گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکے گا
سندھ کی نگران حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں میں مصروف ہے
عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے سندھ میں ویسے ہی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے پورا صوبہ انتخابی بخار میں ہے بعض جگہوں پر انتہائی دلچسپ مقابلوں کی توقع ہے لیکن کراچی پر لوگوں کی سب سے زیادہ توجہ ہے۔
نگران صوبائی حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں و تقرریوں میں مصروف ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ محکمہ جیل خانہ جات میں ساری کایا پلٹ کر دی گئی ہے ۔ 8 سال سے آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے پر رہنے والے نصرت منگن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اب شاید صوبے میں کوئی بھی افسر یا اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہیں، وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہیں گے۔
گذشتہ اتوار کو سندھ کی سطح پر قائم ہونے والے سیاسی اتحاد '' گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس'' ( جی ڈی اے ) نے نواب شاہ میں اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد '' متحدہ مجلس عمل '' ( ایم ایم اے ) نے کراچی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ جی ڈی اے نے اگرچہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز تاخیر سے کیا ہے لیکن یہ آغاز بھرپور ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سندھ کے طوفانی دورے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جی ڈی اے کی انتخابی مہم اس دورے کے اثرات کو زائل کر سکے گی؟
بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سیاسی قلعہ سانگھڑ میں ایک بہت بڑے اور متاثر کن اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ اس طرح شہداد پور اور ضلع سانگھڑ کے دیگر علاقوں میں بلاول بھٹو زرداری کا انتہائی پرتپاک استقبال ہوا تھا۔ رات کو تین بجے جب بلاول بھٹو زرداری حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا کے قصبہ پیر جو گوٹھ پہنچے تو حیرت انگیز طور پر وہاں ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہاں بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ لگایا تھا کہ اب '' پیر جو گوٹھ '' '' تیر جو گوٹھ '' میں تبدیل ہو گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے علاقوں کو فتح کر لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جی ڈی اے میں شامل پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ نواب شاہ میں کیا، جو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا گھر ہے ۔ یہ ایک سیاسی جواب تھا۔ نواب شاہ میں جی ڈی اے کا جلسہ انتہائی متاثر کن تھا، جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جلسہ عام سے مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا، قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو، نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضی خان جتوئی، پیپلز پارٹی ورکرز کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی اور اسے سندھ کی '' تباہی '' کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے سندھ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کریں۔ جلسہ عام میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور سابق وزیر اعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم بوجوہ شریک نہ ہو سکے۔ اس بات کو لوگون نے خاص طور پر محسوس کیا۔ جی ڈی اے کی انتخابی مہم جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام جی ڈی اے کا کس قدر ساتھ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے لیے اگر سندھ میں کوئی سیاسی چیلنج ہے تو وہ جی ڈی اے ہے، جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کٹھ پتلی اتحاد بنایا گیا ہے۔
دوسری طرف سندھ کے دارالحکومت کراچی پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ساڑھے تین عشروں کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کو کراچی میں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر سیاسی اور انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا ہے ۔ خوف کی فضا بھی تقریبا ختم ہو گئی ہے۔ اس عرصے میں کراچی کی سیاست پر بلا شرکت غیرے مسلط رہنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) تقسیم در تقسیم اور بحران کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ نئی حلقہ بندیوں سے کراچی کے تمام حلقوں کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لیے کراچی اب دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے '' اوپن '' ہو گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کراچی سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں لیکن مذہبی جماعتوں بشمول ایم ایم اے، تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی سے زیادہ پر امید ہیں۔ ایم ایم اے نے گذشتہ اتوار کو کراچی کے باغ جناح میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس سے سراج الحق ، مولانا فضل الرحمن، شاہ انس نورانی اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا ۔ ایم ایم اے کے قائدین بار بار کراچی کے انفرادی دورے بھی کر رہے ہیں ۔ ملی مسلم لیگ کے حافظ سعید اور تحریک لبیک پاکستان کے علامہ خادم حسین رضوی بھی کراچی کے طوفانی دورے کر چکے ہیں ۔ سب لوگوں کو کراچی کے حیران کن نتائج کا انتظار ہے۔
سندھ کی نگران حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں میں مصروف ہے۔ پورے سندھ میں کوئی بھی افسر اور اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہے، وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہے گا۔ اس طرح سندھ انتظامی طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔ پولیس اور محکمہ جیل میں بڑے پیمانے پر الٹ پلٹ نے سکیورٹی کے خدشات بھی پیدا کر دیئے ہیں۔
نگران صوبائی حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں و تقرریوں میں مصروف ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ محکمہ جیل خانہ جات میں ساری کایا پلٹ کر دی گئی ہے ۔ 8 سال سے آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے پر رہنے والے نصرت منگن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اب شاید صوبے میں کوئی بھی افسر یا اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہیں، وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہیں گے۔
گذشتہ اتوار کو سندھ کی سطح پر قائم ہونے والے سیاسی اتحاد '' گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس'' ( جی ڈی اے ) نے نواب شاہ میں اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد '' متحدہ مجلس عمل '' ( ایم ایم اے ) نے کراچی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ جی ڈی اے نے اگرچہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز تاخیر سے کیا ہے لیکن یہ آغاز بھرپور ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سندھ کے طوفانی دورے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جی ڈی اے کی انتخابی مہم اس دورے کے اثرات کو زائل کر سکے گی؟
بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سیاسی قلعہ سانگھڑ میں ایک بہت بڑے اور متاثر کن اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ اس طرح شہداد پور اور ضلع سانگھڑ کے دیگر علاقوں میں بلاول بھٹو زرداری کا انتہائی پرتپاک استقبال ہوا تھا۔ رات کو تین بجے جب بلاول بھٹو زرداری حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا کے قصبہ پیر جو گوٹھ پہنچے تو حیرت انگیز طور پر وہاں ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہاں بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ لگایا تھا کہ اب '' پیر جو گوٹھ '' '' تیر جو گوٹھ '' میں تبدیل ہو گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے علاقوں کو فتح کر لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جی ڈی اے میں شامل پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ نواب شاہ میں کیا، جو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا گھر ہے ۔ یہ ایک سیاسی جواب تھا۔ نواب شاہ میں جی ڈی اے کا جلسہ انتہائی متاثر کن تھا، جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جلسہ عام سے مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا، قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو، نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضی خان جتوئی، پیپلز پارٹی ورکرز کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی اور اسے سندھ کی '' تباہی '' کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے سندھ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کریں۔ جلسہ عام میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور سابق وزیر اعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم بوجوہ شریک نہ ہو سکے۔ اس بات کو لوگون نے خاص طور پر محسوس کیا۔ جی ڈی اے کی انتخابی مہم جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام جی ڈی اے کا کس قدر ساتھ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے لیے اگر سندھ میں کوئی سیاسی چیلنج ہے تو وہ جی ڈی اے ہے، جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کٹھ پتلی اتحاد بنایا گیا ہے۔
دوسری طرف سندھ کے دارالحکومت کراچی پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ساڑھے تین عشروں کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کو کراچی میں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر سیاسی اور انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا ہے ۔ خوف کی فضا بھی تقریبا ختم ہو گئی ہے۔ اس عرصے میں کراچی کی سیاست پر بلا شرکت غیرے مسلط رہنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) تقسیم در تقسیم اور بحران کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ نئی حلقہ بندیوں سے کراچی کے تمام حلقوں کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لیے کراچی اب دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے '' اوپن '' ہو گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کراچی سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں لیکن مذہبی جماعتوں بشمول ایم ایم اے، تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی سے زیادہ پر امید ہیں۔ ایم ایم اے نے گذشتہ اتوار کو کراچی کے باغ جناح میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس سے سراج الحق ، مولانا فضل الرحمن، شاہ انس نورانی اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا ۔ ایم ایم اے کے قائدین بار بار کراچی کے انفرادی دورے بھی کر رہے ہیں ۔ ملی مسلم لیگ کے حافظ سعید اور تحریک لبیک پاکستان کے علامہ خادم حسین رضوی بھی کراچی کے طوفانی دورے کر چکے ہیں ۔ سب لوگوں کو کراچی کے حیران کن نتائج کا انتظار ہے۔
سندھ کی نگران حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں میں مصروف ہے۔ پورے سندھ میں کوئی بھی افسر اور اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہے، وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہے گا۔ اس طرح سندھ انتظامی طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔ پولیس اور محکمہ جیل میں بڑے پیمانے پر الٹ پلٹ نے سکیورٹی کے خدشات بھی پیدا کر دیئے ہیں۔