پولیس نے اغوا کرنے والے اصل ملزمان فرار کرادیے بازیاب لڑکی

لڑکی کاعدالت میں موجودملزمان کوشناخت کرنے سے انکار،پولیس نے اغوا کرنیوالے اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا تھا،بتول

بچی کے بیان پرعدالت نے دونوں ملزم رہا کردیے،غلط کام سے انکارکرنے پرتشددکیا جاتا تھا، وہاں10اورلڑکیاں بھی موجودتھیں،بیان قلمبند۔ فوٹو:فائل

گلستان جوہر پولیس کے ہاتھوں مبینہ بین الصوبائی اغوا کار گروہ کے 2 کارندوں نعمت اللہ اور اکرم کے خلاف کیس نے نیا موڑ اختیار کرلیا۔

بازیافتہ 13 سالہ بچی بتول عمری نے ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کردیا پولیس نے اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جو ان کے سامنے فرار ہوئے، عدالت میں موجود ملزمان کو دیکھا اور نہ ہی انھیں جانتے ہیں، مغویہ کے بیان پر عدالت نے دونوں ملزمان کو فوری رہا کردیا، پیر کو پولیس نے 13سالہ بتول کا بیان قلمبند کرنے کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کے روبرو پیش کیا اس موقع پر پولیس نے گرفتار ملزمان نعمت اور اکرم کو بھی عدالت میں پیش کیا ۔

عدالت نے مغویہ کا بیان قلمبند کیا مغویہ نے عدالت کو بتایا عدالت میں موجود ملزمان کو وہ نہیں جانتی اور نہ ہی انھوں نے مجھے دیکھا اور نہ ہی میں نے انھیں دیکھا جو اصل ملزمان تھے وہ پولیس کی موجودگی میں فرار ہوگئے تھے پولیس نے اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا بتول نے مزید بتایا کہ ملزمہ صائمہ جو کہ پڑوسن تھی اکثر بازار اپنے ہمراہ لے جاتی تھی اور واپس گھر چھوڑجاتی تھی، اعتماد ہونے پر میں بھی بلاجھجک اکثر ان کے ساتھ بازار جاتی تھی 2 فروری کو معمول کے مطابق وہ مجھے اپنے ساتھ بازار لے گئی اور گاڑی میں بٹھاکر ایک مکان میں بند کردیا بعدازاں مجھے ٹھٹھہ پہنچایا گیا ۔

چند روز بعد کراچی لائے ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل کرتے تھے اور غلط کام کرنے پر مجبور کرتے تھے انکار کرنے پر شدید تشدد کرکے کرنٹ لگاتے تھے، اس دوران کئی لڑکیوں کو بھی وہاں لایا گیا جب مجھے اس مکان میں پہنچایا گیا اس وقت وہاں 10 لڑکیاں موجود تھیں جنھیں لاہور سے اغواکرکے لایا گیا تھا مونا کے پاس بڑے بڑے لوگ آتے تھے مونا آنٹی کے پاس بہت سارے لوگ کام کرتے ہیں ان کا نیٹ ورک بہت بڑا ہے عدالت نے مغویہ کا بیان قلمبند کرنے کے بعد ملزمان کو فوری رہا کردیا ۔

چچااورچچی نے مجھے کئی بار بیچا اور کئی نکاح کرائے ،شازیہ

دس سال کی عمر میں چجا اور چچی نے اسے فروخت کردیا تھا جب وہ لاہور کے ایک بنگلے میں کام کرتی تھی پولیس نے ملزمہ صائمہ کے مکان سے بازیافتہ شازیہ کو فاضل عدالت میں پیش کیا تھا اس موقع پر اس نے بتایا کہ10 سال کی تھی لاہور کے بنگلے میں کام کرتی تھی بنگلے کی مالکن مہوش نے سودا منگوانے بازار بھیجا تھا راستے میں میری چچی اور چچا ممتاز نے مجھے اپنے گھر لے گئے اور وہاں ایک خاتون کو فروخت کردیا جس کا مجھے علم نہیں کہ کتنے میں فروخت کیا وہ عورت مجھے کراچی لے آئی اور مونا کو فروخت کردیا تھا ۔


میں 6سال سے ان کے گھر میں رہ رہی ہوں گھر سے مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اس دوران میرے کئی بار نکاح کیے گئے اور غلط کا م پر لگایا انکار کرنے پر سلمان نامی شخص تشدد کرتا تھا اور بجلی کا کرنٹ لگاتا تھا لاہور میں رہتی تھی اب گھر کا معلوم نہیں والدین کہاں ہیں کوئی علم نہیں والدین کا نام بھی یاد نہیں نانا اور نانی جڑاں والا میں رہتے تھے مونا آنٹی کے گھر پر اکثر لڑکیوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی مونا آنٹی کے ساتھ بہت سے لوگ کام کرتے ہیں جب پولیس آئی تو سلمان دیوار پھلانک کر فرار ہوگیا تھا۔

مکان سے بتول کے ہمراہ 6 لڑکیاں بازیاب کرائی گئیں،پولیس

پیشی کے موقع پر پولیس نے عدالت کو بتایا کہ فروری میں اغواکی گئی بتول کی بازیابی کے لیے خفیہ اطلاع پر گلستان جوہر پولیس نے سچل تھانہ کی حدود میں صائمہ عرف مونا کے گھر پر چھاپہ مارکر مغویہ بتول عمری کو برآمد کیا تھا اس موقع پر صائمہ عرف مونا کے گھر سے مختلف شہروں سے اغوا کرکے لائی جانے والی دیگر 6 لڑکیوں کو بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لیا تھا مختلف شہروں سے اغوا کرکے لائی جانیوالی مزید 6 لڑکیوں میں عائشہ، سمیرا، شازیہ کرن، ستارہ اور نورین شامل ہیں ان کے اہل خانہ کی تلاش جاری ہے جبکہ 2 لڑکیوں کے والدین نے رابطہ کیا ہے وہ گاڑی میں سوار ہوچکے ہیں جلد کراچی پہنچ جائیں گے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ تصدیق کرائے بغیر لڑکیوں کو والدین کے حوالے نہ کیا جائے جبکہ ایک لڑکی جسے لاہور سے 6 سال قبل اغوا کیا گیا تھا اسے اپنے والدین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں جس کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے عدالت نے دو دن میں لڑکی کے والدین یا کسی رشتے دار کا سراغ لگا کر رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے استغاثہ کے مطابق تھانہ گلستان جوہر میں فروری کو مدعیہ نے اپنی بیٹی بتول کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی شعبہ تفتیش پولیس نے خفیہ اطلاع پر سچل تھانے کی حدود میں چھاپہ مار کر مغویہ بتول کو بازیاب کیا ہے۔

مونا ہماری کرایے دارتھی ہمیں محسوس نہ ہواکہ یہ اتناگھناؤناکام کرتی ہے،بتول کی ماں

بتول کی ماں نے بتایا کہ صائمہ عرف مونا ان کی کرایے دار تھی اس نے کببی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسا گھناؤنا کام کرتی ہے وہ میری بیٹی کو اکثر اپنے ساتھ بازار لے جایا کرتی تھی ہمیں بھی اعتماد ہوگیا تھا بتول کے اغوا ہونے کے بعد ہم نے اسے کئی جگہ تلاش کیا بیٹی کی تلاش کے لیے لاڑکانہ اور اندورن سندھ کے شہروں میں دھکے کھانے کے بعد سچل تھانے کی حدود سے بازیاب کیا ہم نے ملزمہ صائمہ عرف مونا آنٹی اور اس کے نام نہاد شوہر سے کببی کرایہ بھی نہیں لیا تھا جس نے ہمیں ہماری ہی بیٹی کو اغوا کرکے نیکی اور احسان کا یہ صلہ دیا۔
Load Next Story