انتخابات میں بائیں بازو کا کردار
جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
LONDON:
معروف انقلا بی رہنما ایما گولڈ مان کے بقول ''انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے'' آج تک دنیا میں جتنی تبدیلیاں آئی ہیں وہ انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ انقلاب کے ذریعے آئی ہیں۔
دنیاکا پہلا انقلاب 1789ء میں انقلاب فرانس کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ ہوا ۔اس انقلاب کے قائد میکسی میلین روبسپیار''عوامی تحفظ کی کمیٹی'' کے رکن تھے جو روسو سے متاثر تھے، پھر محنت کشوں کا پہلا انقلاب1 187ء میں پیرس میں برپا ہوا، اس کے قائدین پرو دھون سے متاثر تھے۔اس انقلاب کے بعد 200 رکنی ایک اسمبلی قا ئم کی گئی جس میں 194انارکسٹ اور 6 مارکسٹ شامل تھے پھر روس، چین، منگولیا،کوریا اور ویتنام وغیرہ میں انقلابات کے ذریعے ہی تبدیلیاں آئیں اور ان انقلابات نے عوام کو بہت کچھ دیا، یورپ سے بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ پیرس کمیون نے 70 دن کی حکمرانی میں یہ کر دکھایا کہ مزدور طبقہ ہی عوام کو ان کے حقوق دلوا سکتا ہے۔
70 دن میں پیرس میں کوئی چوری ہوئی، بھوکا مرا، گدا گری کی، بیروزگار رہا، خودکشی کی اور نہ ڈاکے پڑے۔ پھر 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد روس میں پہلی بارخواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ 1918ء میں جر منی ،1919ء میں امریکا،1929ء میں برطانیہ اور 1973ء میں سوئٹزر لینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ انقلاب روس کے بعد دنیا کے 113ملکوں نے نو آبادیاتی غلامی سے نجات حاصل کی ۔ یہ ہیں انقلابات کے ثمرات، مگر با ئیں بازوکے کارکنان بورژوا انتخابات میں اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ اپنے خیالات، مطالبات اور نظریے کو عوام میں لے جاسکیں۔ اسی لیے 1820ء میں امریکا میںہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز نے پھر ایک بار انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
پاکستان میں 2018ء کے عام انتخابات میں بائیں بازوکے قومی اسمبلی کے تقریبا 10امیدوار اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے تقریبا 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بایاں بازو محنت کش طبقہ اور نچلا متوسط طبقے کے آزاد امیدوارکی حمایت کررہا ہے اور ان کے لیے انتخابی سرگرمی کررہا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ امیدوار عوامی ورکرز پارٹی کے ہیں۔ 10 قومی اور 22صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ہیں ۔
یہ امیدوار ملک بھر میں انتخابی دنگل میں حصہ لے رہے ہیں۔ان میں ایک خاتون عصمت رضا شاہجہان اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں، پھر مزدورکسان پارٹی کے تین امیدوار حصہ لے رہے ہیں جوکہ پشاور اور لاہور سے بھی انتخابات لڑرہے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان ہتھوڑا ہے۔ حیدرآباد سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے حمایت یافتہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار سید اظہر علی شاہ ہیں جن کا انتخابی نشان بھی ہتھوڑا ہے۔ سید اظہر علی شاہ ایک استاد ہیں اور ڈور ٹو ڈور جاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے حمایت یافتہ قومی اسمبلی کے آزاد امیدوار علی وزیر جنوبی وزیرستان سے امیدوار ہیں،ان کے والد اوربھائی سمیت خاندان کے متعدد افراد عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ۔
برابری پارٹی کے رہنما جواد احمد جوکہ گلوکار بھی ہیں قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ ڈوکری لاڑ کانہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار لیاقت میرانی گدھا گا ڑی پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ وہ انتخابی مہم میں عوام کو بتا رہے ہیں کہ میرا باپ ایک مچھیرا تھا، وہ گدھا گاڑی اور پھر سائیکل پر مچھلی بیچتا تھا۔آپ ہمیں وڈیرے کو شکست دینے کے لیے ووٹ دیں۔ ان کی حمایت بھی بائیں بازوکی جماعتیں کر رہی ہیں ۔ سندھ سوشلسٹ موومنٹ، سندھ مزدور محاذ،کمیونسٹ پارٹی اور سندھ ہاری کمیٹی ان کی حمایت کررہی ہے۔ سندھ مزدور محاذ کی جانب سے لیاقت میرانی کے لیے ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے گئے، پوسٹر چسپاں کیے گئے اور پینا فلیکس لگائے گئے۔
شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں، وہ بھی آزاد امیدوارکی حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ کراچی سے جبران ناصر آرام باغ کے ملحقہ علاقوں سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں ۔ وہ میگا فون لیے برنس روڈ سمیت مختلف علاقوں میں کارنر میٹنگ کررہے ہیں اور عوام کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں ۔ ان کی حمایت سول سوسائٹی اور بائیں بازوکے گروپس کررہے ہیں ۔خاص کر انقلابی آدرش کے کارکنان پیش پیش ہیں ۔ جبران ناصر نے اپنی انتخا بی مہم سوشل میڈیا پر جاری رکھی ہوئی ہے ۔ یہ سارے امیدوار اپنے مثبت اورعوامی مسائل کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ان میں سے کسی کا بھی جیتنا مشکل نظرآرہا ہے، ضمانت ضبط نہ ہوجائے توکافی ہے۔
گزشتہ انتخابات میں علی وزیرجنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کی نشست پرکامیاب ہوگئے تھے لیکن نتائج پینڈنگ اور ری کاؤنٹنگ کرکے مسلم لیگ ن کے امیدوارکو جتوایا گیا۔ اسی طرح بابا جان جنھوں نے ہنزہ کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جلوس کی قیادت کی تھی انھیں گرفتارکرکے قید کردیا گیا تھا۔ ایک بار مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست دی تھی مگر انھیں ہروایا گیا۔ دوسری بار وہ قید میں رہتے ہوئے انتخابات لڑرہے تھے اور مسلم لیگ ن کو شکست دینے جا رہے تھے کہ عدالت نے ان کو انتخا بی عمل سے روک دیا۔ اس لیے کہ ان پر مقدمہ ہے اور قید میں ہیں۔ یہ کو ئی پہلا واقعہ نہیں ۔
1951ء میں مشرقی پا کستان سے 80 فیصد نشستیں ''جگتو فرونٹ '' نے جیتی تھیں اور''جگتو فرونٹ'' کے 80 فیصد امیدواروں کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا۔ مسلم لیگ کو صرف 19نشستیں ملی تھیں۔ اس خوف سے 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لاہور سے قومی اسمبلی کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مزدور رہنما مرزا ابراہیم کو سرکاری ریڈیوکے اعلان کے مطابق کامیاب قرار دیا گیا، بعد ازاں شکست کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح سے اقلیتوں کی نشست پرکامریڈ سو بھوگیان چندانی قومی اسمبلی کی نشست جیت گئے تھے، انھیں ری کاؤنٹنگ کرکے ہروایا گیا۔
بہرحال موجودہ انتخابات میں بائیں بازوکی سبھی جماعتیں اور آزاد امیدواروں نے بے روزگاری، ناخواندگی، بے گھری کے خاتمے، تعلیم اور صحت کا بجٹ دس دس فیصدکرنے ، مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 40000 روپے کرنے، آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے، دفاعی اخراجات کم کرنے ، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے اور مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ اور مطالبہ کیا ہے ۔دوسری طرف جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔اقبال احسن کوگولی ماری گئی، ہارون سمیت22 ٓ افراد کا قتل ، قمر اسلام کوگرفتارکیا جانا اور دوسری جانب انتخابی مہم کے لیے خادم حسین رضوی کوکھلی چھوٹ، یعنی تحریک لبیک کو پیسے بانٹے جا رہے ہیں اور پی ٹی ایم کو غدارکہا جا رہا ہے ۔
اسحاق ڈار ،حسن، حسین، خا قان عباسی اور ثنا اللہ کوہراساں کیا جا رہا ہے تو دوسری جا نب 444 افراد کا قا تل راؤ انوارکو ضمانت دی جا رہی ہے،اب ایک اور نیا سلسلہ شروع کیا گیاہے، پی ٹی آئی یا اسٹیبلشمنٹ کے امیدوارکو جہاں جہاں شکست کا سامنا ہے، وہاں مخالف امیدوارکو دہشتگردوں کے ذریعے مارا جا رہا ہے۔ مشال خان کے قاتلوں کو رہا کیا جا رہا ہے ۔ سرمایہ داری میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔
معروف انقلا بی رہنما ایما گولڈ مان کے بقول ''انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے'' آج تک دنیا میں جتنی تبدیلیاں آئی ہیں وہ انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ انقلاب کے ذریعے آئی ہیں۔
دنیاکا پہلا انقلاب 1789ء میں انقلاب فرانس کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ ہوا ۔اس انقلاب کے قائد میکسی میلین روبسپیار''عوامی تحفظ کی کمیٹی'' کے رکن تھے جو روسو سے متاثر تھے، پھر محنت کشوں کا پہلا انقلاب1 187ء میں پیرس میں برپا ہوا، اس کے قائدین پرو دھون سے متاثر تھے۔اس انقلاب کے بعد 200 رکنی ایک اسمبلی قا ئم کی گئی جس میں 194انارکسٹ اور 6 مارکسٹ شامل تھے پھر روس، چین، منگولیا،کوریا اور ویتنام وغیرہ میں انقلابات کے ذریعے ہی تبدیلیاں آئیں اور ان انقلابات نے عوام کو بہت کچھ دیا، یورپ سے بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ پیرس کمیون نے 70 دن کی حکمرانی میں یہ کر دکھایا کہ مزدور طبقہ ہی عوام کو ان کے حقوق دلوا سکتا ہے۔
70 دن میں پیرس میں کوئی چوری ہوئی، بھوکا مرا، گدا گری کی، بیروزگار رہا، خودکشی کی اور نہ ڈاکے پڑے۔ پھر 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد روس میں پہلی بارخواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ 1918ء میں جر منی ،1919ء میں امریکا،1929ء میں برطانیہ اور 1973ء میں سوئٹزر لینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ انقلاب روس کے بعد دنیا کے 113ملکوں نے نو آبادیاتی غلامی سے نجات حاصل کی ۔ یہ ہیں انقلابات کے ثمرات، مگر با ئیں بازوکے کارکنان بورژوا انتخابات میں اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ اپنے خیالات، مطالبات اور نظریے کو عوام میں لے جاسکیں۔ اسی لیے 1820ء میں امریکا میںہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز نے پھر ایک بار انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
پاکستان میں 2018ء کے عام انتخابات میں بائیں بازوکے قومی اسمبلی کے تقریبا 10امیدوار اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے تقریبا 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بایاں بازو محنت کش طبقہ اور نچلا متوسط طبقے کے آزاد امیدوارکی حمایت کررہا ہے اور ان کے لیے انتخابی سرگرمی کررہا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ امیدوار عوامی ورکرز پارٹی کے ہیں۔ 10 قومی اور 22صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ہیں ۔
یہ امیدوار ملک بھر میں انتخابی دنگل میں حصہ لے رہے ہیں۔ان میں ایک خاتون عصمت رضا شاہجہان اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں، پھر مزدورکسان پارٹی کے تین امیدوار حصہ لے رہے ہیں جوکہ پشاور اور لاہور سے بھی انتخابات لڑرہے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان ہتھوڑا ہے۔ حیدرآباد سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے حمایت یافتہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار سید اظہر علی شاہ ہیں جن کا انتخابی نشان بھی ہتھوڑا ہے۔ سید اظہر علی شاہ ایک استاد ہیں اور ڈور ٹو ڈور جاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے حمایت یافتہ قومی اسمبلی کے آزاد امیدوار علی وزیر جنوبی وزیرستان سے امیدوار ہیں،ان کے والد اوربھائی سمیت خاندان کے متعدد افراد عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ۔
برابری پارٹی کے رہنما جواد احمد جوکہ گلوکار بھی ہیں قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ ڈوکری لاڑ کانہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار لیاقت میرانی گدھا گا ڑی پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ وہ انتخابی مہم میں عوام کو بتا رہے ہیں کہ میرا باپ ایک مچھیرا تھا، وہ گدھا گاڑی اور پھر سائیکل پر مچھلی بیچتا تھا۔آپ ہمیں وڈیرے کو شکست دینے کے لیے ووٹ دیں۔ ان کی حمایت بھی بائیں بازوکی جماعتیں کر رہی ہیں ۔ سندھ سوشلسٹ موومنٹ، سندھ مزدور محاذ،کمیونسٹ پارٹی اور سندھ ہاری کمیٹی ان کی حمایت کررہی ہے۔ سندھ مزدور محاذ کی جانب سے لیاقت میرانی کے لیے ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے گئے، پوسٹر چسپاں کیے گئے اور پینا فلیکس لگائے گئے۔
شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں، وہ بھی آزاد امیدوارکی حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ کراچی سے جبران ناصر آرام باغ کے ملحقہ علاقوں سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں ۔ وہ میگا فون لیے برنس روڈ سمیت مختلف علاقوں میں کارنر میٹنگ کررہے ہیں اور عوام کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں ۔ ان کی حمایت سول سوسائٹی اور بائیں بازوکے گروپس کررہے ہیں ۔خاص کر انقلابی آدرش کے کارکنان پیش پیش ہیں ۔ جبران ناصر نے اپنی انتخا بی مہم سوشل میڈیا پر جاری رکھی ہوئی ہے ۔ یہ سارے امیدوار اپنے مثبت اورعوامی مسائل کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ان میں سے کسی کا بھی جیتنا مشکل نظرآرہا ہے، ضمانت ضبط نہ ہوجائے توکافی ہے۔
گزشتہ انتخابات میں علی وزیرجنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کی نشست پرکامیاب ہوگئے تھے لیکن نتائج پینڈنگ اور ری کاؤنٹنگ کرکے مسلم لیگ ن کے امیدوارکو جتوایا گیا۔ اسی طرح بابا جان جنھوں نے ہنزہ کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جلوس کی قیادت کی تھی انھیں گرفتارکرکے قید کردیا گیا تھا۔ ایک بار مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست دی تھی مگر انھیں ہروایا گیا۔ دوسری بار وہ قید میں رہتے ہوئے انتخابات لڑرہے تھے اور مسلم لیگ ن کو شکست دینے جا رہے تھے کہ عدالت نے ان کو انتخا بی عمل سے روک دیا۔ اس لیے کہ ان پر مقدمہ ہے اور قید میں ہیں۔ یہ کو ئی پہلا واقعہ نہیں ۔
1951ء میں مشرقی پا کستان سے 80 فیصد نشستیں ''جگتو فرونٹ '' نے جیتی تھیں اور''جگتو فرونٹ'' کے 80 فیصد امیدواروں کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا۔ مسلم لیگ کو صرف 19نشستیں ملی تھیں۔ اس خوف سے 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لاہور سے قومی اسمبلی کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مزدور رہنما مرزا ابراہیم کو سرکاری ریڈیوکے اعلان کے مطابق کامیاب قرار دیا گیا، بعد ازاں شکست کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح سے اقلیتوں کی نشست پرکامریڈ سو بھوگیان چندانی قومی اسمبلی کی نشست جیت گئے تھے، انھیں ری کاؤنٹنگ کرکے ہروایا گیا۔
بہرحال موجودہ انتخابات میں بائیں بازوکی سبھی جماعتیں اور آزاد امیدواروں نے بے روزگاری، ناخواندگی، بے گھری کے خاتمے، تعلیم اور صحت کا بجٹ دس دس فیصدکرنے ، مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 40000 روپے کرنے، آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے، دفاعی اخراجات کم کرنے ، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے اور مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ اور مطالبہ کیا ہے ۔دوسری طرف جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔اقبال احسن کوگولی ماری گئی، ہارون سمیت22 ٓ افراد کا قتل ، قمر اسلام کوگرفتارکیا جانا اور دوسری جانب انتخابی مہم کے لیے خادم حسین رضوی کوکھلی چھوٹ، یعنی تحریک لبیک کو پیسے بانٹے جا رہے ہیں اور پی ٹی ایم کو غدارکہا جا رہا ہے ۔
اسحاق ڈار ،حسن، حسین، خا قان عباسی اور ثنا اللہ کوہراساں کیا جا رہا ہے تو دوسری جا نب 444 افراد کا قا تل راؤ انوارکو ضمانت دی جا رہی ہے،اب ایک اور نیا سلسلہ شروع کیا گیاہے، پی ٹی آئی یا اسٹیبلشمنٹ کے امیدوارکو جہاں جہاں شکست کا سامنا ہے، وہاں مخالف امیدوارکو دہشتگردوں کے ذریعے مارا جا رہا ہے۔ مشال خان کے قاتلوں کو رہا کیا جا رہا ہے ۔ سرمایہ داری میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔