اپنے ووٹ سے چور قاتل نہ بنیں
قاتل ہر وہ شخص ہے جس کے جان بوجھ کر کیے گئے کسی بھی عمل سے کسی کی بھی جان چلی جائے۔
قاتل کا ساتھی قاتل، چورکا ساتھی چور۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے۔ قاتل قتل تب کرتا ہے اور چور چوری تب کرتا ہے جب یہ قتل کرنے، چوری کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ اگر آپ اور میں قاتلوں اور چوروں کو قتل اور چوری کرنے کی پوزیشن میں لانے کے لیے کسی بھی طرح کا، چھوٹا یا بڑا کوئی بھی کردار کیسے ہی ادا کرتے ہیں تو ہم کیا ہوئے؟ سہولت کار، قاتلوں اور چوروں کے سہولت کار، یعنی قاتلوں اور چوروں کے ساتھی ۔ اب ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
قاتل صرف وہ نہیں جو بندوق، پستول، چاقو، چھری، ڈنڈے، لاٹھی، مکا، لات چلا کے کسی کی جان ناحق لے لے۔ قاتل ہر وہ شخص ہے جس کے جان بوجھ کر کیے گئے کسی بھی عمل سے کسی کی بھی جان چلی جائے۔ مثلاً کسی صوبے میں ہر سال بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے اربوں روپے رکھے جائیں مگر اس صوبے پہ حکمران سیاسی پارٹی کا مالک و ان داتا، اس کا متعین کردہ وزیر اعلیٰ، وزیر صحت، سیکریٹری صحت اور دوسرے حکام، درباری وغیرہ یہ اربوں روپوں کا بجٹ خود ہڑپ کر جائیں۔
صحت کی سہولتوں پہ نہ لگنے دیں اور نتیجتاً علاج معالجے کی معیاری سہولتیں نہ ملنے پر ہر سال سیکڑوں، بچے، مرد و خواتین جان سے جائیں تو ان کی موت کیا ہوئی؟ قتل ہوا نا۔ اور قتل بھی جان بوجھ کر کیے گئے کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ علاج معالجے کی معیاری سہولتیں نہ ملنے پہ انسانوں کی جان جاسکتی ہے۔ تو جناب پھر ہر سال ان سیکڑوں انسانوں کی جان جانے کے جانے بوجھے ذمے دار کون ہوئے؟ وہی کردار جو صحت کا بجٹ کھا گئے اور ان مکروہ کرداروں کو اس پوزیشن اس حکومتی حیثیت و مقام پہ لانے والے، سہولت کار کون ہوئے؟ آپ اور میں کہ جن کے ووٹوں سے یہ حکومت بنانے اور لوٹ مار کے قابل ہوئے۔
اب ایک اور انداز سے اس صورتحال کو دیکھیے کہ حکومت میں آنے کے بعد کرپشن ان نابکار کرداروں نے کی، میں نے اور آپ نے نہیں مگر ان کی لوٹ مار کے نتیجے میں ہر سال سیکڑوں لوگوں کی جو جان گئی اس کے ذمے دار ان کے ساتھ ساتھ میں اور آپ بھی ہوئے۔ کیونکہ ہمارے ووٹوں کے بغیر یہ حکومت میں نہیں آسکتے تھے، یہ لوٹ مار نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کا اور میرا جرم اور گناہ اس وقت کئی گنا مزید بڑھ جاتا ہے کہ جب ہم ایسے کرداروں کا کردار جانتے بوجھتے بھی ان کو ووٹ دیں کہ جب ہم انھیں اس سے پہلے اور اس سے پہلے اور اس پہلے سے بھی پہلے، ایک بار نہیں، بار بار، ہر بار حکومت میں آنے پہ ایسے ہی لوٹ مار کرتے دیکھ چکے ہوں اور پھر بھی انھی کو ووٹ دیں، بار بار دیں ۔ یہ نہ لوٹ مار سے باز آئیں نہ ہم انھیں ووٹ دینے سے باز آئیں تو ان کے جرائم اورگناہوں کے ساتھ ساتھ ہمارے جرائم اورگناہ بھی بڑھتے جائیں گے۔
سیکڑوں اور پھر ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کر کیے گئے قتل کا وبال ان کے ساتھ ساتھ ہم پہ بھی بڑھتا جائے گا کہ انھوں نے سب جانتے بوجھتے لوٹ مار کی اور ہم نے سب جانتے بوجھتے بھی ان کو ووٹ دیا اور بار بار دیا۔ اور جی نہیں، ہر گز نہیں، قطعاً نہیں کہ یہ کردار اور ہم اور آپ پھر چاہے کتنے ہی حج، عمرے کرلیں، کتنی ہی زکوٰۃ خیرات دے ڈالیں، کتنی ہی دیگوں کے لنگر بانٹیں، کتنے ہی مزاروں کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹیکیں، چادریں چڑھائیں، کتنے ہی پیروں کے ڈنڈے کھائیں، کتنے ہی کالے بکرے ذبح کریں، کتنی ہی مذہبی تقریباً منعقد کریں مگر یہ وہ گناہ ہیں ہمارے جوکہ معاف نہیں ہوں گے کیونکہ رب ذوالجلال نے اور تمام جہانوں کے رب کے آخری رسولؐ امام الانبیا نے ہمیں صاف صاف بتا دیا ہے کہ حقوق العباد کے گناہوں کی معافی کا اختیار رب کریم نے اس کو دیا ہے کہ جس کا حق مارا گیا ہو۔
اگر وہ یا اس کا خاندان بغیر کسی دھونس دباؤ اور دھمکیوں کے دل سے معاف کردے تو خدا معاف فرمائے گا ورنہ نہیں۔ لہٰذا نہ ہی یہ کرپٹ کردار اور نہ ہی آپ اور میں ان سیکڑوں ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کے کیے گئے قتل کی جوابدہی اور سزا سے بچ سکیں گے۔ اگر یہاں نہیں تو وہاں جہاں کوئی این آر او نہیں ہوگا، کوئی ڈیل نہیں چلے گی، کوئی گیم نہیں کھیلا جاسکے گا۔
اب ہم ووٹ والے معاملے کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ووٹوں سے حکومت بنانے والے بجٹ کی اور حکومتی مال کی لوٹ مار کرتے ہیں، کمیشن کھاتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، تو وہ دراصل کروڑوں عوام کا مال چوری کرتے ہیں یعنی آپ پہ اور مجھ پہ صرف سیکڑوں ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کے کیے گئے قتل میں شراکت کی ہی ذمے داری نہیں آئی بلکہ کروڑوں لوگوں کا مشترکہ مال چوری کرنے میں مدد دینے کا جرم اور گناہ بھی عائد ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی شعبے کو، وفاقی، صوبائی، شہری کسی بھی طرز کی حکومت کے کسی بھی معاملے کو لے لیجیے۔ جہاں جہاں ہمارے ووٹوں سے چور، قاتل، بددیانت، خائن، بے ایمان، جھوٹے، متعصب، منافق، دھوکے باز، نااہل کردار پہنچیں گے اور ان کے اعمال سے براہ راست یا باالواسطہ جیسے بھی سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی جانیں جائیں گی، کروڑوں انسانوں کا حق مارا جائے گا، ان کی ملکیت عوامی خزانہ لوٹا جائے گا تو ان جرائم اور گناہوں میں ہم ان میگا چوروں میگا قاتلوں کے ہر دن، ہر گھنٹے، ہر پل کے براہ راست شریک جرم، شریک گناہ ہوں گے۔
اس سارے معاملے کو مزید واضح کرنے کے لیے آپ ایک اور مثال لے لیجیے کہ جیسے کہ کوئی وفاقی حکمران صرف 5 سے 10 سالوں میں ملک کے 60 سالوں سے بھی دگنے بلکہ تگنے سے بھی زیادہ قرضے ملک پہ چڑھا دیتے ہیں، عوام کی آنے والی کئی کئی نسلوں کو مقروض کردیتے ہیں جب کہ ملک پہ چڑھائے گئے قرضوں کے پیسے ملک پہ لگانے کے بجائے خود ہڑپ کر جاتے ہیں، چوری کرلیتے ہیں اور قوم کے مال کی اس چوری سے دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا، اسپین، ملائیشیا، سنگاپور میں جائیدادیں خریدتے ہیں، کاروبار جماتے ہیں، جرائم کے مال کی جنت سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹ کھولتے ہیں، آف شور کمپنیاں بناکر مقامی جعلی بینک اکاؤنٹس سے چوری کا مال منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔
قوم کے لوٹے ہوئے مال کو صرف 2 فیصد کی ادائیگی پہ ''پاک و صاف'' کرنے کے لیے نام نہاد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں چلاتے ہیں، پلی بارگین کا فراڈ رچاتے ہیں اور دوسری طرف ملک کو ہر سال ان چوری شدہ قرضوں کے صرف سود ہی کے اربوں کھربوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں، ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے، درآمدات برآمدات سے دگنی ہوجاتی ہیں، کارخانے بند ہوجاتے ہیں، بے روزگاری پھیل جاتی ہے، مہنگائی بڑھ جاتی ہے، لوگ خودکشیاں کرنے، ڈاکے مارنے اور عورتیں عصمت فروشی پہ مجبور ہوجاتی ہیں تو ان تمام جرائم، ان تمام گناہوں کے ذمے دار ہمارے ووٹوں سے منتخب کردہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انھیں ووٹ دے کر اس پوزیشن میں لانے والے آپ اور میں بھی ہوئے۔ ایک اور مثال لیجیے کہ کوئی صوبائی حکومت پولیس میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی آئی جی کے عہدوں تک ہزاروں سکہ بند جرائم پیشہ افراد کو سیاسی بنیادوں، لسانی تعصب اور رشوت و سفارش کے عوض بھرتی کرتی ہے۔
یہ لوگ تھانوں میں بیٹھ کر چوروں، قاتلوں، بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہیں، یہ انسانوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں تو ان کے ہر سیکنڈ بڑھتے غلیظ گناہوں کے شریک ان کو بھرتی کرنے والے حکمران اور ان مکروہ حکمرانوں کو ووٹ دے کر حکومت میں لانے والے آپ اور میں ہوئے۔ خدا کی مخلوق کو ان کے پہنچائے گئے لاکھوں، کروڑوں دکھوں، نہ ختم ہونے والی ایذا کے گناہ کے حق دار آپ اور میں بھی ہوئے اور نہ بھولیے کہ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے۔'' یہ بھی یاد رکھیے کہ عوام کے مال میں سے آدھا یا کچھ چوری کرنے والا اور باقی عوام پہ لگانے والا حکمران بھی چور ہے جیسے کہ عوام کا سارا سارا مال چوری کرنے والا حکمران چور ہے۔
ان چور حکمرانوں کی چوری کے نتیجے میں ہر سال سیکڑوں ہزاروں لوگ ناحق جان سے جاتے ہیں، ہر روزکروڑوں انسان طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے اور دکھ جھیلتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ ہم مردہ پرستی، شخصیت پرستی ، اندھی عقیدت، لسانی، فرقہ وارانہ اور برادری کے تعصب اور کسی بھی لالچ میں بے شک ظالموں کو ووٹ دیتے جائیں اور ساتھ ہی اپنی گزگز بھر کی زبانوں سے ایڑیوں کے بل اچھل اچھل کر چلا چلا کر ان ظالموں کی حمایت کرتے جائیں مگر ہمیں کبھی بھی ان ظالموں کی اس دنیا میں لوٹ سے بنائی گئی دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ کی جنت میں کوئی بھی حصہ نہیں ملے گا البتہ ان کے بد اعمال سے کمائی گئی اس دنیا کی دوزخ میں ہمارا حصہ ضرور ہوگا کہ فرمان نبویؐ ہے ''جس کسی نے ظالم کی جان بوجھ کر مدد کی، اس نے گویا قہر الٰہی کو خود اپنے سر لے لیا۔''
قاتل صرف وہ نہیں جو بندوق، پستول، چاقو، چھری، ڈنڈے، لاٹھی، مکا، لات چلا کے کسی کی جان ناحق لے لے۔ قاتل ہر وہ شخص ہے جس کے جان بوجھ کر کیے گئے کسی بھی عمل سے کسی کی بھی جان چلی جائے۔ مثلاً کسی صوبے میں ہر سال بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے اربوں روپے رکھے جائیں مگر اس صوبے پہ حکمران سیاسی پارٹی کا مالک و ان داتا، اس کا متعین کردہ وزیر اعلیٰ، وزیر صحت، سیکریٹری صحت اور دوسرے حکام، درباری وغیرہ یہ اربوں روپوں کا بجٹ خود ہڑپ کر جائیں۔
صحت کی سہولتوں پہ نہ لگنے دیں اور نتیجتاً علاج معالجے کی معیاری سہولتیں نہ ملنے پر ہر سال سیکڑوں، بچے، مرد و خواتین جان سے جائیں تو ان کی موت کیا ہوئی؟ قتل ہوا نا۔ اور قتل بھی جان بوجھ کر کیے گئے کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ علاج معالجے کی معیاری سہولتیں نہ ملنے پہ انسانوں کی جان جاسکتی ہے۔ تو جناب پھر ہر سال ان سیکڑوں انسانوں کی جان جانے کے جانے بوجھے ذمے دار کون ہوئے؟ وہی کردار جو صحت کا بجٹ کھا گئے اور ان مکروہ کرداروں کو اس پوزیشن اس حکومتی حیثیت و مقام پہ لانے والے، سہولت کار کون ہوئے؟ آپ اور میں کہ جن کے ووٹوں سے یہ حکومت بنانے اور لوٹ مار کے قابل ہوئے۔
اب ایک اور انداز سے اس صورتحال کو دیکھیے کہ حکومت میں آنے کے بعد کرپشن ان نابکار کرداروں نے کی، میں نے اور آپ نے نہیں مگر ان کی لوٹ مار کے نتیجے میں ہر سال سیکڑوں لوگوں کی جو جان گئی اس کے ذمے دار ان کے ساتھ ساتھ میں اور آپ بھی ہوئے۔ کیونکہ ہمارے ووٹوں کے بغیر یہ حکومت میں نہیں آسکتے تھے، یہ لوٹ مار نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کا اور میرا جرم اور گناہ اس وقت کئی گنا مزید بڑھ جاتا ہے کہ جب ہم ایسے کرداروں کا کردار جانتے بوجھتے بھی ان کو ووٹ دیں کہ جب ہم انھیں اس سے پہلے اور اس سے پہلے اور اس پہلے سے بھی پہلے، ایک بار نہیں، بار بار، ہر بار حکومت میں آنے پہ ایسے ہی لوٹ مار کرتے دیکھ چکے ہوں اور پھر بھی انھی کو ووٹ دیں، بار بار دیں ۔ یہ نہ لوٹ مار سے باز آئیں نہ ہم انھیں ووٹ دینے سے باز آئیں تو ان کے جرائم اورگناہوں کے ساتھ ساتھ ہمارے جرائم اورگناہ بھی بڑھتے جائیں گے۔
سیکڑوں اور پھر ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کر کیے گئے قتل کا وبال ان کے ساتھ ساتھ ہم پہ بھی بڑھتا جائے گا کہ انھوں نے سب جانتے بوجھتے لوٹ مار کی اور ہم نے سب جانتے بوجھتے بھی ان کو ووٹ دیا اور بار بار دیا۔ اور جی نہیں، ہر گز نہیں، قطعاً نہیں کہ یہ کردار اور ہم اور آپ پھر چاہے کتنے ہی حج، عمرے کرلیں، کتنی ہی زکوٰۃ خیرات دے ڈالیں، کتنی ہی دیگوں کے لنگر بانٹیں، کتنے ہی مزاروں کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹیکیں، چادریں چڑھائیں، کتنے ہی پیروں کے ڈنڈے کھائیں، کتنے ہی کالے بکرے ذبح کریں، کتنی ہی مذہبی تقریباً منعقد کریں مگر یہ وہ گناہ ہیں ہمارے جوکہ معاف نہیں ہوں گے کیونکہ رب ذوالجلال نے اور تمام جہانوں کے رب کے آخری رسولؐ امام الانبیا نے ہمیں صاف صاف بتا دیا ہے کہ حقوق العباد کے گناہوں کی معافی کا اختیار رب کریم نے اس کو دیا ہے کہ جس کا حق مارا گیا ہو۔
اگر وہ یا اس کا خاندان بغیر کسی دھونس دباؤ اور دھمکیوں کے دل سے معاف کردے تو خدا معاف فرمائے گا ورنہ نہیں۔ لہٰذا نہ ہی یہ کرپٹ کردار اور نہ ہی آپ اور میں ان سیکڑوں ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کے کیے گئے قتل کی جوابدہی اور سزا سے بچ سکیں گے۔ اگر یہاں نہیں تو وہاں جہاں کوئی این آر او نہیں ہوگا، کوئی ڈیل نہیں چلے گی، کوئی گیم نہیں کھیلا جاسکے گا۔
اب ہم ووٹ والے معاملے کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ووٹوں سے حکومت بنانے والے بجٹ کی اور حکومتی مال کی لوٹ مار کرتے ہیں، کمیشن کھاتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، تو وہ دراصل کروڑوں عوام کا مال چوری کرتے ہیں یعنی آپ پہ اور مجھ پہ صرف سیکڑوں ہزاروں انسانوں کے جان بوجھ کے کیے گئے قتل میں شراکت کی ہی ذمے داری نہیں آئی بلکہ کروڑوں لوگوں کا مشترکہ مال چوری کرنے میں مدد دینے کا جرم اور گناہ بھی عائد ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی شعبے کو، وفاقی، صوبائی، شہری کسی بھی طرز کی حکومت کے کسی بھی معاملے کو لے لیجیے۔ جہاں جہاں ہمارے ووٹوں سے چور، قاتل، بددیانت، خائن، بے ایمان، جھوٹے، متعصب، منافق، دھوکے باز، نااہل کردار پہنچیں گے اور ان کے اعمال سے براہ راست یا باالواسطہ جیسے بھی سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی جانیں جائیں گی، کروڑوں انسانوں کا حق مارا جائے گا، ان کی ملکیت عوامی خزانہ لوٹا جائے گا تو ان جرائم اور گناہوں میں ہم ان میگا چوروں میگا قاتلوں کے ہر دن، ہر گھنٹے، ہر پل کے براہ راست شریک جرم، شریک گناہ ہوں گے۔
اس سارے معاملے کو مزید واضح کرنے کے لیے آپ ایک اور مثال لے لیجیے کہ جیسے کہ کوئی وفاقی حکمران صرف 5 سے 10 سالوں میں ملک کے 60 سالوں سے بھی دگنے بلکہ تگنے سے بھی زیادہ قرضے ملک پہ چڑھا دیتے ہیں، عوام کی آنے والی کئی کئی نسلوں کو مقروض کردیتے ہیں جب کہ ملک پہ چڑھائے گئے قرضوں کے پیسے ملک پہ لگانے کے بجائے خود ہڑپ کر جاتے ہیں، چوری کرلیتے ہیں اور قوم کے مال کی اس چوری سے دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا، اسپین، ملائیشیا، سنگاپور میں جائیدادیں خریدتے ہیں، کاروبار جماتے ہیں، جرائم کے مال کی جنت سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹ کھولتے ہیں، آف شور کمپنیاں بناکر مقامی جعلی بینک اکاؤنٹس سے چوری کا مال منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔
قوم کے لوٹے ہوئے مال کو صرف 2 فیصد کی ادائیگی پہ ''پاک و صاف'' کرنے کے لیے نام نہاد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں چلاتے ہیں، پلی بارگین کا فراڈ رچاتے ہیں اور دوسری طرف ملک کو ہر سال ان چوری شدہ قرضوں کے صرف سود ہی کے اربوں کھربوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں، ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے، درآمدات برآمدات سے دگنی ہوجاتی ہیں، کارخانے بند ہوجاتے ہیں، بے روزگاری پھیل جاتی ہے، مہنگائی بڑھ جاتی ہے، لوگ خودکشیاں کرنے، ڈاکے مارنے اور عورتیں عصمت فروشی پہ مجبور ہوجاتی ہیں تو ان تمام جرائم، ان تمام گناہوں کے ذمے دار ہمارے ووٹوں سے منتخب کردہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انھیں ووٹ دے کر اس پوزیشن میں لانے والے آپ اور میں بھی ہوئے۔ ایک اور مثال لیجیے کہ کوئی صوبائی حکومت پولیس میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی آئی جی کے عہدوں تک ہزاروں سکہ بند جرائم پیشہ افراد کو سیاسی بنیادوں، لسانی تعصب اور رشوت و سفارش کے عوض بھرتی کرتی ہے۔
یہ لوگ تھانوں میں بیٹھ کر چوروں، قاتلوں، بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہیں، یہ انسانوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں تو ان کے ہر سیکنڈ بڑھتے غلیظ گناہوں کے شریک ان کو بھرتی کرنے والے حکمران اور ان مکروہ حکمرانوں کو ووٹ دے کر حکومت میں لانے والے آپ اور میں ہوئے۔ خدا کی مخلوق کو ان کے پہنچائے گئے لاکھوں، کروڑوں دکھوں، نہ ختم ہونے والی ایذا کے گناہ کے حق دار آپ اور میں بھی ہوئے اور نہ بھولیے کہ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے۔'' یہ بھی یاد رکھیے کہ عوام کے مال میں سے آدھا یا کچھ چوری کرنے والا اور باقی عوام پہ لگانے والا حکمران بھی چور ہے جیسے کہ عوام کا سارا سارا مال چوری کرنے والا حکمران چور ہے۔
ان چور حکمرانوں کی چوری کے نتیجے میں ہر سال سیکڑوں ہزاروں لوگ ناحق جان سے جاتے ہیں، ہر روزکروڑوں انسان طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے اور دکھ جھیلتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ ہم مردہ پرستی، شخصیت پرستی ، اندھی عقیدت، لسانی، فرقہ وارانہ اور برادری کے تعصب اور کسی بھی لالچ میں بے شک ظالموں کو ووٹ دیتے جائیں اور ساتھ ہی اپنی گزگز بھر کی زبانوں سے ایڑیوں کے بل اچھل اچھل کر چلا چلا کر ان ظالموں کی حمایت کرتے جائیں مگر ہمیں کبھی بھی ان ظالموں کی اس دنیا میں لوٹ سے بنائی گئی دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ کی جنت میں کوئی بھی حصہ نہیں ملے گا البتہ ان کے بد اعمال سے کمائی گئی اس دنیا کی دوزخ میں ہمارا حصہ ضرور ہوگا کہ فرمان نبویؐ ہے ''جس کسی نے ظالم کی جان بوجھ کر مدد کی، اس نے گویا قہر الٰہی کو خود اپنے سر لے لیا۔''