کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
ادائیگیوں کا توازن منفی 5.373 ارب ڈالر، جی ڈی پی کا 5.7 فیصد، خدمات و اشیا کی تجارت کا خسارہ سب سے بڑی وجہ قرار
اشیاو خدمات کی درآمدات میں بے لگام اضافے نے مالی سال 2017-18 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچادیا جو سال 2016-17 کے مقابلے میں 5ارب 37 کروڑ 30 لاکھ ڈالر یا 42.57 فیصد زیادہ اور قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 5.7 فیصد ہے جو اس سے پہلے فسکل ایئر میں جی ڈی پی کا 4.1 فیصد تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2017-18 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب 99 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا جو سال 2016-17 میں 12 ارب 62 کروڑ 10ل اکھ ڈالر تھا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں ہر گزرتی سہ ماہی کے ساتھ ایک معمولی استثنیٰ کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوا اور اس ضمن میں خسارے پر کنٹرول کے تمام اقدامات بے سود ثابت ہوئے۔
جولائی تا ستمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 54 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اکتوبر تا دسمبر بڑھ کر 4ارب 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، جولائی تا مارچ نسبتاً معمولی کمی سے 4 ارب 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور اپریل تا جون کی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔
جون میں کرنٹ اکاؤنٹ 1 ارب84 کروڑ جبکہ مئی میں 2 ارب 1کروڑ 10لاکھ ڈالر خسارے میں رہا، اسی مدت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سب سے بڑا حصہ اشیا و خدمات کی تجارت میں خسارے کا رہا جس کی وجہ برآمدات کے معاملے میں درآمدات کا نمایاں کردار رہا۔
اگرچہ روپے کی قدر میں پے درپے کئی بار کمی کے بعد ایکسپورٹ میں بحالی شروع ہوئی اور اشیا کی برآمدات میں 13 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ اشیا و خدمات کی ایکسپورٹ میں 12.6 فیصد کا اضافہ ہوا تاہم درآمدات پر کنٹرول کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔
درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ بھی امپورٹ پر قابو نہ پا سکا اور اشیا و خدمات کی درآمدات 14.7 فیصد بڑھیں، اشیا کی درآمدات 55 ارب 84 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور تجارتی خسارہ 31 ارب 7کروڑ 40لاکھ ڈالر رہا جو مالی سال 2016-17 میں 26 ارب 68 کروڑ ڈالر کے خسارے سے کم وبیش ساڑھے 4 ارب ڈالر زیادہ رہا۔
اسی طرح گزشتہ مالی سال اشیا و خدمات کی تجارت کا مجموعی خسارہ 31 ارب 1کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 36 ارب 24 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا جبکہ ترسیلات زر 19 ارب 35 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں معمولی اضافے کے ساتھ 19 ارب 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہیں جو بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ثابت ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2017-18 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب 99 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا جو سال 2016-17 میں 12 ارب 62 کروڑ 10ل اکھ ڈالر تھا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں ہر گزرتی سہ ماہی کے ساتھ ایک معمولی استثنیٰ کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوا اور اس ضمن میں خسارے پر کنٹرول کے تمام اقدامات بے سود ثابت ہوئے۔
جولائی تا ستمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 54 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اکتوبر تا دسمبر بڑھ کر 4ارب 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، جولائی تا مارچ نسبتاً معمولی کمی سے 4 ارب 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور اپریل تا جون کی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 5 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔
جون میں کرنٹ اکاؤنٹ 1 ارب84 کروڑ جبکہ مئی میں 2 ارب 1کروڑ 10لاکھ ڈالر خسارے میں رہا، اسی مدت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سب سے بڑا حصہ اشیا و خدمات کی تجارت میں خسارے کا رہا جس کی وجہ برآمدات کے معاملے میں درآمدات کا نمایاں کردار رہا۔
اگرچہ روپے کی قدر میں پے درپے کئی بار کمی کے بعد ایکسپورٹ میں بحالی شروع ہوئی اور اشیا کی برآمدات میں 13 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ اشیا و خدمات کی ایکسپورٹ میں 12.6 فیصد کا اضافہ ہوا تاہم درآمدات پر کنٹرول کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔
درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ بھی امپورٹ پر قابو نہ پا سکا اور اشیا و خدمات کی درآمدات 14.7 فیصد بڑھیں، اشیا کی درآمدات 55 ارب 84 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور تجارتی خسارہ 31 ارب 7کروڑ 40لاکھ ڈالر رہا جو مالی سال 2016-17 میں 26 ارب 68 کروڑ ڈالر کے خسارے سے کم وبیش ساڑھے 4 ارب ڈالر زیادہ رہا۔
اسی طرح گزشتہ مالی سال اشیا و خدمات کی تجارت کا مجموعی خسارہ 31 ارب 1کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 36 ارب 24 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا جبکہ ترسیلات زر 19 ارب 35 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں معمولی اضافے کے ساتھ 19 ارب 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہیں جو بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ثابت ہوئیں۔