انتخابی مہم ختم سیاسی قائدین ملک کی تقدیر سنوارنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے

انتخابی مہم کے دوران کئی جماعتوں کے جلسوں، دفتروں اور کارکنان کو نشانہ بنایا گیا جس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے۔

دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے سندھ، خیبر پختون خواں اور بلوچستان میں انتخابی مہم بری طرح متاثر ہوئی۔ فوٹو : فائل

الیکشن قوانین کے تحت ملک بھر میں جاری انتخابی مہم الیکشن کے 36 گھنٹے قبل ختم ہوگئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کےلئے 21 دن کا وقت دیا گیا تھا اور امیدواروں کو پولنگ سے 48 گھنٹے قبل انتخابی مہم ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ امیدوار جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات 12 بجے کے بعد سے کوئی بھی جلسہ، کارنر میٹنگ یا انتخابات کے حوالے سے عوام سے رابطہ نہیں کرسکیں گے اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں 10 مئی کا دن شروع ہونے کے بعد کسی ٹی وی چینل یا اخبار پر اپنا اشتہار بھی نشر یا شائع نہیں کرسکیں گی۔

انتخابی مہم کے آخری دن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملتان میں جلسہ عام سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے ٹانک جبکہ مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف لاہور کے علاقوں گرین ٹاؤن اور سمن آباد میں جلسوں سے خطاب کیا اور داتا دربار پر حاضری دی۔


انتتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں کی جانب سے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جلسے منعقد کئے گئے، عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 70 سے زائد سے خطاب کیا تاہم انتخابات سے صرف 5 روز قبل وہ ایک حادثے میں زخمی ہوگئے جن کے باعث انہیں ناصرف اپنے کئی جلسے ملتوی کرنے پڑے بلکہ وہ خود اپنا ووٹ بھی کاسٹ نہیں کرسکتے۔

ایک جانب جہاں اکثر جماعتیں جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد کرتی رہیں وہیں عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سیکیورٹی خدشات کے باعث روایتی انداز میں جلسے منعقد نہ کرسکیں۔ دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک کے سربراہان اور اہم رہنما بھی کھلے عام انتخابی مہم کا حصہ نہ بن سکے۔ انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات خیبر پختونخوا میں ہوئے جن کی تعداد 22 تھی جبکہ بلوچستان میں 19، سندھ میں11، فاٹا میں 8 اور پنجاب میں 2 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ ان دہشتگردی کے واقعات میں 120 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 350 سے زائد زخمی ہوئے۔ جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دو امیداوار بھی شامل تھے۔ سیکیورٹی خدشات کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کوئی بھی جماعت روایتی انداز میں اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکی۔

2013 کے عام انتخابات کو ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے الیکشن قرار دیا جارہا ہے جس کے لئے 69 ہزار 875 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں جن میں 19ہزار 644 حساس جبکہ 12ہزار 716 پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار دیئے گئے ہیں تاہم 37 ہزار 515 پولنگ اسٹیشن کو نارمل قرار دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی صورت حال کے باعث پنجاب کے 4 ہزار 463، سندھ میں 4 ہزار 176، خیبرپختونخواہ میں 2ہزار 142، بلوچستان میں 1ہزار 783 جبکہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں 134پولنگ اسٹیشن حساس ترین قرار دیئے گئے ہیں۔ پولنگ کے روز امن وامان کے قیام کے لئے پولیس ، رینجرز، ایف سی اور خاصہ دار فورس خدمات سرانجام دیں گی جبکہ فوج کو کوئیک ریسپانس فورس کے تحت استعمال کیا جائے گا جو مخصوص مقامات پر تعینات ہوگی اسے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کےلئے فوری طور پر طلب کیا جاسکے گا۔

الیکشن کمیشن نے جہاں انتخابی مہم کے لئے سخت ضابطہ اخلاق تشکیل دیا تھا وہیں پولنگ کے لئے بھی خصوصی ہدایت نامہ بھی جاری کیا جس کے تحت اسلحے کی نمائش پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت، انتحابی امیدوار اپنے خاندان کے علاوہ کسی دوسرے ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے یا واپس لے جانے کے لیے کسی بھی ٹرانسپورٹ کا استعمال نہیں کریں گے جبکہ کاغذ کی پرچیوں پر پابندی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کروانے کے لیے خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں۔
Load Next Story