ایران پر ممکنہ حملہ عالمی امن کے لیے خطرہ
ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے ، جسے پاٹنے کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آتی
ایران کی بڑھتی ہوئی سیاسی وعسکری قوت بہت سوں کوایک آنکھ نہیں بھا رہی، کیونکہ ایران ایک طاقتور فوجی قوت کے طور پر مختلف ممالک میں برسرپیکار ہے، جس میں شام کا محاذ بھی شامل ہے ۔ عالمی طاقتوں کی ضمانت سے جاری ہونے والے ایران جوہری معاہدے کی منسوخی اور امریکا کا یورپین یونین کی مخالفت کے باوجود اسے ماننے سے واضح انکار اس کا بین ثبوت ہے ۔
ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے مطابق واشنگٹن اور تل ابیب ایران پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اس پلان کوایران پروجیکٹ کا نام دیا ہے۔ اس منصوبے میں ممکنہ طور پر سرجیکل اسٹرائیکس کے ذریعے ایران کی جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل، لانچنگ پیڈ اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ چند دہائیاں قبل اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات کو ایک ایسی ہی کارروائی میں تباہ و برباد کردیا تھا ۔ایک جانب امریکا اور روس سرد جنگ سے نکل کر عملی جنگ میں مصروف نظر آرہے ہیں۔دونوں بڑی عالمی طاقتیں اپنے پسندیدہ ممالک یا جنگجوگروپوں کی حمایت کررہی ہیں۔ عالمی امن کی تباہی وبربادی میں امریکا اور روس کا کردار یکساں ہے ۔
امریکا اور روس کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کی توقعات کم ہیں گوکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوتن میں ملاقات ہونے والی ہے، لیکن مثبت نتائج کی امیدکم ہے ۔ اس وقت ایران اور حزب اللہ شام کے محاذ پر سرگرم ہیں۔ جنوبی شام میں اسرائیلی سرحد کی طرف ان کی پیش قدمی جاری ہے، لہٰذا اس پیش قدمی کو روکنے کے لیے اسرائیل امریکی آشیر آباد سے ایران پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والا انتالیس ممالک کا اسلامی فوجی اتحاد ہے جس میں ایران شامل نہیں ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے ، جسے پاٹنے کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آتی ۔ اسلامی ممالک میں اتحاد اور یگانگت کا فقدان ہے ،ایک امت واحدکا تصور جو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تھا، دھندلا گیا ہے۔ایسے میں امکانات یہی نظر آتے ہیں کہ مسلم ممالک کو باہم دست وگریبان کروا کر عالمی طاقتیں پہلے کمزور کرچکی ہیں اور اب انھیں علیحدہ علیحدہ کرکے اپنی غلامی میں لینے کا وقت قریب آرہا ہے ۔اسرائیل یا امریکا سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کچھ بھی کرگزریں ،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے مطابق واشنگٹن اور تل ابیب ایران پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اس پلان کوایران پروجیکٹ کا نام دیا ہے۔ اس منصوبے میں ممکنہ طور پر سرجیکل اسٹرائیکس کے ذریعے ایران کی جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل، لانچنگ پیڈ اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ چند دہائیاں قبل اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات کو ایک ایسی ہی کارروائی میں تباہ و برباد کردیا تھا ۔ایک جانب امریکا اور روس سرد جنگ سے نکل کر عملی جنگ میں مصروف نظر آرہے ہیں۔دونوں بڑی عالمی طاقتیں اپنے پسندیدہ ممالک یا جنگجوگروپوں کی حمایت کررہی ہیں۔ عالمی امن کی تباہی وبربادی میں امریکا اور روس کا کردار یکساں ہے ۔
امریکا اور روس کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کی توقعات کم ہیں گوکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوتن میں ملاقات ہونے والی ہے، لیکن مثبت نتائج کی امیدکم ہے ۔ اس وقت ایران اور حزب اللہ شام کے محاذ پر سرگرم ہیں۔ جنوبی شام میں اسرائیلی سرحد کی طرف ان کی پیش قدمی جاری ہے، لہٰذا اس پیش قدمی کو روکنے کے لیے اسرائیل امریکی آشیر آباد سے ایران پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والا انتالیس ممالک کا اسلامی فوجی اتحاد ہے جس میں ایران شامل نہیں ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے ، جسے پاٹنے کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آتی ۔ اسلامی ممالک میں اتحاد اور یگانگت کا فقدان ہے ،ایک امت واحدکا تصور جو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تھا، دھندلا گیا ہے۔ایسے میں امکانات یہی نظر آتے ہیں کہ مسلم ممالک کو باہم دست وگریبان کروا کر عالمی طاقتیں پہلے کمزور کرچکی ہیں اور اب انھیں علیحدہ علیحدہ کرکے اپنی غلامی میں لینے کا وقت قریب آرہا ہے ۔اسرائیل یا امریکا سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کچھ بھی کرگزریں ،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔