علما اور اسلامی بیداری کانفرنس
پاکستان سے خواتین اراکین اسمبلی اور مختلف جماعتوں کی فعال خواتین اس کانفرنس میں شرکت کر چکی ہیں۔
انتیس اور تیس اپریل کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ''علما اور اسلامی بیداری'' کے عنوان سے عالمی کانفرنس میں تقریباً سات سو علما نے شرکت کی۔ ان سنی و شیعہ علما میں دنیا کے مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے پانچ سو جب کہ دو سو کا تعلق ایران سے تھا۔ پاکستان سے بزرگ علما مفسر قرآن محسن علی نجفی اور علامہ حسن صلاح الدین، مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، شیعہ علما کونسل کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور کئی دیگر علما نے اس کانفرنس میں شرکت کر کے پاکستان کی نمایندگی کی۔
بھارت کے علامہ قلب صادق، عراق کے سابق وزیر اعظم ابراہیم جعفری، افغانستان کے علامہ آصف محسنی اور مقبوضہ فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداﷲ شلاح سمیت دنیا بھر کے ممالک کی نمایندگی اس عالمی کانفرنس میں دیکھنے میں آئی۔ کانفرنس میں ''اسلامی بیداری، چیلنجز اور مواقع''، ''فلسطین اور سرائیل کے خلاف مزاحمت''، شام اور دیگر عنوان پر تقاریر ہوئیں۔ ماہرین کے گروپ تشکیل دیے گئے۔ ایران اس سے قبل ''اسلامی بیداری اور نوجوانان'' اور ''اسلامی بیداری اور خواتین'' کے عنوان سے عالمی کانفرنس منعقد کر چکا ہے۔
پاکستان سے خواتین اراکین اسمبلی اور مختلف جماعتوں کی فعال خواتین اس کانفرنس میں شرکت کر چکی ہیں۔ علما اور اسلامی بیداری کانفرنس میں سید علی حسینی خامنہ ای نے اپنی تقریر کو پانچ اہم نکات میں سمیٹ کر حاضرین کو انتہائی آسان زبان میں بہت سی مشکلات سے آگاہ کیا۔ پہلے نکتے میں انھوں نے اسلامی بیداری کی تحریکوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ حقیقت آشکار کی کہ جیسے ہی نو آبادیاتی ممالک اس خطے میں داخل ہوئے تو یہاں اسلامی نظریات کے مطابق علمائے اسلام نے اسلامی بیداری کی تحریک شروع کر دی تھی۔
ایسے عظیم مذہبی مصلحین میں سر فہرست سید جمال الدین، محمد عبدہ، میرزائے شیرازی، اخوند خراسانی، محمود الحسن، محمد علی، شیخ فضل اﷲ، حاجی آقا نور اﷲ، ابوالاعلیٰ مودودی اور ایران، مصر، بھارت اور عراق کے ایسے ہی دیگر معروف اور عظیم مجاہد اور با اثر علما اور بیسویں صدی کے عظیم اسلامی انقلابی رہنما امام خمینی شامل ہیں، جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے درج ہو چکے ہیں۔ جب کہ غیر علماء میں حسن البنا اور علامہ اقبال جیسے مذہبی مصلح افراد کی ایک طویل فہرست بھی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ علما پر سنگین ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ دشمنوں کے مکر و فریب اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے علما ہوشیار اور بیدار رہیں۔
دوسرے نکتے میں مسلمان ممالک میں اسلامی بیداری کے طویل المدت، درمیانی مدت اور کم مدت مقاصد اور اہداف متعین کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بیداری کا آخری ہدف درخشاں اسلامی تمدن کا احیاء ہونا چاہیے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے قنوطیت پسندی اور جلد بازی سے گریز کیا جائے۔تیسرے نکتے میں انھوں نے زور دیا کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کو سیاست، رویے اور لائف اسٹائل میں مغرب کی پیروی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ تجربہ ماضی میں ناکام ہو چکا ہے۔
لیکن اس کا یہ بھی مقصد نہیں کہ مغرب سے دشمنی رکھی جائے بلکہ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ان کی متکبرانہ اور دھونس دھاندلی کی پالیسیوں نے ہماری ملتوں کو ان استعماری اور نو آبادیاتی طاقتوں سے نالاں کر دیا ہے، ان ممالک میں کہ جہاں اسلامی بیداری کی معطر ہوا پہنچ چکی ہے، امریکا، صہیونیت اور ان کے اتحادیوں کی مداخلت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکا اور دیگر طاقتوں سے وابستہ اسلامی ممالک کے خواص، روشن فکر افراد اور علما اس قرآنی تنبیہ کو فراموش نہ کریں کہ جو اﷲ کی نعمتوں کے بدلے میں ناشکر ی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی جماعت کو ہلاکت کے گھر جہنم میں داخل کرتے ہیں۔
چوتھے نکتے میں خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کو خونیں فرقہ وارانہ، لسانی اور قومی تنازعات میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کی جہالت، تعصبات اور سطحیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، لہٰذا اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے علمائے دین اور خواص کو اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔ لیبیا، مصر، تیونس، شام، پاکستان، عراق اور لبنان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ بیوقوفی ہو گی کہ اسے نظریات یا لسانی و دیگر عوامل کے نتیجے میں ہونے والا تنازعہ کہا جائے بلکہ اس میں غیر ملکی ہاتھ صاف نظر آتا ہے، جس کا اولین مقصد صہیونیت کا دفاع اور تحفظ ہے۔
شام کے مسئلے کو امریکا و دیگر مغربی اور اتحادی میڈیا شیعہ سنی مسئلہ بنا کر رائے عامہ کو دھوکا دے رہا ہے کیونکہ نہ تو شام کی حکومت شیعہ ہے اور نہ ہی شام کی حکومت سے لڑنے والے سنی ہیں۔ شام میں صرف دو گروہ ہیں ایک وہ جو صہیونیت (اسرائیل) کے خلاف ہیں اور دوسر ے وہ ہیں جو صہیونیت کے حامی اور مزاحمت اسلامی کے مخالف ہیں۔امام خامنہ ای نے کہا کہ بحرین میں بھی مسئلہ مستضعف اکثریت اور سیکولر حکومت کے درمیان مسئلہ ہے۔ عوام کی اکثریت جائز حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لیکن سیکولر حکومت بہانے بازی سے خود کو سنی بنا کر پیش کر رہی ہے جو کہ سچ نہیں ہے۔
پانچواں اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کی سمت کا تعین کرنے کا ایک پیمانہ فلسطین ہے۔ کیا یہ تحریکیں مظلوم فلسطینیوں اور ان کے حق کی جنگ لڑنے والی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ ہیں یا اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا اور اتحادی ممالک کے ساتھ؟ جو کوئی بھی القدس کی آزادی کا مخالف ہے اور مزاحمتی تحریکوں سے منہ موڑ رہا ہے، اس کی مذمت کی جائے گی۔ ان اہم نکات کے ساتھ خامنہ ای نے کامیابی کی کنجی کی طرف رہنمائی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی ایران کے ذریعے پچھلے تیس سال میں انھوں نے یہ سیکھا کہ اسلامی اصولوں پر اٹل رہنا اور عوام کا میدان میں حاضر رہنا، دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دیتا ہے۔
تیس اپریل کو کانفرنس سے فلسطینی تحریک جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداﷲ شلاح نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ امت کو فتنے سے بچانے کے لیے علما خود سے آغاز کریں، یعنی علما کی صفوں سے فتنہ انگیزی ختم کرائیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ مزاحمتی رہنما نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل کی صورت میں ڈھائی جانے والی قیامت کو پینسٹھ سال بیت چکے ہیں لیکن بعض مسلمان حکمران ناجائز صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کر کے فلسطینیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مزاحمت ترک کر کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں جب کہ اسرائیل پوری امت کا کھلا دشمن ہے۔اس کانفرنس میں ایک اہم عنوان یعنی ''پیامبر اعظم ﷺ، اتحاد کا محور'' پر بھی گفتگو کی گئی۔
اس موضوع پر علما نے کہا کہ اسلام یونیورسل دین ہے، لہٰذا خاتم الانبیا ﷺ سارے انسانوں کے رہنما ہیں اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی علامت ہیں۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں انتہاپسندوں کو اسلام سے منحرف قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علما کو کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا۔ علما کے درمیان روابط اور تعاون کو فروغ دینے کے لے ایک عالمی تنظیم کے قیام کی تجویز دی گئی اور ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کو کانفرنس کے اعلامیے پر عمل کرنے اور مجوزہ عالمی تنظیم پر منصوبہ سازی کا کام سونپا گیا۔ یہ کانفرنس بلاشبہ ایک اچھی کوشش ہے۔ امام خامنہ ای نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان میں پاکستان بھی گھرا ہوا ہے۔ من حیث القوم ہمیں ان اہم مسائل کے حل کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بھارت کے علامہ قلب صادق، عراق کے سابق وزیر اعظم ابراہیم جعفری، افغانستان کے علامہ آصف محسنی اور مقبوضہ فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداﷲ شلاح سمیت دنیا بھر کے ممالک کی نمایندگی اس عالمی کانفرنس میں دیکھنے میں آئی۔ کانفرنس میں ''اسلامی بیداری، چیلنجز اور مواقع''، ''فلسطین اور سرائیل کے خلاف مزاحمت''، شام اور دیگر عنوان پر تقاریر ہوئیں۔ ماہرین کے گروپ تشکیل دیے گئے۔ ایران اس سے قبل ''اسلامی بیداری اور نوجوانان'' اور ''اسلامی بیداری اور خواتین'' کے عنوان سے عالمی کانفرنس منعقد کر چکا ہے۔
پاکستان سے خواتین اراکین اسمبلی اور مختلف جماعتوں کی فعال خواتین اس کانفرنس میں شرکت کر چکی ہیں۔ علما اور اسلامی بیداری کانفرنس میں سید علی حسینی خامنہ ای نے اپنی تقریر کو پانچ اہم نکات میں سمیٹ کر حاضرین کو انتہائی آسان زبان میں بہت سی مشکلات سے آگاہ کیا۔ پہلے نکتے میں انھوں نے اسلامی بیداری کی تحریکوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ حقیقت آشکار کی کہ جیسے ہی نو آبادیاتی ممالک اس خطے میں داخل ہوئے تو یہاں اسلامی نظریات کے مطابق علمائے اسلام نے اسلامی بیداری کی تحریک شروع کر دی تھی۔
ایسے عظیم مذہبی مصلحین میں سر فہرست سید جمال الدین، محمد عبدہ، میرزائے شیرازی، اخوند خراسانی، محمود الحسن، محمد علی، شیخ فضل اﷲ، حاجی آقا نور اﷲ، ابوالاعلیٰ مودودی اور ایران، مصر، بھارت اور عراق کے ایسے ہی دیگر معروف اور عظیم مجاہد اور با اثر علما اور بیسویں صدی کے عظیم اسلامی انقلابی رہنما امام خمینی شامل ہیں، جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے درج ہو چکے ہیں۔ جب کہ غیر علماء میں حسن البنا اور علامہ اقبال جیسے مذہبی مصلح افراد کی ایک طویل فہرست بھی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ علما پر سنگین ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ دشمنوں کے مکر و فریب اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے علما ہوشیار اور بیدار رہیں۔
دوسرے نکتے میں مسلمان ممالک میں اسلامی بیداری کے طویل المدت، درمیانی مدت اور کم مدت مقاصد اور اہداف متعین کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بیداری کا آخری ہدف درخشاں اسلامی تمدن کا احیاء ہونا چاہیے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے قنوطیت پسندی اور جلد بازی سے گریز کیا جائے۔تیسرے نکتے میں انھوں نے زور دیا کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کو سیاست، رویے اور لائف اسٹائل میں مغرب کی پیروی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ تجربہ ماضی میں ناکام ہو چکا ہے۔
لیکن اس کا یہ بھی مقصد نہیں کہ مغرب سے دشمنی رکھی جائے بلکہ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ان کی متکبرانہ اور دھونس دھاندلی کی پالیسیوں نے ہماری ملتوں کو ان استعماری اور نو آبادیاتی طاقتوں سے نالاں کر دیا ہے، ان ممالک میں کہ جہاں اسلامی بیداری کی معطر ہوا پہنچ چکی ہے، امریکا، صہیونیت اور ان کے اتحادیوں کی مداخلت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکا اور دیگر طاقتوں سے وابستہ اسلامی ممالک کے خواص، روشن فکر افراد اور علما اس قرآنی تنبیہ کو فراموش نہ کریں کہ جو اﷲ کی نعمتوں کے بدلے میں ناشکر ی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی جماعت کو ہلاکت کے گھر جہنم میں داخل کرتے ہیں۔
چوتھے نکتے میں خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کو خونیں فرقہ وارانہ، لسانی اور قومی تنازعات میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کی جہالت، تعصبات اور سطحیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، لہٰذا اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے علمائے دین اور خواص کو اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔ لیبیا، مصر، تیونس، شام، پاکستان، عراق اور لبنان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ بیوقوفی ہو گی کہ اسے نظریات یا لسانی و دیگر عوامل کے نتیجے میں ہونے والا تنازعہ کہا جائے بلکہ اس میں غیر ملکی ہاتھ صاف نظر آتا ہے، جس کا اولین مقصد صہیونیت کا دفاع اور تحفظ ہے۔
شام کے مسئلے کو امریکا و دیگر مغربی اور اتحادی میڈیا شیعہ سنی مسئلہ بنا کر رائے عامہ کو دھوکا دے رہا ہے کیونکہ نہ تو شام کی حکومت شیعہ ہے اور نہ ہی شام کی حکومت سے لڑنے والے سنی ہیں۔ شام میں صرف دو گروہ ہیں ایک وہ جو صہیونیت (اسرائیل) کے خلاف ہیں اور دوسر ے وہ ہیں جو صہیونیت کے حامی اور مزاحمت اسلامی کے مخالف ہیں۔امام خامنہ ای نے کہا کہ بحرین میں بھی مسئلہ مستضعف اکثریت اور سیکولر حکومت کے درمیان مسئلہ ہے۔ عوام کی اکثریت جائز حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لیکن سیکولر حکومت بہانے بازی سے خود کو سنی بنا کر پیش کر رہی ہے جو کہ سچ نہیں ہے۔
پانچواں اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کی سمت کا تعین کرنے کا ایک پیمانہ فلسطین ہے۔ کیا یہ تحریکیں مظلوم فلسطینیوں اور ان کے حق کی جنگ لڑنے والی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ ہیں یا اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا اور اتحادی ممالک کے ساتھ؟ جو کوئی بھی القدس کی آزادی کا مخالف ہے اور مزاحمتی تحریکوں سے منہ موڑ رہا ہے، اس کی مذمت کی جائے گی۔ ان اہم نکات کے ساتھ خامنہ ای نے کامیابی کی کنجی کی طرف رہنمائی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی ایران کے ذریعے پچھلے تیس سال میں انھوں نے یہ سیکھا کہ اسلامی اصولوں پر اٹل رہنا اور عوام کا میدان میں حاضر رہنا، دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دیتا ہے۔
تیس اپریل کو کانفرنس سے فلسطینی تحریک جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداﷲ شلاح نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ امت کو فتنے سے بچانے کے لیے علما خود سے آغاز کریں، یعنی علما کی صفوں سے فتنہ انگیزی ختم کرائیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ مزاحمتی رہنما نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل کی صورت میں ڈھائی جانے والی قیامت کو پینسٹھ سال بیت چکے ہیں لیکن بعض مسلمان حکمران ناجائز صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کر کے فلسطینیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مزاحمت ترک کر کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں جب کہ اسرائیل پوری امت کا کھلا دشمن ہے۔اس کانفرنس میں ایک اہم عنوان یعنی ''پیامبر اعظم ﷺ، اتحاد کا محور'' پر بھی گفتگو کی گئی۔
اس موضوع پر علما نے کہا کہ اسلام یونیورسل دین ہے، لہٰذا خاتم الانبیا ﷺ سارے انسانوں کے رہنما ہیں اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی علامت ہیں۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں انتہاپسندوں کو اسلام سے منحرف قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علما کو کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا۔ علما کے درمیان روابط اور تعاون کو فروغ دینے کے لے ایک عالمی تنظیم کے قیام کی تجویز دی گئی اور ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کو کانفرنس کے اعلامیے پر عمل کرنے اور مجوزہ عالمی تنظیم پر منصوبہ سازی کا کام سونپا گیا۔ یہ کانفرنس بلاشبہ ایک اچھی کوشش ہے۔ امام خامنہ ای نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان میں پاکستان بھی گھرا ہوا ہے۔ من حیث القوم ہمیں ان اہم مسائل کے حل کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔