلیک آؤٹ تھا۔ لیکن حضرت یوسفؒ کے مزار کے سرہانے والا بلب مسلسل روشن رہتا تھا۔
جس کی وجہ سے سول ڈیفنس کے کارکنوں نے مزار کے مجاوروں کو سخت سست کہا کہ وہ بلب جلا کے رکھتے ہیں تب مجاوروں نے جواب دیا کہ انھوں نے بلیک آؤٹ کے دوران کبھی یہ بلب جلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود تمام بلبوں کے سوئچ احتیاط کے طور پر بند کردیے ہیں۔ جنھیں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ سن کر سول ڈیفنس والوں نے خود تمام بلبوں کا جائزہ لیا کہ سوئچ تو تمام کے تمام بند ہیں۔ایک بلب مسلسل جل رہا ہے وہ اپنے اطمینان کے لیے روضے کے چاروں طرف کی تمام وائرنگ کاٹ کر چلے گئے مگر ان کے چلے جانے کے بعد مزار کے سرہانے والا بلب پھر روشن ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت یوسف شاہ نے کسی سرکاری افسر کو بشارت دی تھی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ واللہ عالم بالصواب
یہ کتاب اب نایاب ہے۔ 1996 کے بعد شہر ہر لحاظ سے بہت پھیل گیا ہے۔ ویرانے آباد ہوگئے ہیں نئی نئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔ جدید ترین پلازا، اسپتال، تعلیمی ادارے اور شاپنگ سینٹرز نے شہر کی خوبصورتی کو بڑھادیا ہے۔ لیکن اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے کراچی پر کام کیا۔ اس کے حوالے سے سیمینار منعقد کیے۔ ہمارا کراچی نامی فیسٹیول منعقد ہوئے۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے چھوٹی چھوٹی گائیڈ بک چھاپیں، لیکن کسی نے بھی اس اہم کتاب کا حوالہ نہ دیا۔
بلکہ بعض کتابیں اور گائیڈ بک میں نے ایسی بھی دیکھیں جن میں اس کتاب کی ہو بہو نقل کی گئی۔ بس اس کے تمام ابواب اور تفصیلات کو مختصر کردیا گیا لیکن کہیں بھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ انھوں نے استفادہ دراصل کس کتاب سے کیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ مصنف نے کبھی کسی کی توجہ اس بات کی جانب نہیں دلائی نہ ہی اعتراض کیا کہ ان کی کتاب سے مواد جوں کا توں نقل کیا گیا لیکن ان کی کتاب اور ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر کہ جو کسی کی بھی تصنیف کو اپنے نام سے شایع کروانے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ کبھی جب اخلاقیات کی پاسداری کی جاتی تھی تو لوگ کسی کی ایک سطر بھی نقل کرتے تھے تو اس کا حوالہ دیتے تھے۔ لیکن اب ''پائریسی'' کا دور دورہ ہے۔ لوگ بڑی ڈھٹائی اور دھڑلے سے کسی کی بھی تصنیف میں معمولی سا ردوبدل کرکے اپنے نام سے چھپوا دیتے ہیں۔
تقسیم سے پہلے ایک لغت چھپی تھی ''فرہنگ آصفیہ'' جو تین جلدوں پر مشتمل تھی، اس بے حد اہم لغت کے مولف تھے خاں صاحب مولوی سید احمد دہلوی۔ جنہوں نے ایک ایک لفظ کی تحقیق کے لیے کئی کئی کالم اور صفحے مخصوص کردیے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک معروف اشاعتی ادارے نے اس لغت کو جوں کا توں چھاپ دیا۔ لیکن سید احمد دہلوی کا کہیں بھی اشارتاً حوالہ نہ دیا۔ بس انھوں نے یہ کہا کہ کسی بھی لفظ، محاورے، کہاوت یا شخصیات کے بارے میں جو نہایت گرانقدر معلومات مولوی صاحب نے دی تھیں انھیں حذف کردیا۔ باقی لفظ بہ لفظ نقل کردیا۔ جن لوگوں کے پاس دونوں لغات ہیں وہ اس دیدہ دلیری بلکہ سرقے سے واقف ہیں۔ ایسا ہی عثمان کی کتاب کے ساتھ ہوا ہے۔ اسی لیے میں نے مناسب جانا کہ اصل کتاب کو سامنے لایا جائے۔
مصنف نے یہ کتاب دس سال کے طویل عرصے میں تحقیق کے بعد تخلیق کی ہے۔ اس میں کل چودہ ابواب ہیں جن میں کراچی کا تاریخ و جغرافیہ، سماجی حالات اور دیگر تفصیلات نہایت سلیقے سے بیان کی گئی ہیں۔ پہلے باب کی ابتداء سیٹھ بھوجومل نامی ایک ہندو تاجر کے ذکر سے ہوتی ہے جو ایک بہترین بندرگاہ کی تلاش میں مچھیروں کی اس بستی کی طرف اتفاقاً آ نکلا تھا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ اس کے بعد انگریزوں نے اور پارسیوں نے اس شہر پر اپنی مہربانیوں کے دروازے کھول دیے۔ انگریزوں نے تو اپنی تجارتی ضروریات کے تحت اس شہر کو ترقی دی، لیکن پارسی کمیونٹی نے صرف خدمت خلق اور انسانی جذبے کے زیر اثر یہاں اسکول، کالج، ڈسپنسریاں اور دیگر عمارات تعمیر کیں۔
کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جو عثمان کی تحقیق و جستجو کے مطابق ماضی میں 30 سے زائد ناموں سے پکارا گیا۔ یہ نام اس طرح ہیں۔ کروکالا، سکندری جنت، مورون ٹوبارا، دریو، خورالدہبل، خورعلی، دیبل، قلاچی، قلاچی جو گوٹھ، کلاچی جو کن ، قلاچی جو کنڈ، خراچی، ککرالہ، کراشہر، قلاتی بندر، کروکل، کروکالی، کرنجی، کورہ، کروکانا، دھاروجہ، کراشی، کھوراجی، کراچر، کورنجی، کاؤمارا، گھراچر، داراجا، کراچی جو گوٹھ، کراچے ٹاؤن، کوراچی اور کراچی ۔
اس کتاب میں شہر کے حوالے سے ہر وہ معلومات ہیں جو اس شہر کو جاننے کے لیے ضروری ہیں۔ کراچی کی تاریخ زمانہ قبل از مسیح سے شروع کی گئی ہے، پھر ترخانوں کا دور مغلوں کا دور، کلہوڑہ دور، تالپور دور، انگریزوں کا دور، برطانوی نظم و نسق کے حوالے سے سرچارلس نیپئر کا دور، کراچی کی بمبئی سے وابستگی، کراچی کے مختلف کمشنر اور ان کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل، جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے قدم جمنے کی بنیادی وجہ ان کا نظم و نسق، تعلیمی اصلاحات، ترقیاتی منصوبے اور عام آدمی کی پہنچ عدلیہ تک، میرٹ پر عمل، یہ ایسی خصوصیات تھیں جنھوں نے انھیں طویل مدت تک حکمرانی کا موقع دیا بلکہ آج بھی لوگ انگریز کے دور کو یاد کرتے ہیں۔
کراچی کے تعلیمی اداروں کے حوالے سے سندھ مدرسۃالاسلام کے قیام کا حال تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح جسٹس سید امیر علی جو نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے سیکریٹری تھے اور حسن علی آفندی جو اس شاخ کے صدر تھے دونوں نے ملکر اس ایسوسی ایشن کے معتمد اعزازی مولوی اللہ بخش کے ساتھ مل کر ''سندھ مدرسہ بورڈ'' قائم کیا۔ بولٹن مارکیٹ کے قریب ایک مختصر سی عمارت کو کرایہ پر لے کر 30 اگست 1885 میں سندھ مدرسۃ الاسلام کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ذرایع نقل و حمل کے باب میں ٹراموں اور بسوں کا بھی ذکر ہے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ غالباً 1970 تک کراچی کے سابقہ بندر روڈ اور موجودہ ایم۔ اے جناح روڈ پر ٹرامیں چلتی تھیں۔ جس کا کرایہ صرف 10 پیسے ہوتا تھا۔
اپنے اختتام تک صرف 25 پیسے کرایہ لیا جاتا تھا۔ یہ ٹرامیں محمد علی ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں۔ اس وقت موجودہ رمپا پلازہ کی جگہ محمد علی ٹراموے کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا۔ یہ بات بھی قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ابتداء میں ان ٹراموں کو گھوڑے کھینچتے تھے اور گھوڑوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے انھیں سروں پر خاص قسم کے ہیٹ پہنائے جاتے تھے تاکہ وہ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہیں۔ ہر دو میل کے بعد یہ ہیٹ تبدیل کردیے جاتے تھے بلکہ مقررہ فاصلے کے بعد گھوڑے بھی تبدیل کردیے جاتے تھے تاکہ تازہ دم گھوڑے ٹراموں کی رفتار کو کم نہ ہونے دیں۔
ایک علیحدہ باب میں کراچی کی نام ور شخصیات کا ذکر ہے جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں۔ لیکن خدا جانے کیوں مصنف محترمہ رعنا لیاقت علی اور عطیہ فیضی کا ذکر خیر کرنا بھول گئے۔ ان کے علاوہ کراچی سے وابستہ شعراء اور نثرنگاروں کا ذکر بھی موجود ہے۔ جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے اولیاء کرام، علماء اور مشائخ کا ذکر بھی ہے۔ جن میں 24 صوفیائے کرام اور 13 علماء و مشائخ شامل ہیں۔ اولیائے کرام میں حضرت عبداللہ شاہ غازی، حضرت سخی سلطان منگھوپیر، حضرت قطب عالم سید عالم شاہ بخاری، حضرت میوہ شاہ، حضرت سید یوسف شاہ غازی اور حضرت سید نور علی شاہ کے نام نامی نمایاں ہیں۔ گویا کراچی بھی خوش قسمتی سے صوفیوں اور ولیوں کی سرزمین ہے۔
یقینا یہی وجہ تھی کہ گزشتہ دنوں جو زلزلہ یہاں آیا تھا۔ وہ اپنی شدت کے باوجود زیادہ نقصان نہ پہنچا سکا۔ ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں سمندری ہوائیں بہت خطرناک ہوجاتی ہیں۔ ہمیشہ سمندری طوفان کی پیش گوئی کی جاتی ہے لیکن آخری لمحوں میں طوفان اپنا رخ بدل لیتا ہے آخر کو کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی محو خواب ہیں اور منوڑہ میں حضرت یوسف شاہ غازی۔ ''تذکرہ اولیائے سندھ'' میں آپ کی کرامت کا ایک واقعہ یوں لکھا ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پورے ملک میں بلیک آؤٹ تھا۔ لیکن حضرت یوسفؒ کے مزار کے سرہانے والا بلب مسلسل روشن رہتا تھا۔
جس کی وجہ سے سول ڈیفنس کے کارکنوں نے مزار کے مجاوروں کو سخت سست کہا کہ وہ بلب جلا کے رکھتے ہیں تب مجاوروں نے جواب دیا کہ انھوں نے بلیک آؤٹ کے دوران کبھی یہ بلب جلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود تمام بلبوں کے سوئچ احتیاط کے طور پر بند کردیے ہیں۔ جنھیں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ سن کر سول ڈیفنس والوں نے خود تمام بلبوں کا جائزہ لیا کہ سوئچ تو تمام کے تمام بند ہیں۔ایک بلب مسلسل جل رہا ہے وہ اپنے اطمینان کے لیے روضے کے چاروں طرف کی تمام وائرنگ کاٹ کر چلے گئے مگر ان کے چلے جانے کے بعد مزار کے سرہانے والا بلب پھر روشن ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت یوسف شاہ نے کسی سرکاری افسر کو بشارت دی تھی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ واللہ عالم بالصواب