ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں

ہم نے اپنے منشور میں واضح کیا ہے کہ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے مخالف ہیں۔

''مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، یقیناً اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔''

امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرنے کا وقت آگیا ہے اور عوام کو پانچ سال بعد ایک بار پھر موقع مل رہا ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب حالات بدلنے والے ہیں۔ لوگوں کے اندر تبدیلی کی خواہش جاگ رہی ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ پوری دنیا میں مسلمان ممالک کے عوام کے اندر یہ احساس شدت سے پیدا ہورہا ہے کہ اب ہمیں اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔

اس کی مثال عرب دنیا کے وہ انقلابات بھی ہیں جس نے مختصر عرصے میں ذہنوں کے زاویے بدل کر رکھ دیے۔ ہم پاکستان کے اندر بھی بہت جلد ایک ایسی تبدیلی دیکھنے والے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی قسمت بدلنے کا خود فیصلہ کریں۔ عوام چاہیں تو اپنے لیے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرسکتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور آخرت کی جوابدہی کا تصور ہو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب عمر بن عبدالعزیزؒ مسلمانوں کے خلیفہ بنائے گئے اور کچھ عرصے بعد کسی نے آپ کی بیگم فاطمہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے خلیفۃ المسلمین کی صحت کمزور ہوتی جارہی ہے تو عمر بن عبدالعزیز کی بیگم نے جواب میں کہا تھا: ''خدا کی قسم! خلیفۃ المسلمین ساری ساری رات ایسی کروٹیں بدلتے رہتے ہیں جیسے انگاروں پر لوٹ رہے ہوں اور بار بار یہی کہتے ہیں کہ عمر! تمہارا کیا بنے گا جب کل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے وکیل بن کر آئیں گے اور اس اُمت کے بارے میں تم سے سوال کریں گے۔''

ہم سمجھتے ہیں اسی کے نتیجے میں ایک ایسی مملکت وجود میں آتی ہے کہ جہاں صدقات دینے والے تو موجود ہوں، مگر وصول کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن اس کے برعکس جب کسی انسان کے اندر سے جوابدہی کا تصور ختم ہوجائے، وہ پھر وہی کچھ کرتا ہے جو ہمارے ملک کے اندر 65 سالوں سے ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی ایک ایسا پاکستان ایک ایسا پاکستان چاہتی ہے جہاں امن وامان ہو۔ ہمارے ماہرین نے جماعت اسلامی کا منشور بنایا جس میں ہم نے عوام سے وعدے کیے اور ہم ان شاء اللہ یہ سارے وعدے ایفا کریں گے۔ ہم نے اپنے سامنے مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کو رکھا ہے، جس میں دولت اور دیگر وسائل کی عادلانہ تقسیم کا بندوبست تھا۔ جس میں بدعنوانی پر سخت ترین سزائیں ہوں۔ عوام کے لیے خوراک، لباس، صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام ہو۔جماعت اسلامی اپنے منشور میں ایک ایسے پاکستان کی خوشخبری دیتی ہے جس میں قانون سب کے لیے برابر ہو۔ ہم نے اپنے منشور میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے مستحکم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف سمیت بیرونی قرضوں پر معیشت کا انحصار کم سے کم کریں گے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کیا جائے گا۔ مسلم ممالک کی مشترکہ منڈی، مشترکہ دفاع اور مشترکہ پارلیمنٹ کا قیام ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ کشمیر کی بھارت سے آزادی ہماری خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہوگا۔

ہم نے اپنے منشور میں واضح کیا ہے کہ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے مخالف ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان پر مسلط کردہ بیرونی ''دہشت گردی'' کے خاتمے کا سب سے موثر اور آسان حل اکتوبر 2008ء اور مئی 2011ء میں منظور کی جانے والی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس پر ہم نے اپنے منشور میں مکمل عملدرآمد کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اندرونی طورپر دہشت گردی کے خاتمے کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ فوجی آپریشنوں سے نجات حاصل ہو۔ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو۔ ہم نے اپنے منشور میں کراچی کے عوام سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم 12 مئی، 9 اپریل، 12 ربیع الاول، 27 اکتوبر، 10 محرم الحرام اور جولائی اگست 2011ء میں ہونے والے قتل عام کے متاثرین کو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں انصاف دلائیں گے۔ ہم ملک کے اندر لاپتا ہونے والے افراد افراد کو بازیاب کرانے کے لیے عدالت عالیہ کے فیصلوں کی مکمل پاسداری کریں گے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت واپسی اور اسی طرح کے بے گناہ پاکستانیوں کی بازیابی ہمارے منشور کا حصہ ہے۔


جماعت اسلامی نے انپے منشور میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور زرعی اصلاحات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ہم انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں کو تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ضبط کریں گے۔ ہم نے اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی کے مطابق حد ملکیت سے زائد زمین منصفانہ شرح سے خریدکر ترجیحی حق کے تحت مزارعین اور ہاریوں کو آسان شرائط پر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ہم نے توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات، وسط مدتی اقدامات اور مستقل اقدامات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔

جماعت اسلامی اپنے منشور کی روشنی میں اس ملک کے اندر روزگار کے لیے اقدامات کرے گی۔ ''ایک علاقہ ایک صنعت'' کے انقلابی پروگرام کے تحت بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس اپنی چھت نہیں، ہم اس مقصد کے حصول کے لیے نئے شہر اور نئے قصبے آباد کریں گے۔ جن کے پاس اپنی چھت نہ ہو، انھیں مکان بنانے کے لیے بینکوں سے آسان شرائط پر غیرسودی طویل مدتی قرضے دیے جائیں گے۔ تمام بڑی فیکٹریوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ملازمین کی رہائش گاہوں کا لازماً بندوبست کریں۔ جماعت اسلامی اس ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم کو رواج دے گی۔ فنی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ شرح خواندگی کو پانچ سال میں 100 فیصد کریں گے۔ میٹرک تک تعلیم مکمل مفت اور لازمی ہوگی۔ ایسی پالیسی بنائے جائے گی کہ ہر استاذ ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی مکان کا مالک ہو۔ طلبہ یونینز کو بحال کریں گے۔ جماعت اسلامی دینی مدارس کے فارغ التحصیل افراد کو قومی دھارے میں لانے کے لیے دینی نصاب کے بعض مضامین مقابلے کے امتحانات میں شامل کرے گی۔

ہم ملک کے تمام نوجوانوں سے انتشار اور اضطراب کو ختم کرکے ان کے اندر اُمید پیدا کریں گے۔ خواتین کی ترقی اور ان کی فلاح بھی ہمارے منشور کا اہم حصہ ہے۔ اسلام نے خواتین کو جتنے حقوق عطا کیے ہیں، ہم وہ تمام حقوق بلاکم وکاست ان کے لیے لازم کرائیں گے اور ایسی قانون سازی کریں گے جس کے نتیجے میں خواتین کو ان کا حقیقی مقام مل سکے۔ اسلام نے خواتین کو وراثت میں حق دار بنایا ہے، ہم اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ دیں گے جن سے خواتین کو چاردیواری میں روزگار مل سکے گا۔ خواتین کے استحصال کے اہم اسباب میں سے بھاری جہیز، نکاح بیوگان سے غفلت، قرآن سے شادی، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل ہیں، جن کا خاتمہ جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں رکھا ہے۔ مزدوروں کے لیے لیبر پالیسی کی تشکیل نو ہمارے منشور کا حصہ ہے، جس کے تحت صنعتی اداروں کے منافع میں مزدوروں کو مناسب حصہ دیا جائے گا۔ آجر اور اجیر کے بہتر تعلقات اور اصلاح کار کے لیے انجمن سازی اور یونین کی اجازت دی جائے گی۔ لیبر عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا۔ مزدوروں کو رہائش اور علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ان کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام ہوگا۔ اسی طرح بزرگ شہریوں کا تحفظ واحترام، معذور اور اسپیشل افراد کے حقوق بھی ہمارے منشور کا حصہ ہیں۔

میڈیا کے حوالے سے ہماری پالیسی یہ ہوگی کہ ہر صحافی کے بیوی بچوں اور والدین کو ملک کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مفت طبی سہولیات فراہم ہوں۔ ان کے بچوں کو مفت تعلیم میسر ہو۔ ''سماجی تحفظ'' فنڈ قائم کیا جائے گا جس کے نتیجے میں کسی حادثاتی موت کی صورت میں انتقال کرجانے والے صحافی کی اہلیہ، بچے اور والدین مذکورہ فنڈ سے استفادہ کرسکیں گے۔ پیشہ وارانہ ذمے داریوں کے دوران موت واقع ہونے یا زخمی ہونے کی صورت میں صحافی کے خاندان کو کم ازکم بیس لاکھ روپے، شدید زخمی ہونے کی صورت میں دس لاکھ اور معمولی زخمی ہونے کی صورت میں پانچ لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ اسی طرح آئی ٹی اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔

یہ ہمارے منشور کے وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں جو ہم نے اہلِ پاکستان کے سامنے رکھے ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ہم یہ بات کہتے ہیں کہ آپ منشوروں سے زیادہ عملی کردار کی طرف دیکھیں۔ ہم سمجھتے ہیں وقت آگیا ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ اس وطن عزیز کو کن لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ہے؟ ان لوگوں کے ہاتھوں میں جنہوں نے 65 سالوں میں اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور آپ کو یہاں تک پہنچایا۔ جن کے دامن کرپشن کے داغوں سے بھرے ہیں؟ یا آپ کا ووٹ ان لوگوں کے لیے ہونا چاہیے جن کے ساٹھ سالوں میں ایک ہزار سے زائد نمایندے منتخب ہوئے، لیکن ان کے دامن پر اللہ کے فضل وکرم سے بدعنوانی کا ایک داغ نہیں۔ مجھے یقین ہے اہلِ پاکستان اپنی امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کریں گے۔

اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
Load Next Story