ووٹ کی عزت کی جدوجہد
میاں شہباز شریف نے ڈیپ اسٹیٹ کے دباؤ پر اپنے منشور میں بھارت سے دوستی کے نکتے کو شامل نہیں کیا
مسلم لیگ 1905ء میں قائم ہوئی ۔ 2018ء میں مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کرنے والی جماعتوں میں شامل ہوئی ، نواز اور شہباز شریف کا بیانیہ ایک ہوا ، نگراں حکومتوں کی غیر جانبداری ختم ہوئی ۔ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات درست ثابت ہوئے ۔ مسلم لیگ اور اقتدار میں فاصلے طویل ہوئے۔ میاں نواز شریف نے عدالت سے سزا ہونے کے بعد پاکستان واپسی کا فیصلہ کرکے تاریخ میں اپنا نام درج کرایا، مگر اب شہباز شریف کو ووٹ کی عزت کے حق کو منوانے کے لیے طویل جدوجہد کرنی ہوگی۔
میاں شہباز شریف کے منشور اور ان کے بھائی میاں نواز شریف کے 2013ء کے انتخابات کے موقعے پر پیش کیے جانے والے منشور میں دو بنیادی فرق ظاہر ہو رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف نے جب اپریل 2013ء میں اپنا منشور پیش کیا تھا تو اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر میمو اسکینڈل اچھالا تھا ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سزا کو جمہوری نظام کے لیے نیک شگون جانا تھا، وہ بین الاقوامی صورتحال کا درست ادراک کر رہے تھے، اسی بناء پر انھوں نے انتخابی مہم میں بھارت سے بہتر تعلقات کا نعرہ بلند کیا تھا ۔
میاں صاحب اس وقت امریکا ، افغانستان اور ایران سے اچھے تعلقات کے امین تھے۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ خارجہ پالیسی اور ان کی آزاد روشن خیالی ان کی زندگی کے لیے مشکل کردے گی۔ مسلم لیگ ن نے اپنی 5 سال کی آئینی مدت پوری کی مگر پہلے تین سال گزرنے کے بعد یہ ظاہر ہونے لگا کہ ڈیپ اسٹیٹ حکومت کی عملداری (رٹ) ختم کررہی ہے۔
میاں نواز شریف نے اس دوران چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ شروع کیا۔ بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے لیے نئی دہلی گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھارت کو تجارتی شعبہ میں پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے خاطرخواہ کام کیا تھا مگر یہ معاملہ ڈیپ اسٹیٹ کے نظریے کی بناء پر ادھورا پڑا ہوا تھا ۔ مسلم لیگ حکومت نے اس ضمن میں مشاورت کا عمل مکمل کیا۔
اس مشاورت کے عمل میں تاجروں کے نمایندوں، ایوان زراعت کے عہدیداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکو شامل کیا گیا مگر حتمی فیصلہ نہ ہوا ۔ افغانستان کے نئے صدر سے خوشگوار رشتہ استوار کرنے کے لیے صدر ممنون حسین کو کابل بھیجا گیا۔ میاں نواز شریف نے اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے وزیر اعظم مودی کو جاتی امراء مدعو کرلیا۔ شاید اسی دن سے میاں صاحب کی حکومت کی عملداری ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔
میاں شہباز شریف نے ڈیپ اسٹیٹ کے دباؤ پر اپنے منشور میں بھارت سے دوستی کے نکتے کو شامل نہیں کیا ، محض بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کے اہم کردارکا نکتہ شامل کیا گیا۔ اس وقت پاکستان بین الاقوامی منظر نامہ پر تنہائی کا شکار ہے۔ امریکا اور بھارت کے قریبی تعلقات میں صدر ٹرمپ کی پالیسی ، یورپی ممالک، سعودی عرب اور ترکی کی پاکستان کی کھل کر حمایت نہ کرنے اور مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان کو فنانشل ٹیررازم کی فہرست کے گرے ایریا میں شامل ہونے سے جو حالات رونما ہوئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی بھارت اور افغانستان سے قریبی تعلقات امریکا کے خدشات کو دور کرنے کی پالیسی ہی درست تھی۔ میاں شہباز شریف کو بین الاقوامی صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔
عمران خان یہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر یہ صورتحال رونما ہوئی۔ ان کا یہ مؤقف حقائق کے منافی ہے۔ مسلم لیگ ن کے منشور ''ووٹ کی عزت اور عوامی حکمرانی کے لیے قانون سازی'' کا نکتہ انتہائی اہم ہے۔ ووٹ کی عزت کے لیے پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی لازمی ہے۔پارلیمنٹ کو اپنی تمام پالیسیاں غریب عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے مرتب کرنی چاہئیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے۔ نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو نے اپنی پارٹی کے منشور میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے روڈ میپ دیا ہے۔
اس روڈ میپ کے تحت تمام غیر سول اداروں کے سربراہوں کا تقرر پارلیمانی کمیٹیوں کی اسکیننگ سے مشروط ہونا چاہیے۔ دفاعی بجٹ کو مکمل طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم اور وزراء کو پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں مکمل طور پر حصہ لینا چاہیے۔ دنیا بھر میں وزیر اعظم ملک میں اور عالمی دورے کرنے میں انتظامی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں مگر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف جب ووٹ کی عظمت کا نعرہ لگاتے ہیں تو عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والے اداروں کے اجلاسوں میں شرکت اور منتخب اراکین سے قریبی روابط بھی لازمی ہونے چاہئیں۔
پارٹی کے منشور میں ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے معاملہ کو فوجداری جرم قرار دینے کی تجویز درج کی گئی ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ملک میں انسانی حقوق کی عظمت کے تناظر میں اہم مسئلہ ہے۔ گزشتہ 18 برسوں کے دوران چاروں صوبوں سے شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے انسانی حقوق کے بارے میں اپنے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت خواتین کے حقوق کے لیے تو قابل قدر قانون سازی کی ہے۔
خواتین پرگھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے پنجاب حکومت نے بہتر قانون بنایا تھا مگر ایسا قانون وفاق کی سطح پر تیار نہ ہوا۔ وفاقی حکومت کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بھی منظور نہ کرپائی۔ پنجاب کی طرح کا قانون وفاق کی سطح پر بھی بنایا جائے۔ پانی کی قلت انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ شمالی علاقہ جات میں بارشیں کم ہونے اور برف کے نئے گلیشیئر نہ بننے سے ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان ہمالیاتی رینج کے کے ٹو پہاڑی سلسلہ میں بارود کے مسلسل استعمال سے ماحولیات متاثر ہوئی ہے۔ درخت کٹنا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس منصوبہ کے تحت پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہ ملنے اور ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر افغانستان اور بھارت سے بات چیت سے مسئلے کے حل کی طرف درست قدم ہے۔ مسلم لیگ ن کے منشور میں اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ شامل ہے مگر مسلم لیگ حکومت نے اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کے لیے کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع فیصلہ دیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کرنی چاہیے تھی لیکن میاں نواز شریف حکومت نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی مگر اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔
اگلے انتخابات کے نتائج کے خدوخال ظاہر ہوچکے ہیں۔ اب مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں میں شامل ہے۔کہا جا رہا ہے کہ میاں شہباز شریف کے بہت سے رفیق 25 جولائی کے بعد انھیں خداحافظ کہہ دیں گے۔ مسلم لیگ کو زیادہ توجہ اب غریبوں پر دینی ہوگی۔ چاروں صوبوں کے عوام کی پارلیمنٹ کی بالادستی کی جدوجہد کی قیادت کرنا ہوگی۔ پنجاب کے رہنما کا یہ کردار ملک کے حالات کو تبدیل کردے گا۔ اس جدوجہد کی کامیابی کے نتیجے میں ووٹ کو عزت ملے گی اور یہ ملک حقیقی جمہوری ملک بن جائے گا۔
میاں شہباز شریف کے منشور اور ان کے بھائی میاں نواز شریف کے 2013ء کے انتخابات کے موقعے پر پیش کیے جانے والے منشور میں دو بنیادی فرق ظاہر ہو رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف نے جب اپریل 2013ء میں اپنا منشور پیش کیا تھا تو اس وقت وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر میمو اسکینڈل اچھالا تھا ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سزا کو جمہوری نظام کے لیے نیک شگون جانا تھا، وہ بین الاقوامی صورتحال کا درست ادراک کر رہے تھے، اسی بناء پر انھوں نے انتخابی مہم میں بھارت سے بہتر تعلقات کا نعرہ بلند کیا تھا ۔
میاں صاحب اس وقت امریکا ، افغانستان اور ایران سے اچھے تعلقات کے امین تھے۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ خارجہ پالیسی اور ان کی آزاد روشن خیالی ان کی زندگی کے لیے مشکل کردے گی۔ مسلم لیگ ن نے اپنی 5 سال کی آئینی مدت پوری کی مگر پہلے تین سال گزرنے کے بعد یہ ظاہر ہونے لگا کہ ڈیپ اسٹیٹ حکومت کی عملداری (رٹ) ختم کررہی ہے۔
میاں نواز شریف نے اس دوران چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ شروع کیا۔ بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے لیے نئی دہلی گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھارت کو تجارتی شعبہ میں پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے خاطرخواہ کام کیا تھا مگر یہ معاملہ ڈیپ اسٹیٹ کے نظریے کی بناء پر ادھورا پڑا ہوا تھا ۔ مسلم لیگ حکومت نے اس ضمن میں مشاورت کا عمل مکمل کیا۔
اس مشاورت کے عمل میں تاجروں کے نمایندوں، ایوان زراعت کے عہدیداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکو شامل کیا گیا مگر حتمی فیصلہ نہ ہوا ۔ افغانستان کے نئے صدر سے خوشگوار رشتہ استوار کرنے کے لیے صدر ممنون حسین کو کابل بھیجا گیا۔ میاں نواز شریف نے اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے وزیر اعظم مودی کو جاتی امراء مدعو کرلیا۔ شاید اسی دن سے میاں صاحب کی حکومت کی عملداری ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔
میاں شہباز شریف نے ڈیپ اسٹیٹ کے دباؤ پر اپنے منشور میں بھارت سے دوستی کے نکتے کو شامل نہیں کیا ، محض بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کے اہم کردارکا نکتہ شامل کیا گیا۔ اس وقت پاکستان بین الاقوامی منظر نامہ پر تنہائی کا شکار ہے۔ امریکا اور بھارت کے قریبی تعلقات میں صدر ٹرمپ کی پالیسی ، یورپی ممالک، سعودی عرب اور ترکی کی پاکستان کی کھل کر حمایت نہ کرنے اور مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان کو فنانشل ٹیررازم کی فہرست کے گرے ایریا میں شامل ہونے سے جو حالات رونما ہوئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی بھارت اور افغانستان سے قریبی تعلقات امریکا کے خدشات کو دور کرنے کی پالیسی ہی درست تھی۔ میاں شہباز شریف کو بین الاقوامی صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔
عمران خان یہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر یہ صورتحال رونما ہوئی۔ ان کا یہ مؤقف حقائق کے منافی ہے۔ مسلم لیگ ن کے منشور ''ووٹ کی عزت اور عوامی حکمرانی کے لیے قانون سازی'' کا نکتہ انتہائی اہم ہے۔ ووٹ کی عزت کے لیے پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی لازمی ہے۔پارلیمنٹ کو اپنی تمام پالیسیاں غریب عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے مرتب کرنی چاہئیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے۔ نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو نے اپنی پارٹی کے منشور میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے روڈ میپ دیا ہے۔
اس روڈ میپ کے تحت تمام غیر سول اداروں کے سربراہوں کا تقرر پارلیمانی کمیٹیوں کی اسکیننگ سے مشروط ہونا چاہیے۔ دفاعی بجٹ کو مکمل طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم اور وزراء کو پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں مکمل طور پر حصہ لینا چاہیے۔ دنیا بھر میں وزیر اعظم ملک میں اور عالمی دورے کرنے میں انتظامی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں مگر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف جب ووٹ کی عظمت کا نعرہ لگاتے ہیں تو عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والے اداروں کے اجلاسوں میں شرکت اور منتخب اراکین سے قریبی روابط بھی لازمی ہونے چاہئیں۔
پارٹی کے منشور میں ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے معاملہ کو فوجداری جرم قرار دینے کی تجویز درج کی گئی ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ملک میں انسانی حقوق کی عظمت کے تناظر میں اہم مسئلہ ہے۔ گزشتہ 18 برسوں کے دوران چاروں صوبوں سے شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے انسانی حقوق کے بارے میں اپنے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت خواتین کے حقوق کے لیے تو قابل قدر قانون سازی کی ہے۔
خواتین پرگھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے پنجاب حکومت نے بہتر قانون بنایا تھا مگر ایسا قانون وفاق کی سطح پر تیار نہ ہوا۔ وفاقی حکومت کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بھی منظور نہ کرپائی۔ پنجاب کی طرح کا قانون وفاق کی سطح پر بھی بنایا جائے۔ پانی کی قلت انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ شمالی علاقہ جات میں بارشیں کم ہونے اور برف کے نئے گلیشیئر نہ بننے سے ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان ہمالیاتی رینج کے کے ٹو پہاڑی سلسلہ میں بارود کے مسلسل استعمال سے ماحولیات متاثر ہوئی ہے۔ درخت کٹنا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس منصوبہ کے تحت پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہ ملنے اور ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر افغانستان اور بھارت سے بات چیت سے مسئلے کے حل کی طرف درست قدم ہے۔ مسلم لیگ ن کے منشور میں اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ شامل ہے مگر مسلم لیگ حکومت نے اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کے لیے کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع فیصلہ دیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کرنی چاہیے تھی لیکن میاں نواز شریف حکومت نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی مگر اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔
اگلے انتخابات کے نتائج کے خدوخال ظاہر ہوچکے ہیں۔ اب مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں میں شامل ہے۔کہا جا رہا ہے کہ میاں شہباز شریف کے بہت سے رفیق 25 جولائی کے بعد انھیں خداحافظ کہہ دیں گے۔ مسلم لیگ کو زیادہ توجہ اب غریبوں پر دینی ہوگی۔ چاروں صوبوں کے عوام کی پارلیمنٹ کی بالادستی کی جدوجہد کی قیادت کرنا ہوگی۔ پنجاب کے رہنما کا یہ کردار ملک کے حالات کو تبدیل کردے گا۔ اس جدوجہد کی کامیابی کے نتیجے میں ووٹ کو عزت ملے گی اور یہ ملک حقیقی جمہوری ملک بن جائے گا۔