اِس مٹی کی محبت میں
عوام جسے بھی منتخب کریں وہ اقتدار اُس کے حوالے کردے۔
جناب محمد نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے سب سے کٹھن دنوں سے آج کل گزر رہے ہیں ۔انھیں یہ ہرگز پتہ نہیں ہے کہ اپیلیٹ کورٹس سے انھیں ریلیف ملے گا بھی یا نہیں ۔لیکن وہ پھر بھی اپنے مخالفوں کی توقعات کے برعکس وطن واپس آگئے۔ وطن واپس نہ آنے کا اُن کے پاس بہت ہی جائز اور مضبوط بہانہ بھی موجود تھا لیکن انھوں نے اُسے استعمال کرنے کی بجائے بہتر یہی سمجھا کہ جمہوریت دشمن قوتوں کے ساتھ میدان میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں میں اِس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا نام سرفہرست تھا لیکن اب میاں نواز شریف نے آج اپنا نام بھی اِس فہرست میں لکھادیا ہے۔
ماضی میں ہر دفعہ مارشل لاء لگنے کے بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والوں میں ہمارے بہت سے نامور سیاستدانوں کا نام بھی آتاہے، جن میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی شامل ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں آصف علی زرداری کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں رہتے ہوئے مقدمات بھگت رہے تھے اور محترمہ پاکستان میں اُن کے لیے رہائی کی کوششیں کرنے کی بجائے باہر رہ کرمشرف حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کی کوششوں میں سرگرداں تھیں۔ وہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے اُس وقت پاکستان واپس لوٹ آئیں جب مشرف کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل طے پاچکی۔ اُس وقت ایک این آر او تشکیل دیا جاچکا تھا۔اِس لیے مشرف دور میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے میں اُن کا کوئی قابل ذکر کردار شامل نہیںتھا۔وہ تب واپس آئیں جب جنرل مشرف کمزور ہوچکے تھے اور اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔
دبئی میں ہونے والی ایک خفیہ ڈیل میں جب مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں انھیں بطور صدر مملکت قبول کرلیا گیا تب جاکے انھوں نے محترمہ کو وطن واپس آنے دیا۔ ہاں البتہ 27دسمبر 2007ء کو ہونے والی اُن کی ناگہانی شہادت ایک ایسا معمہ ہے جوشاید ہی کبھی حل ہو پائے۔کہنے والے کچھ لوگ اِسے پرویز مشرف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اورکچھ لوگ اِس کا الزام آصف علی زرداری پر ڈالتے ہیں۔ آصف علی زرداری پرلگایا جانے والا یہ الزام اُس وقت اور بھی تقویت پاجاتا ہے جب آصف علی زرداری اپنے پورے پانچ سالہ دور میں اُس کی مکمل تحقیقات نہیں کرا پاتے۔اِس سارے کیس میں محترمہ کے سیکیورٹی افسر خالد شہنشاہ کی اچانک موت بھی ایک ایسا واقعہ ہے جو اگر درست طور پرتحقیقات کی جاتیں تومحترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا یقینا آسان ہوجاتا، مگر نہ محترمہ کے قتل کی صحیح طور پر تحقیقات ہوئیں اور نہ خالد شہنشاہ کے قاتلوں کاپتہ لگایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2000ء میں میاں نواز شریف کو زبردستی جلا وطن کیا تھا۔ یہ بات اُس معاہدے سے پوری طرح واضح ہوجاتی ہے جو سعودی حکمرانوں کے دباؤپرملزم میاں نواز شریف اور اُس وقت کے فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے بیچ قرار پایا تھا۔میاں نواز شریف اُس وقت بھی وطن چھوڑنے پر راضی نہ تھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ان کے اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ میاں نواز شریف کے خواہش پر ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ یہ اُس وقت کے معروضی حالات و واقعات کے نتیجے میں صرف مشرف صاحب کی مرضی و منشاء سے طے پایا تھا۔ اِس میں ملزم یامجرم کی کسی خواہش کا کوئی عمل دخل شامل نہیں تھا ۔دنیاکے کسی قانون میں کسی مجرم کویہ سہولت حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ 21 سالہ قید کی سزا سنائے جانے کے بعد بھی اپنی خواہش پر جلاوطنی اختیار کرسکے۔ اِس بات کی تصدیق میاں صاحب کی وطن واپس آنے کی اُن کوششوں سے بھی ہوجاتی ہے جب وہ سعودی عرب سے پاکستان واپس تشریف لاتے ہیں اور انھیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے زبردستی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
میاں صاحب کو آج ایک بار پھر کچھ ایسے ہی حالات کاسامنا ہے۔ آج گرچہ ملک میں کوئی فوجی حکومت نہیں ہے اور نہ کوئی سول آمریت کا راج ہے، ایک نگراں سیٹ اپ قائم ہے جس کی صرف ایک ہی ذمے داری ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنائے اور عوام کے منتخب کردہ نئے حکمرانوں کو عنان حکومت سونپ دے۔اُس کی یہ قطعا ذمے داری نہیں ہے کہ وہ عوام کی پسند اور ناپسند پر اپنی مرضی مسلط کرے اوریہ طے کرے کہ آنے والا حکمراں کیسا ہو ۔ عوام جسے بھی منتخب کریں وہ اقتدار اُس کے حوالے کردے۔
نگراں حکومت کے بننے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور بہت حد تک یہ گمان کیاجارہا تھا کہ 2018ء کا الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیت لے گی۔یہی چیز ہمارے ملک کی اصل مقتدر قوتوں کونہیں بھائی۔انھیں خدشہ لاحق ہونے لگا کہ اِس طرح تو یہ شخص اور بھی مضبوط ہوجائے گا۔مملکت خداداد پاکستان میںآج تک جن قوتوں کا راج رہا ہے وہ کسی بھی سول اورجمہوری حکمراں کو اتنا مضبوط اور توانا ہونے ہی نہیں دیتیں کہ وہ مکمل آزادی اور خود مختاری کے ساتھ سارے امورمملکت چلا پائے۔اِن قوتوں نے بہت سے امور صرف اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں وہ اِن میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ دھرنے کو ناکام بنانے کے بعد میاں صاحب کامیابی و کامرانی کے آسمانوں پربہت اونچی اُڑان اُڑنے لگے تھے۔انھوں نے مقتدر قوتوں کو آئین و قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ لہذا اُن کے پرکاٹنا ضروری قرار پائے۔
وہ آج جس سزا کو بھگت رہے ہیں وہ اُن کی ایسی ہی باغیانہ کارروائیوں کا شاخسانہ ہے۔ جی ایچ کیو کی نرسری میں پرورش پانے والے نواز شریف نے آج اِسی نرسری سے لڑائی مول لی ہے۔ وہ اب کسی سمجھوتے پرراضی بھی نہیںہو رہے۔بہت کوشش کی گئی کہ انڈر ہینڈ وہ کوئی سمجھوتہ کرلیں ۔خاموشی سے کچھ عرصے کے لیے سیاست سے کنارہ کش ہوجائے۔محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کا بہانہ بناکر کم از کم الیکشن تک ہی ملک سے باہر رہے لیکن وہ کسی سمجھوتے پر راضی ہی نہ ہوا ۔اُس نے یہ عزم کررکھا ہے کہ ستر سال سے کھیلا جانے والا یہ کھیل اب ختم ہوجانا چاہیے۔
اپنے خلاف گیارہ سالہ سزا کا فیصلہ سنتے ہی اُس نے فوراً واپس آنے کا اعلان کرڈالا۔قطع نظر اِس کے کہ اُن کے خلاف لگائے جانے والے مبینہ منی لانڈری کے الزامات کتنے درست اور مصدقہ ہیں اُسے جو سزا دی گئی ہے وہ کسی طور قانون کے مروجہ اُصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ محض مفروضوں کو سزا کی بنیاد بنایاگیا ہے۔کسی الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کی تاریخ کا تعین بھی نہیں کیاگیاہے۔اِس فیصلے میں جے آئی ٹی کی دس جلدوں پر مبنی ثبوتوں کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اِس فیصلے میں بہت سے قانونی سقم رہ گئے ہیں۔ایسا لگتا ہے سزادینے والوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ ہر حالت میں سزادینی ہے۔ اربوں ڈالرز کی جس کرپشن کا واویلامچایا گیا تھااِس فیصلے میں اُس الزام سے میاں صاحب کو مکمل طور پر بری کردیا گیا ہے۔
میاں صاحب نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آج خود کو مشکلوں میں ڈالا ہے۔وہ چاہتے تو باقی زندگی مقتدر قوتوں سے سمجھوتہ کر کے آرام وسکون سے گزار لیتے ، لیکن اپنی عمر کے اِس حصے میں انھوں نے سمجھوتے کی بجائے ایک جوان اور باہمت شخص کی طرح مقابلے کی ٹھانی ہے۔ وطن عزیز کی محبت انھیں ملک سے دور رہنے نہیں دیتی۔وہ پہلے بھی جلاوطنی کے دور میں دوڑ دوڑ کر پاکستان آناچاہتے تھے۔اور اِس بار بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔انھیں یہ ہرگز پتہ نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ضمانت پررہا ہوپائیں گے بھی یا نہیں۔مگر وہ پھر بھی اِس مٹی کی محبت میں آشفتہ سرا بن کر واپس لوٹ آئے ہیں۔انھیں نہیں معلوم کی ووٹ کے تقدس کی خاطر جس جدوجہد کا آغاز انھوں نے کیا ہے وہ اُسے کامیابی سے ہمکنار کرپائیںگے بھی یا نہیں۔لیکن عزم بتا رہا ہے کہ وہ اب پیچھے ہٹنے والے نہیں خواہ اِس جدوجہد میں اُن کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
ماضی میں ہر دفعہ مارشل لاء لگنے کے بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والوں میں ہمارے بہت سے نامور سیاستدانوں کا نام بھی آتاہے، جن میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی شامل ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں آصف علی زرداری کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں رہتے ہوئے مقدمات بھگت رہے تھے اور محترمہ پاکستان میں اُن کے لیے رہائی کی کوششیں کرنے کی بجائے باہر رہ کرمشرف حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کی کوششوں میں سرگرداں تھیں۔ وہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے اُس وقت پاکستان واپس لوٹ آئیں جب مشرف کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل طے پاچکی۔ اُس وقت ایک این آر او تشکیل دیا جاچکا تھا۔اِس لیے مشرف دور میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے میں اُن کا کوئی قابل ذکر کردار شامل نہیںتھا۔وہ تب واپس آئیں جب جنرل مشرف کمزور ہوچکے تھے اور اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔
دبئی میں ہونے والی ایک خفیہ ڈیل میں جب مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں انھیں بطور صدر مملکت قبول کرلیا گیا تب جاکے انھوں نے محترمہ کو وطن واپس آنے دیا۔ ہاں البتہ 27دسمبر 2007ء کو ہونے والی اُن کی ناگہانی شہادت ایک ایسا معمہ ہے جوشاید ہی کبھی حل ہو پائے۔کہنے والے کچھ لوگ اِسے پرویز مشرف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اورکچھ لوگ اِس کا الزام آصف علی زرداری پر ڈالتے ہیں۔ آصف علی زرداری پرلگایا جانے والا یہ الزام اُس وقت اور بھی تقویت پاجاتا ہے جب آصف علی زرداری اپنے پورے پانچ سالہ دور میں اُس کی مکمل تحقیقات نہیں کرا پاتے۔اِس سارے کیس میں محترمہ کے سیکیورٹی افسر خالد شہنشاہ کی اچانک موت بھی ایک ایسا واقعہ ہے جو اگر درست طور پرتحقیقات کی جاتیں تومحترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا یقینا آسان ہوجاتا، مگر نہ محترمہ کے قتل کی صحیح طور پر تحقیقات ہوئیں اور نہ خالد شہنشاہ کے قاتلوں کاپتہ لگایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2000ء میں میاں نواز شریف کو زبردستی جلا وطن کیا تھا۔ یہ بات اُس معاہدے سے پوری طرح واضح ہوجاتی ہے جو سعودی حکمرانوں کے دباؤپرملزم میاں نواز شریف اور اُس وقت کے فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے بیچ قرار پایا تھا۔میاں نواز شریف اُس وقت بھی وطن چھوڑنے پر راضی نہ تھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ان کے اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ میاں نواز شریف کے خواہش پر ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ یہ اُس وقت کے معروضی حالات و واقعات کے نتیجے میں صرف مشرف صاحب کی مرضی و منشاء سے طے پایا تھا۔ اِس میں ملزم یامجرم کی کسی خواہش کا کوئی عمل دخل شامل نہیں تھا ۔دنیاکے کسی قانون میں کسی مجرم کویہ سہولت حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ 21 سالہ قید کی سزا سنائے جانے کے بعد بھی اپنی خواہش پر جلاوطنی اختیار کرسکے۔ اِس بات کی تصدیق میاں صاحب کی وطن واپس آنے کی اُن کوششوں سے بھی ہوجاتی ہے جب وہ سعودی عرب سے پاکستان واپس تشریف لاتے ہیں اور انھیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے زبردستی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
میاں صاحب کو آج ایک بار پھر کچھ ایسے ہی حالات کاسامنا ہے۔ آج گرچہ ملک میں کوئی فوجی حکومت نہیں ہے اور نہ کوئی سول آمریت کا راج ہے، ایک نگراں سیٹ اپ قائم ہے جس کی صرف ایک ہی ذمے داری ہے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنائے اور عوام کے منتخب کردہ نئے حکمرانوں کو عنان حکومت سونپ دے۔اُس کی یہ قطعا ذمے داری نہیں ہے کہ وہ عوام کی پسند اور ناپسند پر اپنی مرضی مسلط کرے اوریہ طے کرے کہ آنے والا حکمراں کیسا ہو ۔ عوام جسے بھی منتخب کریں وہ اقتدار اُس کے حوالے کردے۔
نگراں حکومت کے بننے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور بہت حد تک یہ گمان کیاجارہا تھا کہ 2018ء کا الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیت لے گی۔یہی چیز ہمارے ملک کی اصل مقتدر قوتوں کونہیں بھائی۔انھیں خدشہ لاحق ہونے لگا کہ اِس طرح تو یہ شخص اور بھی مضبوط ہوجائے گا۔مملکت خداداد پاکستان میںآج تک جن قوتوں کا راج رہا ہے وہ کسی بھی سول اورجمہوری حکمراں کو اتنا مضبوط اور توانا ہونے ہی نہیں دیتیں کہ وہ مکمل آزادی اور خود مختاری کے ساتھ سارے امورمملکت چلا پائے۔اِن قوتوں نے بہت سے امور صرف اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں وہ اِن میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ دھرنے کو ناکام بنانے کے بعد میاں صاحب کامیابی و کامرانی کے آسمانوں پربہت اونچی اُڑان اُڑنے لگے تھے۔انھوں نے مقتدر قوتوں کو آئین و قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ لہذا اُن کے پرکاٹنا ضروری قرار پائے۔
وہ آج جس سزا کو بھگت رہے ہیں وہ اُن کی ایسی ہی باغیانہ کارروائیوں کا شاخسانہ ہے۔ جی ایچ کیو کی نرسری میں پرورش پانے والے نواز شریف نے آج اِسی نرسری سے لڑائی مول لی ہے۔ وہ اب کسی سمجھوتے پرراضی بھی نہیںہو رہے۔بہت کوشش کی گئی کہ انڈر ہینڈ وہ کوئی سمجھوتہ کرلیں ۔خاموشی سے کچھ عرصے کے لیے سیاست سے کنارہ کش ہوجائے۔محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کا بہانہ بناکر کم از کم الیکشن تک ہی ملک سے باہر رہے لیکن وہ کسی سمجھوتے پر راضی ہی نہ ہوا ۔اُس نے یہ عزم کررکھا ہے کہ ستر سال سے کھیلا جانے والا یہ کھیل اب ختم ہوجانا چاہیے۔
اپنے خلاف گیارہ سالہ سزا کا فیصلہ سنتے ہی اُس نے فوراً واپس آنے کا اعلان کرڈالا۔قطع نظر اِس کے کہ اُن کے خلاف لگائے جانے والے مبینہ منی لانڈری کے الزامات کتنے درست اور مصدقہ ہیں اُسے جو سزا دی گئی ہے وہ کسی طور قانون کے مروجہ اُصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ محض مفروضوں کو سزا کی بنیاد بنایاگیا ہے۔کسی الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کی تاریخ کا تعین بھی نہیں کیاگیاہے۔اِس فیصلے میں جے آئی ٹی کی دس جلدوں پر مبنی ثبوتوں کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اِس فیصلے میں بہت سے قانونی سقم رہ گئے ہیں۔ایسا لگتا ہے سزادینے والوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ ہر حالت میں سزادینی ہے۔ اربوں ڈالرز کی جس کرپشن کا واویلامچایا گیا تھااِس فیصلے میں اُس الزام سے میاں صاحب کو مکمل طور پر بری کردیا گیا ہے۔
میاں صاحب نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آج خود کو مشکلوں میں ڈالا ہے۔وہ چاہتے تو باقی زندگی مقتدر قوتوں سے سمجھوتہ کر کے آرام وسکون سے گزار لیتے ، لیکن اپنی عمر کے اِس حصے میں انھوں نے سمجھوتے کی بجائے ایک جوان اور باہمت شخص کی طرح مقابلے کی ٹھانی ہے۔ وطن عزیز کی محبت انھیں ملک سے دور رہنے نہیں دیتی۔وہ پہلے بھی جلاوطنی کے دور میں دوڑ دوڑ کر پاکستان آناچاہتے تھے۔اور اِس بار بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔انھیں یہ ہرگز پتہ نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ضمانت پررہا ہوپائیں گے بھی یا نہیں۔مگر وہ پھر بھی اِس مٹی کی محبت میں آشفتہ سرا بن کر واپس لوٹ آئے ہیں۔انھیں نہیں معلوم کی ووٹ کے تقدس کی خاطر جس جدوجہد کا آغاز انھوں نے کیا ہے وہ اُسے کامیابی سے ہمکنار کرپائیںگے بھی یا نہیں۔لیکن عزم بتا رہا ہے کہ وہ اب پیچھے ہٹنے والے نہیں خواہ اِس جدوجہد میں اُن کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔