لاہور کا نوازشریف کے لیے احتجاج سے انکار پی ٹی آئی کے لیے راستہ صاف ہوگیا
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری انتخابی مہم کے دوران واضح دکھائی دے رہا تھا کہ ن لیگ کا امیدوار اور ووٹر بددل اور مایوس ہے
اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ 13 جولائی کو لاہوریوں نے ہمیں ''پرایا'' کردیا یا پھر ہمارے اپنے شہباز نے ''ہاتھ'' کردیا۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری انتخابی مہم کے دوران یہ تو بہت واضح دکھائی دے رہا تھا کہ ن لیگ کا امیدوار اور ووٹر بددل اور مایوس ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس تاثر کا مضبوط ہونا ہے کہ آئندہ حکومت ن لیگ کو کسی صورت نہیں ملے گی۔ اس تاثر کو توڑنے اور اپنے ووٹر اور رہنماوں کو''چارج'' کرنے کی خاطر ہی میاں نواز شریف نے سزا ملنے کے بعد پاکستان واپس آنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ کسی کو نواز شریف سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو اور واپسی کو قانونی مجبوری بتایا جائے یا ترپ کا پتہ، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے نواز شریف کا یہ فیصلہ بروقت، درست اور اثر انگیز تھا۔ میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے ذریعے پنجاب بالخصوص لاہور میں ن لیگی کارکنوں اور تنظیمی رہنماوں کو سڑکوں پر لانے کیلئے اپنے طور پر بھرپور تیاری کی تھی۔
میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ جس شہر (لاہور) پر انہوں نے اور ان کے بھائی شہباز شریف نے 33 برس تک محنت کی ہے اور سینکڑوں ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیئے ہیں۔13جولائی کو اس شہر میں سے ان کے 44 قومی وصوبائی امیدوار اور ہزاروں بلدیاتی نمائندے کم سے کم دو لاکھ کارکنوں کو ایئرپورٹ لانے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے جبکہ نزدیکی شہروں سے بھی کم و پیش اتنی تعداد لاہور پہنچ جائے گی اور یوں تین یا چار لاکھ ن لیگی شیروں کے ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد حکومت کیلئے نواز و مریم کی گرفتاری اور ان کی جیل منتقلی نا ممکن ہوجائے گی۔
میڈیا کی سوچ بھی یہی تھی کہ ن لیگ کا قلعہ سمجھا جانے والا لاہور 13 جولائی کو کم سے کم ایک لاکھ لیگی کارکنوں کے سمندر کو ایئرپورٹ کی جانب بڑھتا دیکھے گا لیکن ''کھودا پہاڑ نکلا چوہا'' کے مترادف سب اندازے اور توقعات غلط ثابت ہوئے۔ غیرجانبدار ذرائع کے مطابق پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود لاہور میں ن لیگ ریلی کے شرکاء کی تعداد 15 سے20 ہزار کے درمیان تھی اور اگر بہت مارجن دیا جائے تو اسے 25 ہزار کہہ سکتے ہیں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرم کھو چکی ہے۔
25 جولائی کو لاہور کی قومی وصوبائی نشستوں پر ووٹر کا جو بھی فیصلہ آئے لیکن یہ اٹل حقیقت اب جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ لاہور میں اگر ن لیگ اور تحریک انصاف کا سیاسی شیئر آدھا آدھا نہیں تو کم ازکم 60 فیصد ن لیگ اور 40 فیصد تحریک انصاف ضرور ہو چکا ہے جو کہ تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لاہور میں بیشتر صوبائی امیدوار اپنے الیکشن پر مالی وسائل خرچ کرنے کے معاملہ میں کنجوسی کے نئے ریکارڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں بالخصوص چند وہ امیدوار جنہوں نے ٹکٹ کے حصول کیلئے حق دار ساتھی رہنماوں کے حق پر ڈاکہ مارتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ کروڑو ں روپے الیکشن پرخرچ کر کے انتخابی فضا سازگار بنا لیں گے لیکن اب وہ امیدوار پارٹی کیلئے تباہ کن عنصر ثابت ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر این اے123 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 144 میں خالد ایڈووکیٹ نے یاسر گیلانی کو چوہدری سرور کے زور پر''فتح''کر کے ٹکٹ حاصل کیا ہے اور اس وقت اس حلقہ میں تحریک انصاف کی حالت یتیموں جیسی معلوم ہوتی ہے اسی طرح پی پی 145 میں فاروق خان جیسے متحرک رہنما کو کارنر کر کے ملک آصف نامی ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیا گیا جو نہ تو مالی وسائل استعمال کر رہا ہے اور نہ ہی اسے اپنی برادری کی وہ حمایت حاصل ہے جس کا دعوی کیا جاتا رہا ہے۔ این اے124 میں قومی اسمبلی کے امیدوار نعمان قیصر کی''مقبولیت'' کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف والے ایک دوسرے کو پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب بہادر کون ہیں اور کہاں سے نازل ہوئے ہیں۔
پی پی 147 میں طارق سادات نامی ایک غیر معروف شخص کو ٹکٹ دیا گیا ہے جس کی انتخابی مہم شاید لاہور میں سب سے کمزور ہے اورشاید یہ موصوف صرف''ٹکٹ ہولڈر'' کا لقب پانے کو ہی سیاست کی انتہا سمجھتے ہیں۔این اے128 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 155 کے امیدوار جاوید انور اعوان اور پی پی 156 کے امیدوار میاں افتخار نے اعجاز ڈیال جیسے طاقتور اور مضبوط امیدوار کو بھی مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے۔ میاں افتخار کے الیکشن کے بیشتر اخراجات ایک ریجنل عہدیدار برداشت کر رہے ہیں جبکہ جاوید اعوان نے مالی و سیاسی دونوں طور پر اپنی پارٹی کو مایوس کیا ہے۔ این اے134 میں پی پی 170 سے چوہدری امین اور پی پی169 سے نقاش سندھو کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے۔
دوسری جانب لاہور میں تین امیدواروں نے انتخابی مہم کو جس غیر معمولی انداز میں چلایا ہے اور مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوئے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ اس حوالے سے این اے126 سے تحریک انصاف کے امیدوار حماد اظہر قابل ذکر ہیں ۔ چند ماہ قبل تک بہت سے لوگ سمجھ رہے تھے کہ حماد اظہر اس حلقہ میں زیادہ عمدہ کارکردگی نہیں دکھا سکے گا لیکن 2013 ء کے مقابلے میں اس الیکشن میں حماد اظہر نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے اور وہ ن لیگ کے مہر اشتیاق کے ساتھ مقابلے کو کانٹے دار بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
این اے127 میں انتخابی نتائج جو بھی آئیں مگر جمشید اقبال چیمہ نے ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصہ میں اس انجان حلقہ کو اپنا مضبوط محاذ بنانے میں شاندار کام کیا ہے حالانکہ ان کے ساتھ دو صوبائی امیدوار بہت کمزور اور کنجوس ہیں۔این اے136 میں ملک اسد کھوکھر نے نہ صرف ووٹرز بلکہ پارٹی قیادت کو بھی اپنی کارکردگی سے حیران کردیا ہے ۔ ملک اسد نے ایک بھرپور انتخابی مہم چلا کر این اے 136 میں ن لیگ کے امیدوار ملک افضل کھوکھر کے ساتھ مقابلے کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب ن لیگ بھی آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس حلقہ کے الیکشن کو ففٹی ففٹی قرار دینے لگی ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے سیالکوٹ میں جلسہ سے خطاب کیا۔ سیالکوٹ میں تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی غلط تقسیم نے صورتحال کمزور بنا دی ہے۔ قومی اسمبلی کی 5 نشستوں میں سے صرف دو نشستوں پر تحریک انصاف مقابلہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ این اے74 میں چوہدری غلام عباس اور این اے73 میں عثمان ڈار ن لیگ کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ فردوس عاشق اعوان، اسجد ملہی اور بریگیڈئیر(ر) اسلم گھمن کی پوزیشن کافی کمزور معلوم ہوتی ہے۔ فردوس اعوان نے بھی کمزور صوبائی امیدوار منتخب کیا ہے اور اسلم گھمن نے بھی پی پی 45 میں جمشیدکا انتخاب درست نہیں کیا ہے۔
اس حلقہ سے چوہدری عنصر فاروق بہت مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے تھے اور کئی ماہ تک اسلم گھمن بھی چوہدری عنصر کو ہی ساتھ لیکر چلتے رہے لیکن آخری ایام میں اسلم گھمن نے جمشید کو ٹکٹ دلا کر ایک جانب چوہدری عنصر جیسے مضبوط دھڑے کو ناراض کیا تو دوسری جانب خود اپنے لئے مسائل پیدا کئے ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری انتخابی مہم کے دوران یہ تو بہت واضح دکھائی دے رہا تھا کہ ن لیگ کا امیدوار اور ووٹر بددل اور مایوس ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس تاثر کا مضبوط ہونا ہے کہ آئندہ حکومت ن لیگ کو کسی صورت نہیں ملے گی۔ اس تاثر کو توڑنے اور اپنے ووٹر اور رہنماوں کو''چارج'' کرنے کی خاطر ہی میاں نواز شریف نے سزا ملنے کے بعد پاکستان واپس آنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ کسی کو نواز شریف سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو اور واپسی کو قانونی مجبوری بتایا جائے یا ترپ کا پتہ، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے نواز شریف کا یہ فیصلہ بروقت، درست اور اثر انگیز تھا۔ میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے ذریعے پنجاب بالخصوص لاہور میں ن لیگی کارکنوں اور تنظیمی رہنماوں کو سڑکوں پر لانے کیلئے اپنے طور پر بھرپور تیاری کی تھی۔
میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ جس شہر (لاہور) پر انہوں نے اور ان کے بھائی شہباز شریف نے 33 برس تک محنت کی ہے اور سینکڑوں ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیئے ہیں۔13جولائی کو اس شہر میں سے ان کے 44 قومی وصوبائی امیدوار اور ہزاروں بلدیاتی نمائندے کم سے کم دو لاکھ کارکنوں کو ایئرپورٹ لانے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے جبکہ نزدیکی شہروں سے بھی کم و پیش اتنی تعداد لاہور پہنچ جائے گی اور یوں تین یا چار لاکھ ن لیگی شیروں کے ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد حکومت کیلئے نواز و مریم کی گرفتاری اور ان کی جیل منتقلی نا ممکن ہوجائے گی۔
میڈیا کی سوچ بھی یہی تھی کہ ن لیگ کا قلعہ سمجھا جانے والا لاہور 13 جولائی کو کم سے کم ایک لاکھ لیگی کارکنوں کے سمندر کو ایئرپورٹ کی جانب بڑھتا دیکھے گا لیکن ''کھودا پہاڑ نکلا چوہا'' کے مترادف سب اندازے اور توقعات غلط ثابت ہوئے۔ غیرجانبدار ذرائع کے مطابق پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود لاہور میں ن لیگ ریلی کے شرکاء کی تعداد 15 سے20 ہزار کے درمیان تھی اور اگر بہت مارجن دیا جائے تو اسے 25 ہزار کہہ سکتے ہیں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ لاہور میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرم کھو چکی ہے۔
25 جولائی کو لاہور کی قومی وصوبائی نشستوں پر ووٹر کا جو بھی فیصلہ آئے لیکن یہ اٹل حقیقت اب جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ لاہور میں اگر ن لیگ اور تحریک انصاف کا سیاسی شیئر آدھا آدھا نہیں تو کم ازکم 60 فیصد ن لیگ اور 40 فیصد تحریک انصاف ضرور ہو چکا ہے جو کہ تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لاہور میں بیشتر صوبائی امیدوار اپنے الیکشن پر مالی وسائل خرچ کرنے کے معاملہ میں کنجوسی کے نئے ریکارڈ بنانے پر تلے ہوئے ہیں بالخصوص چند وہ امیدوار جنہوں نے ٹکٹ کے حصول کیلئے حق دار ساتھی رہنماوں کے حق پر ڈاکہ مارتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ کروڑو ں روپے الیکشن پرخرچ کر کے انتخابی فضا سازگار بنا لیں گے لیکن اب وہ امیدوار پارٹی کیلئے تباہ کن عنصر ثابت ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر این اے123 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 144 میں خالد ایڈووکیٹ نے یاسر گیلانی کو چوہدری سرور کے زور پر''فتح''کر کے ٹکٹ حاصل کیا ہے اور اس وقت اس حلقہ میں تحریک انصاف کی حالت یتیموں جیسی معلوم ہوتی ہے اسی طرح پی پی 145 میں فاروق خان جیسے متحرک رہنما کو کارنر کر کے ملک آصف نامی ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیا گیا جو نہ تو مالی وسائل استعمال کر رہا ہے اور نہ ہی اسے اپنی برادری کی وہ حمایت حاصل ہے جس کا دعوی کیا جاتا رہا ہے۔ این اے124 میں قومی اسمبلی کے امیدوار نعمان قیصر کی''مقبولیت'' کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف والے ایک دوسرے کو پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب بہادر کون ہیں اور کہاں سے نازل ہوئے ہیں۔
پی پی 147 میں طارق سادات نامی ایک غیر معروف شخص کو ٹکٹ دیا گیا ہے جس کی انتخابی مہم شاید لاہور میں سب سے کمزور ہے اورشاید یہ موصوف صرف''ٹکٹ ہولڈر'' کا لقب پانے کو ہی سیاست کی انتہا سمجھتے ہیں۔این اے128 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 155 کے امیدوار جاوید انور اعوان اور پی پی 156 کے امیدوار میاں افتخار نے اعجاز ڈیال جیسے طاقتور اور مضبوط امیدوار کو بھی مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے۔ میاں افتخار کے الیکشن کے بیشتر اخراجات ایک ریجنل عہدیدار برداشت کر رہے ہیں جبکہ جاوید اعوان نے مالی و سیاسی دونوں طور پر اپنی پارٹی کو مایوس کیا ہے۔ این اے134 میں پی پی 170 سے چوہدری امین اور پی پی169 سے نقاش سندھو کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے۔
دوسری جانب لاہور میں تین امیدواروں نے انتخابی مہم کو جس غیر معمولی انداز میں چلایا ہے اور مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوئے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ اس حوالے سے این اے126 سے تحریک انصاف کے امیدوار حماد اظہر قابل ذکر ہیں ۔ چند ماہ قبل تک بہت سے لوگ سمجھ رہے تھے کہ حماد اظہر اس حلقہ میں زیادہ عمدہ کارکردگی نہیں دکھا سکے گا لیکن 2013 ء کے مقابلے میں اس الیکشن میں حماد اظہر نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے اور وہ ن لیگ کے مہر اشتیاق کے ساتھ مقابلے کو کانٹے دار بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
این اے127 میں انتخابی نتائج جو بھی آئیں مگر جمشید اقبال چیمہ نے ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصہ میں اس انجان حلقہ کو اپنا مضبوط محاذ بنانے میں شاندار کام کیا ہے حالانکہ ان کے ساتھ دو صوبائی امیدوار بہت کمزور اور کنجوس ہیں۔این اے136 میں ملک اسد کھوکھر نے نہ صرف ووٹرز بلکہ پارٹی قیادت کو بھی اپنی کارکردگی سے حیران کردیا ہے ۔ ملک اسد نے ایک بھرپور انتخابی مہم چلا کر این اے 136 میں ن لیگ کے امیدوار ملک افضل کھوکھر کے ساتھ مقابلے کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب ن لیگ بھی آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس حلقہ کے الیکشن کو ففٹی ففٹی قرار دینے لگی ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے سیالکوٹ میں جلسہ سے خطاب کیا۔ سیالکوٹ میں تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی غلط تقسیم نے صورتحال کمزور بنا دی ہے۔ قومی اسمبلی کی 5 نشستوں میں سے صرف دو نشستوں پر تحریک انصاف مقابلہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ این اے74 میں چوہدری غلام عباس اور این اے73 میں عثمان ڈار ن لیگ کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ فردوس عاشق اعوان، اسجد ملہی اور بریگیڈئیر(ر) اسلم گھمن کی پوزیشن کافی کمزور معلوم ہوتی ہے۔ فردوس اعوان نے بھی کمزور صوبائی امیدوار منتخب کیا ہے اور اسلم گھمن نے بھی پی پی 45 میں جمشیدکا انتخاب درست نہیں کیا ہے۔
اس حلقہ سے چوہدری عنصر فاروق بہت مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے تھے اور کئی ماہ تک اسلم گھمن بھی چوہدری عنصر کو ہی ساتھ لیکر چلتے رہے لیکن آخری ایام میں اسلم گھمن نے جمشید کو ٹکٹ دلا کر ایک جانب چوہدری عنصر جیسے مضبوط دھڑے کو ناراض کیا تو دوسری جانب خود اپنے لئے مسائل پیدا کئے ہیں۔