روشن دن پر تاریکی حملہ آور ہے
اس دھرتی پر روزوشب کرتے عام آدمی کے پاس امید کے سوا اور ہے کیا؟
جمہوریت نظام نہیں، یہ اُمید ہے، یقین ہے، آسرا ہے، سہارا ہے۔
شام، لیبیا، مصر، تیونس کی گھٹن میں سانس کھینچتے عوام اس آس سے محروم تھے، تو سینے پھٹ پڑے اور ان سے نکلنے والے لاوے نے سب کچھ جلا ڈالا۔ اس کے برعکس جن دیسوں کے باسیوں کے دل اس اعتماد سے بھرے ہیں کہ ان کی شہادت کی انگلی پر لگی روشنائی اور ان کے ہاتھوں سے ڈبے میں گرتی پرچی بے وقعت نہیں، بے حیثیت نہیں، وہاں افلاس اور مصائب جھیلتے لوگ بدلاؤ کے لیے کوئی دیوار گرانے یا مایوسی کے کنویں میں گرنے کے بہ جائے پولنگ اسٹیشن کے دروازے ہی سے آگے تبدیلی کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔
ناموں نشانوں سے بھری یہ پرچی جسے ووٹ کہتے ہیں، کچھ دیر کے لیے عام آدمی کے ہاتھ میں آتی ہے مگر اسے اعتماد اور امید سے بھر جاتی ہے۔ تبدیل کردینے کا اعتماد، حالات بدلنے کی اُمید۔ لیکن اگر یہ احساس کُنڈلی مارے ہر طرف پھنکار رہا ہو کہ حالات اور چہرے بدلنے کا راستہ پولنگ بوتھ سے ہوکر نہیں گزرتا، پولنگ کی اوقات کی کوئی اوقات نہیں، پرچی پر لگایا جانے والا ٹھپّا حرف غلط سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔نتائج حربوں اور ضربوں کے ذریعے روزِانتخاب سے بہت پہلے ترتیب دیے جاچکے ہیں اور انتخاب کے مرحلے صاف ستھرے انتخابی عمل کے بہ جائے عتاب اور نگاہ انتخاب کے ذریعے مکمل ہوگئے ہیں۔۔۔تو ایسے میں جمہوریت نام کی آخری امید بھی دلوں سے رخصت ہوجاتی ہے اور آنکھوں کو مکمل تاریکی کے حوالے کرجاتی ہے۔
اس دھرتی پر روزوشب کرتے عام آدمی کے پاس امید کے سوا اور ہے کیا؟ بے روزگاری، افلاس، بھوک، مناسب علاج کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ کر مرجانا، مجبور ہاتھوں سے بچوں کے کندھوں سے اسکول بیگ اُتار کر ان کے ہاتھوں میں اوزار تھما دینا، کسی بھی بااثر اور بااختیار کے قدموں میں روندے جانا۔۔۔بس یہی ہے اس ملک کے عام شہری کی زندگی۔ اس کچلتی، بے بس اور محروم زندگی کے ہر پانچ سال بعد بس ایک دن آتا ہے جو اُسے اپنے ہونے کا احساس دیتا ہے۔ اگر یہ احساس بھی چھین لیا گیا تو اس کے پاس بچانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اور یاد رکھیے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ ہو اس سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔
اس روشن دن پر تاریکی حملہ آور ہے۔ بات شکوک وشبہات سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ احتساب اور انصاف کے دعوؤں کے بجتے ڈھول کی سنگت میں بہت سے اینکر اور تجزیہ کار بغلیں اور باجے بجارہے اور بھونڈی نثر میں گارہے ہیں،''دیکھو! ملک میں بدعنوانی کرنے پر کسی طاقت وَر کو پہلی بار سزا ہوئی ہے، اب کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے۔'' شاید تاریخ انھیں یہی بتاتی ہے کہ ایک طاقت ور ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی دینے کے بعد ملک میں قتل کی وارداتیں ختم ہوگئی تھیں!
ممکن تھا کہ ان ڈھول باجوں کے راگ پاٹ ہر پاکستانی کے دل کو ناچنے پر مجبور کردیتے، لیکن چار سو سے زیادہ جانیں لینے کے الزام میں اپنے ہی پُرتعیش گھر میں پورے اطمینان سے قید اور دعوت پر بُلائے مہمان کی طرح عدالت آنے والے راؤانوار کی ضمانت پر رہائی نے ڈھول کی پول کھول دی۔ اس سے پہلے خدیجہ صدیقی کا جسم چاقو کے واروں سے لُہولہان کرنے والا شاہ حُسین بَری ہوکر بتا گیا کہ کسی زورآور وکیل کا بیٹا ہونا ہی قانون کے نازک جالے کو توڑ ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دو واقعات ہی ''طاقت ور کو سزا'' کا راگ گانے والوں کے سُر بگاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اس ضمانت اور برأت نے تضاد کے چہرے سے میک اپ اُتار دیا، ثابت ہوگیا کہ ہلنا ہو تو عدل کی زنجیر خود بھی ہل پڑتی ہے اور جنبش نہ کرنا چاہے تو انصاف کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔
پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات اس سارے کھیل کا فائنل ہیں، جیت ہار کے نقشے بناکر انھیں صحیفہ سمجھنے والے جان لیں کہ عوام کھیل بگاڑ بھی سکتے ہیں۔
جمہوریت کا سر کچلنے اور بہ امر مجبوری اُسے کٹھ پُتلی بنانے کا جو مکروہ ناٹک غلام محمد اور ایوب خان نے شروع کیا تھا، وہ بدلتے گُروں اور ہتھ کنڈوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے، مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ منتخب حکومتیں پانچ سال پوری کرنے لگی ہیں، انتخابات وقت پر ہونے لگے ہیں، کچھ زبانوں سے بزدلی اور مصلحت کی لکنت اور کپکپاہٹ دور ہوئی ہے کہ حالات نے انھیں دلیری اور سچ کی کڑواہٹ سے نواز دیا ہے۔ اب انتخابات کے میدان کو شطرنج کی بساط سمجھ کر چالیں چلنے والوں پر ہے کہ اس زبان کے زبان خلق بننے سے پہلے بساط لپیٹ دیں اور مُہرے سمیٹ لیں یا کھلواڑ جاری رکھیں۔
شام، لیبیا، مصر، تیونس کی گھٹن میں سانس کھینچتے عوام اس آس سے محروم تھے، تو سینے پھٹ پڑے اور ان سے نکلنے والے لاوے نے سب کچھ جلا ڈالا۔ اس کے برعکس جن دیسوں کے باسیوں کے دل اس اعتماد سے بھرے ہیں کہ ان کی شہادت کی انگلی پر لگی روشنائی اور ان کے ہاتھوں سے ڈبے میں گرتی پرچی بے وقعت نہیں، بے حیثیت نہیں، وہاں افلاس اور مصائب جھیلتے لوگ بدلاؤ کے لیے کوئی دیوار گرانے یا مایوسی کے کنویں میں گرنے کے بہ جائے پولنگ اسٹیشن کے دروازے ہی سے آگے تبدیلی کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔
ناموں نشانوں سے بھری یہ پرچی جسے ووٹ کہتے ہیں، کچھ دیر کے لیے عام آدمی کے ہاتھ میں آتی ہے مگر اسے اعتماد اور امید سے بھر جاتی ہے۔ تبدیل کردینے کا اعتماد، حالات بدلنے کی اُمید۔ لیکن اگر یہ احساس کُنڈلی مارے ہر طرف پھنکار رہا ہو کہ حالات اور چہرے بدلنے کا راستہ پولنگ بوتھ سے ہوکر نہیں گزرتا، پولنگ کی اوقات کی کوئی اوقات نہیں، پرچی پر لگایا جانے والا ٹھپّا حرف غلط سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔نتائج حربوں اور ضربوں کے ذریعے روزِانتخاب سے بہت پہلے ترتیب دیے جاچکے ہیں اور انتخاب کے مرحلے صاف ستھرے انتخابی عمل کے بہ جائے عتاب اور نگاہ انتخاب کے ذریعے مکمل ہوگئے ہیں۔۔۔تو ایسے میں جمہوریت نام کی آخری امید بھی دلوں سے رخصت ہوجاتی ہے اور آنکھوں کو مکمل تاریکی کے حوالے کرجاتی ہے۔
اس دھرتی پر روزوشب کرتے عام آدمی کے پاس امید کے سوا اور ہے کیا؟ بے روزگاری، افلاس، بھوک، مناسب علاج کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ کر مرجانا، مجبور ہاتھوں سے بچوں کے کندھوں سے اسکول بیگ اُتار کر ان کے ہاتھوں میں اوزار تھما دینا، کسی بھی بااثر اور بااختیار کے قدموں میں روندے جانا۔۔۔بس یہی ہے اس ملک کے عام شہری کی زندگی۔ اس کچلتی، بے بس اور محروم زندگی کے ہر پانچ سال بعد بس ایک دن آتا ہے جو اُسے اپنے ہونے کا احساس دیتا ہے۔ اگر یہ احساس بھی چھین لیا گیا تو اس کے پاس بچانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اور یاد رکھیے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ ہو اس سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔
اس روشن دن پر تاریکی حملہ آور ہے۔ بات شکوک وشبہات سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ احتساب اور انصاف کے دعوؤں کے بجتے ڈھول کی سنگت میں بہت سے اینکر اور تجزیہ کار بغلیں اور باجے بجارہے اور بھونڈی نثر میں گارہے ہیں،''دیکھو! ملک میں بدعنوانی کرنے پر کسی طاقت وَر کو پہلی بار سزا ہوئی ہے، اب کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے۔'' شاید تاریخ انھیں یہی بتاتی ہے کہ ایک طاقت ور ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی دینے کے بعد ملک میں قتل کی وارداتیں ختم ہوگئی تھیں!
ممکن تھا کہ ان ڈھول باجوں کے راگ پاٹ ہر پاکستانی کے دل کو ناچنے پر مجبور کردیتے، لیکن چار سو سے زیادہ جانیں لینے کے الزام میں اپنے ہی پُرتعیش گھر میں پورے اطمینان سے قید اور دعوت پر بُلائے مہمان کی طرح عدالت آنے والے راؤانوار کی ضمانت پر رہائی نے ڈھول کی پول کھول دی۔ اس سے پہلے خدیجہ صدیقی کا جسم چاقو کے واروں سے لُہولہان کرنے والا شاہ حُسین بَری ہوکر بتا گیا کہ کسی زورآور وکیل کا بیٹا ہونا ہی قانون کے نازک جالے کو توڑ ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دو واقعات ہی ''طاقت ور کو سزا'' کا راگ گانے والوں کے سُر بگاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اس ضمانت اور برأت نے تضاد کے چہرے سے میک اپ اُتار دیا، ثابت ہوگیا کہ ہلنا ہو تو عدل کی زنجیر خود بھی ہل پڑتی ہے اور جنبش نہ کرنا چاہے تو انصاف کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔
پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات اس سارے کھیل کا فائنل ہیں، جیت ہار کے نقشے بناکر انھیں صحیفہ سمجھنے والے جان لیں کہ عوام کھیل بگاڑ بھی سکتے ہیں۔
جمہوریت کا سر کچلنے اور بہ امر مجبوری اُسے کٹھ پُتلی بنانے کا جو مکروہ ناٹک غلام محمد اور ایوب خان نے شروع کیا تھا، وہ بدلتے گُروں اور ہتھ کنڈوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے، مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ منتخب حکومتیں پانچ سال پوری کرنے لگی ہیں، انتخابات وقت پر ہونے لگے ہیں، کچھ زبانوں سے بزدلی اور مصلحت کی لکنت اور کپکپاہٹ دور ہوئی ہے کہ حالات نے انھیں دلیری اور سچ کی کڑواہٹ سے نواز دیا ہے۔ اب انتخابات کے میدان کو شطرنج کی بساط سمجھ کر چالیں چلنے والوں پر ہے کہ اس زبان کے زبان خلق بننے سے پہلے بساط لپیٹ دیں اور مُہرے سمیٹ لیں یا کھلواڑ جاری رکھیں۔