کیسے تھے وہ لوگ

آج میڈیا کے میدان میں بے شمار نام ایسے ہیں جن کی پیشہ وارانہ تربیت عباس اطہر صاحب نے کی۔

کچھ ہی روز پہلے صولت رضا سے ایک تقریب میں ملاقات کے دوران سید عباس اطہر صاحب کی شدید علالت کی خبر ملی۔ اپنی صحافتی برادری میں عباس اطہر شاہ جی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی بیماری موذی تھی اور مقابلہ سخت، بالآخر کسی سے ہار نہ ماننے والے سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔

نظریں ماضی کے اس دور میں جا ٹکیں جب سنہ 70-71ء کی کڑی دھوپ اور کارکن صحافیوں کے ہڑتالی کیمپ نگاہوں میں پھر رہے تھے۔ ہڑتالی کیمپ جہاں ''کوہستان'' ،''امروز'' اور ''پاکستان ٹائمز'' اخبارات کے بڑے جید اور بہادر اہلِ صحافت میو اسپتال کے پچھلے گیٹ کے باہر کیمپ لگائے، اپنے حقوق حاصل کرنے اور دیگر صحافیوں کے ساتھ انصاف کے حق میں صبح و شام بھوکے پیاسے ڈیرہ لگائے بیٹھے تھے۔

پاکستان کے کارکن صحافیوں کے ساتھ استحصال کے خلاف نعرے لگتے، بے شمار نامور صحافی جن میں حمید اختر، عبداللہ ملک، احمد بشیر، آئی اے رحمٰن، نثار عثمانی، عبدالقدیر رشک، اسرار زیدی اور بے شمار اہلِ قلم ہڑتالی کیمپ سے باہر لمحہ لمحہ نظر آتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب میں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ایم اے کا امتحان دے کر خوابوں کی دنیا سے حقیقت کے میدان میں کودنے کے لیے کوشاں تھی۔ اتنے بڑے بڑے نام اور ہم جیسے کیڑے مکوڑے ... اس کے بعد روزنامہ ''آزاد'' اور بعد میں ''مساوات'' میں انھی تمام لوگوں کی سرپرستی رہی۔

جناب شوکت صدیقی، جناب ظہیر کاشمیری جیسی ہستیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ''آزاد'' اور ''مساوات'' میں عباس اطہر صاحب کی پیشہ وارانہ صلاحیت کی محنت اور شفقت نے بہت کچھ دیا۔ ہمت، حوصلہ اور بے باکی جس سے قلم کی طاقت اور بڑھتی ہے۔

اک موریہ پل کے برابر روئی دھنکنے کے کارخانے، چوڑی گروں کی محنت پر ڈاکو منٹری رپورٹیں تیار کی جاتیں اور داد ملتی، حوصلہ بڑھتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بنگلہ دیش بہاری مہاجرین کو لے کر پہلا جہاز لاہور کے ایئر پورٹ پر اترا تو جناب اطہر عباس نے مجھے رپورٹنگ کے لیے بھیجا۔ یہ رپورٹ ''آزاد'' میں چھپی تو اگلے روز دفتر میں تعریفی الفاظ سے یوں گویا ہوئے۔ ''پارٹنر! بہت اچھی اور پیشہ وارانہ رپورٹ ہے، شاباش''۔


اسی دوران ایک مرتبہ رپورٹنگ روم میں کچھ لوگوں کے اونچی اونچی آواز میں بولنے کی آوازیں آئیں۔ تھوڑی دیر بعد عبداللہ ملک اور عباس اطہر ہمارے کیبن میں تشریف لائے اور کہا کہ ''بچے یہ رپورٹر اور دوسرے لوگ آپس میں گالی گلوچ کے بغیر بات نہیں کرتے۔ آپ کے وہاں بیٹھنے سے لحاظ کریں گے اور زبانیں کنٹرول میں رکھیں گے''۔ وہاں بھی بہت سے سینئر صحافی گاہے بگاہے آتے رہتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ ''آزاد'' لارنس روڈ سے نکلتا تھا۔ پڑھے لکھے اور تجربہ کار اہل قلم کا تانتا بندھا رہتا۔

وہ وقت اچھا تھا جب ایک فل سیٹ چائے (ہاف سیٹ میں دو پیالی اور فل سیٹ میں 4 پیالی) ڈیڑھ دو روپے میں مل جایا کرتی تھی۔ عباس اطہر صاحب انھی لوگوں میں سے تھے جو روزانہ دو تین سیٹ چائے میں آنے جانے والوں کے علاوہ ہماری تواضع بھی کرتے۔ ایک مرتبہ شہر میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی۔

اور منی بسیں، رکشہ، ٹیکسی سب بند۔ اس روز رات گئے تک ہم سب لوگ دفتر میں ہی رہے اور رات کے کھانے کے لیے جناب عباس اطہر نے ہر کیبن اور کونے میں جا کر ہر کسی کی خبر گیری کی۔ وہ طبعاً سادا اور نیک انسان تھے۔ جب مجھے ''آزاد'' اخبار کے میگزین کی ایڈیٹنگ سونپی گئی تو آفس میں آ کر گاہے بگاہے کاپی Pasting کا وقت تو گائیڈ کرتے اور پھر تعریف بھی کرتے۔

طارق وارثی، مسکین حجازی اور بے شمار نام ذہن اور آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اخبار کی دنیا عجب دنیا ہے اس کے بارے میں ہی ایک کہاوت ہے کہ ایک صحافی کے بارے میں کسی نے پوچھا آپ کا چھوٹا بچہ کتنا بڑا ہے، ہاتھ کا اشارہ کر کے بتایا ہے کہ اتنا تھا۔ اب اتنا ہے۔ سننے والا ہنس دیا اور کہا یہ کیا جواب ہوا۔ میں تو عمر پوچھ رہا ہوں۔ بولے صبح سویرے جب گھر سے نکلتا ہوں تو وہ سو رہا ہوتا ہے، رات گئے اخبار کی کاپی کے پریس میں جانے کے بعد گھر پہنچتا ہوں تو وہ سو چکا ہوتا ہے۔ سید عباس اطہر انھی لوگوں میں ایک تھے۔ اپنی سوچ میں منفرد اور اپنے نظریات میں اٹل انسان جن کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا۔ اللہ آئی اے رحمٰن کو طویل عمر دے۔ اس وقت کے بس چند لوگ باقی ہیں۔

آج میڈیا کے میدان میں بے شمار نام ایسے ہیں جن کی پیشہ وارانہ تربیت عباس اطہر صاحب نے کی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک خاتون کو شوق تھا کہ وہ بھی کچھ لکھیں۔ انھوں نے خواتین کے صفحہ کے لیے ایک مضمون لکھا اور کتابت کے لیے بھجوا دیا۔ عباس اطہر رپورٹنگ روم سے نکل کر کیبن کے پاس کھڑے تھے کہ ان کی نظر اس مضمون پر پڑی، ہنستے ہوئے اندر آ گئے۔ بولے ''محترمہ یہ اخبار ''آزاد'' کوئی عورتوں کو کھانے پکانے کی ترکیبوں کے لیے نہیں نکالا گیا۔ اس میں خواتین کی Uplift اور ان کی ذہنی بالیدگی اور نشوونما ہمارا موٹو ہے۔ دوبارہ لکھیں اور کوئی مثبت موضوع تلاش کریں اور ہنستے ہوئے باہر نکل گئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلے اور ایک قہقہہ لگایا۔ ''پھوار پڑ رہی ہے، سموسے اور پکوڑے تلے جا رہے ہیں اور اماں دالان میں بیٹھی مٹر چھیل رہی ہیں''۔ یہ غالباً اس مضمون کا ایک پیرا تھا جو وہ پڑھ رہے تھے۔
Load Next Story