جناب کا شکریہ
انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب کے وعدے بھی ایفا ہونے والے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں کے دوران ہمارے ہاں کئی منتخب حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ ووٹوں کی طاقت اور قوت سے کئی حکمران اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہُوئے، اپنا اپنا وقت گزارا ، مفادات سمیٹے اور چلتے بنے۔ اگر یہ دیکھا اور پوچھا جائے کہ ہمارے اِن منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں نے اجتماعی قومی، سماجی اور عوامی مفادات میں کیا کیا یادگار کارنامے انجام دیے تو اِس کا جواب کوئی اطمینان بخش نہیں ہے۔
کاسمیٹک ڈویلپمنٹ تو یقینا ہُوئی ہے لیکن عوام کو درپیش بیشتر مسائل اور مصائب کا حل کم کم سامنے آ سکا ہے۔ یوں جو گہرا خلا پیدا ہُوا ہے، اِس نے بہت سے عوامی شکووں اور شکائتوں کو جنم دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عوامی مسائل کو ایڈریس کرنے اور اُن کا حل نکالنے کا اوّلین حق عوام کے منتخب نمایندوں ہی کا ہے لیکن جب ہمارے یہ منتخب عوامی نمایندے عوام کے مسائل بخوبی اور فوری حل نہ کر سکیں تو پھر کسی دوسری قوت کو دردمندی میں آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ مسئلہ اور مصیبت یہ ہے کہ جب کوئی ایسی قوت ، طاقت یا شخصیت اِس جانب قدم آگے بڑھاتی ہے تو منتخب نمایندوں کو شکوے شکائتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کہا جانے لگتا ہے کہ اُن کے حقوق ''غصب'' کیے جارہے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار صاحب جس دردمندی، دردِ دل اور کمٹمنٹ کے ساتھ مسلسل عوامی مسائل حل کرتے یا عوامی مسائل کو ایڈریس کرتے نظر آرہے ہیں، کئی لوگوں کو اُن سے شکائتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ عوام، ملک اور قوم کے مستقل اور بہترین مفاد میں وہ جو اقدامات کررہے ہیں، بعض دل جلے اِن اقدامات کو ''جوڈیشل ایکٹوازم'' کا نام دینے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن بیشتر عوام اِن دل جلوں کے طنزو تعریض کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ مجبور اور مظلوم عوام تو اپنے مسائل کا فوری ، سستا، مستقل اور دیرپا حل چاہتے ہیں۔ انھیں اِس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مسائل حل کرنے والا ووٹوں کی طاقت سے ملنے والی سرکاری طاقت سے اُن کی دستگیری کررہا ہے یا عدالتی طاقت سے۔وہ تو اپنے دستگیر سے محبت کرتے ہیں۔
اگر چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار صاحب پٹرول کی قیمتوں میں کمر شکن اضافے کا فوری نوٹس لے کر تقریباً پانچ روپے فی لِٹر قیمت کم کروا دیتے ہیں تو عوام چیف جج صاحب کے حق میں نعرے کیوں نہ بلند کریں؟ چیف جسٹس آف پاکستان کو اگرچہ اپنے حق میں نعرے بلند کرنا پسند نہیں ہے لیکن عوام اُن کی بجا طور پر تحسین تو کر سکتے ہیں۔ نگران حکومت نے پٹرول کی مصنوعات میں ایسا بے تحاشہ اضافہ کردیا تھا کہ پچھلی حکومتوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
حیرانی کی بات ہے کہ نگران وزیر اعظم، ناصر الملک صاحب، خود بھی چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں لیکن پٹرول کی کمرتوڑ قیمتوں میں اضافہ اُنہی کی ناک کے عین نیچے کیا گیا۔ میاں ثاقب نثار صاحب نے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کروا کر عوام پر مہربانی ہی تو کی ہے۔ انھوں نے 37لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے ''پٹرول افسر'' کی جس طرح گوشمالی کی ہے، یہ سُن کر عوام کے سینے میں ٹھنڈ پڑی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری سابقہ منتخب حکومتیں اور حکمران ملک بھر میں پانی کی شدید کمی کا بروقت احساس کرتے ہُوئے مناسب اور موزوں مقامات پر ڈیمز تعمیر کرتے ۔ ایسا مگر بدقسمتی سے نہ ہو سکا ۔ کئی برس ضایع کر دیے گئے اور اب ہم پانی کے کئی معاملات میں بھارت کے دستِ نگر بن کررہ گئے ہیں۔ بھارتی بلیک میلنگ بھی روزافزوں ہے۔ ایسے میں جناب ثاقب نثار صاحب ڈیموں کی فوری تعمیر کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اِس جانب مائل اور قائل کر رہے ہیں تو کیا غلط کر رہے ہیں؟ اگر ہمارے مقتدر سیاستدان اور حکمران ملک وقوم کے خیر خواہ ہوتے تو کالا باغ ڈیم بھی اب تک بن چکا ہوتا۔
اب جناب ثاقب نثار صاحب دو ڈیموں(دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم) کی تعمیر کروا کر رہیں گے۔ انشاء اللہ۔ پوری قوم کو اِس عظیم کام میں اُن کا ساتھ دینا چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اِس کارِ خیر میں سب سے پہلے اپنی ذاتی جیب سے دس لاکھ روپے ڈالے ہیں۔ ہماری تینوں مسلّح افواج کے جوانوں اور افسروں نے بھی اپنی دو دو اور ایک ایک دن کی تنخواہیں ڈیموں کی مَد میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ، میجر جنرل آصف غفور ، نے اِس ضمن میں ایک ٹویٹ بھی جاری کی ہے۔سینیٹ کے چیئرمین ، صادق سنجرانی، نے پندرہ لاکھ اور بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ نے ایک ماہ کی تنخواہ ڈیموں کے فنڈز میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ کپتان خان نے اِس مَد میں چندہ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
موصوف نے کہا : '' مَیں چندہ لیتا ہُوں، دیتا نہیں۔'' پاکستان کے وہ222 دولتمند افراد جو گذشتہ برسوں کے دوران قومی خزانے سے اربوں روپے کے قرضے لے کر حیلوں بہانوں سے معاف کروا کر ہڑپ کر چکے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان چاہتے ہیں کہ یہ بھاری رقوم واپس لی جائیں گی اور اِنہیں ڈیموں کی تعمیر میں صَرف کیا جائے گا۔ ساری قوم اُن کے اِس شاندار عزم، نیّت اور اعلان سے ہم آہنگ ہے۔ جو افراد، گروہ اور جماعتیں اِس معاملے میں عدم اتفاق کررہی ہیں، قوم کا اُن سے کوئی سروکار اور واسطہ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈیموں کی فوری تعمیر کے حوالے سے جو مستعدی جناب میاں ثاقب نثار دکھا رہے ہیں، یہ مستعدی اور تندہی ہمارے سیاستکاروں اور منتخب نمایندوں کو دکھانی چاہیے تھی لیکن افسوس یہ اُن کا نصیب نہیں بن سکی ۔ نئی منتخب حکومت شائد کوئی معجزہ دکھا سکے۔
دعا ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ ڈیموں کے حوالے سے نئی مہم کا انجام کہیں(خدانخواستہ) نواز شریف کی شروع کردہ '' قرض اتارو، ملک سنوارو'' ایسا نہ ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز سربراہ نے9جولائی2018ء کو اسلام آباد کے ''گن اینڈ کنٹری کلب'' سے تقریباً چھ مربعے زمین (145ایکڑ)واپس لے کر اصل مالکان(پاکستان اسپورٹس بورڈ)کے حوالے کرکے ایک تاریخی اقدام کیا ہے۔ اِس قیمتی زمین پر گذشتہ 18برسوں سے ناجائز قبضہ چلا آرہا تھا۔ یہاں جو سرگرمیاں جاری تھیں، اِن پر بھی چیف جسٹس صاحب بجا طور پر ناراض ہُوئے ہیں۔ اِس فیصلے کی جُزئیات دیکھی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اقدام کسقدر مشکل تھا لیکن جناب میاں ثاقب نثار صاحب فیصلہ کرتے وقت کسی مشکل اور دقّت کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ فیصلہ عوام کے مفادات میں کیا گیا ہے؛ چنانچہ ہم سب کو فیصلہ کرنے والے صاحبان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
وطنِ عزیز کے چاروں صوبوںکی پولیس کو یوں تو عوامی خدمت میں جُتا ہونا چاہیے لیکن یہ دیکھ کر عوام کا دل کُڑھتا تھا کہ پولیس کی زیادہ نفری تو اشرافیہ کے گھروں، اُن کی آل اولاد اور اُن کی جائیدادوں کے تحفظ پر مامور ہے۔ یہ دولتمند اور طاقتور خاندان اور گروہ اپنے اخراجات پر پرائیویٹ سیکیورٹی کا بھی بندوبست کر سکتے تھے لیکن سارا مالی بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا جاتا رہا۔کئی سڑکوں اور گلیوں پر بھی برسہا برس سے طاقتوروں نے سیکیورٹی کے نام پر مگر در حقیقت اپنے ذاتی مفادات کے لیے قبضہ کررکھا تھا۔ کمزور عوام اِن کے خلاف بول سکتے تھے نہ کوئی قدم اُٹھا سکتے تھے۔
یہ عوامی احساس چیف جسٹس آف پاکستان تک بھی پہنچا؛ چنانچہ انھوں نے اشرافیہ پر مامور پولیس اہلکاروں کو واپس بلانے کے احکامات جاری کر دیے۔ اِس فیصلے کے تحت اب تک 13ہزار پولیس اہلکار واپس اپنے اصلی فرائض پر آ چکے ہیں۔ یقیناً اِس اقدام سے عوام کا ہی فائدہ ہُوا ہے۔ ملک بھر میں کئی نجی میڈیکل کالجوں کی ہوشربا فیسوں کے خلاف بھی چیف جسٹس صاحب کے اُٹھائے گئے قدم سے سیکڑوں طلبا اور طالبات کو فائدہ پہنچا ہے۔ اِس مہربان فیصلے نے کیا اثرات مرتّب کیے ہیں، یہ تو اُن خاندانوں سے پوچھئے جنہیں لاکھوں میں پیسے واپس ملے ہیں۔ گویا ڈُوبی رقمیں تَر گئی ہیں۔
چیف صاحب نے سرکاری اسپتالوں کے جو متواتر دَورے کیے ہیں، اِن سے بھی مریضوں اور اُن کے لواحقین کو ریلیف ملا ہے۔ خواہ وقتی طور پر ہی سہی، لیکن ملا تو ہے۔عام انتخابات کا غلغلہ بلند ہُوا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ انتخابات ہر صورت منعقد ہوں گے اور یہ انتخابات منصفانہ اورشفاف بھی ہوں گے۔ ایسے لوگوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں تھی جنہوں نے انتخابات کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی دانستہ کوششیں کی ہیں۔ الحمد للہ اِن سب کو منہ کی کھانا پڑی ہے ۔ انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب کے وعدے بھی ایفا ہونے والے ہیں۔
کاسمیٹک ڈویلپمنٹ تو یقینا ہُوئی ہے لیکن عوام کو درپیش بیشتر مسائل اور مصائب کا حل کم کم سامنے آ سکا ہے۔ یوں جو گہرا خلا پیدا ہُوا ہے، اِس نے بہت سے عوامی شکووں اور شکائتوں کو جنم دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عوامی مسائل کو ایڈریس کرنے اور اُن کا حل نکالنے کا اوّلین حق عوام کے منتخب نمایندوں ہی کا ہے لیکن جب ہمارے یہ منتخب عوامی نمایندے عوام کے مسائل بخوبی اور فوری حل نہ کر سکیں تو پھر کسی دوسری قوت کو دردمندی میں آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ مسئلہ اور مصیبت یہ ہے کہ جب کوئی ایسی قوت ، طاقت یا شخصیت اِس جانب قدم آگے بڑھاتی ہے تو منتخب نمایندوں کو شکوے شکائتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کہا جانے لگتا ہے کہ اُن کے حقوق ''غصب'' کیے جارہے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار صاحب جس دردمندی، دردِ دل اور کمٹمنٹ کے ساتھ مسلسل عوامی مسائل حل کرتے یا عوامی مسائل کو ایڈریس کرتے نظر آرہے ہیں، کئی لوگوں کو اُن سے شکائتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ عوام، ملک اور قوم کے مستقل اور بہترین مفاد میں وہ جو اقدامات کررہے ہیں، بعض دل جلے اِن اقدامات کو ''جوڈیشل ایکٹوازم'' کا نام دینے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن بیشتر عوام اِن دل جلوں کے طنزو تعریض کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ مجبور اور مظلوم عوام تو اپنے مسائل کا فوری ، سستا، مستقل اور دیرپا حل چاہتے ہیں۔ انھیں اِس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مسائل حل کرنے والا ووٹوں کی طاقت سے ملنے والی سرکاری طاقت سے اُن کی دستگیری کررہا ہے یا عدالتی طاقت سے۔وہ تو اپنے دستگیر سے محبت کرتے ہیں۔
اگر چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار صاحب پٹرول کی قیمتوں میں کمر شکن اضافے کا فوری نوٹس لے کر تقریباً پانچ روپے فی لِٹر قیمت کم کروا دیتے ہیں تو عوام چیف جج صاحب کے حق میں نعرے کیوں نہ بلند کریں؟ چیف جسٹس آف پاکستان کو اگرچہ اپنے حق میں نعرے بلند کرنا پسند نہیں ہے لیکن عوام اُن کی بجا طور پر تحسین تو کر سکتے ہیں۔ نگران حکومت نے پٹرول کی مصنوعات میں ایسا بے تحاشہ اضافہ کردیا تھا کہ پچھلی حکومتوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
حیرانی کی بات ہے کہ نگران وزیر اعظم، ناصر الملک صاحب، خود بھی چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں لیکن پٹرول کی کمرتوڑ قیمتوں میں اضافہ اُنہی کی ناک کے عین نیچے کیا گیا۔ میاں ثاقب نثار صاحب نے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کروا کر عوام پر مہربانی ہی تو کی ہے۔ انھوں نے 37لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے ''پٹرول افسر'' کی جس طرح گوشمالی کی ہے، یہ سُن کر عوام کے سینے میں ٹھنڈ پڑی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری سابقہ منتخب حکومتیں اور حکمران ملک بھر میں پانی کی شدید کمی کا بروقت احساس کرتے ہُوئے مناسب اور موزوں مقامات پر ڈیمز تعمیر کرتے ۔ ایسا مگر بدقسمتی سے نہ ہو سکا ۔ کئی برس ضایع کر دیے گئے اور اب ہم پانی کے کئی معاملات میں بھارت کے دستِ نگر بن کررہ گئے ہیں۔ بھارتی بلیک میلنگ بھی روزافزوں ہے۔ ایسے میں جناب ثاقب نثار صاحب ڈیموں کی فوری تعمیر کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اِس جانب مائل اور قائل کر رہے ہیں تو کیا غلط کر رہے ہیں؟ اگر ہمارے مقتدر سیاستدان اور حکمران ملک وقوم کے خیر خواہ ہوتے تو کالا باغ ڈیم بھی اب تک بن چکا ہوتا۔
اب جناب ثاقب نثار صاحب دو ڈیموں(دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم) کی تعمیر کروا کر رہیں گے۔ انشاء اللہ۔ پوری قوم کو اِس عظیم کام میں اُن کا ساتھ دینا چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اِس کارِ خیر میں سب سے پہلے اپنی ذاتی جیب سے دس لاکھ روپے ڈالے ہیں۔ ہماری تینوں مسلّح افواج کے جوانوں اور افسروں نے بھی اپنی دو دو اور ایک ایک دن کی تنخواہیں ڈیموں کی مَد میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ، میجر جنرل آصف غفور ، نے اِس ضمن میں ایک ٹویٹ بھی جاری کی ہے۔سینیٹ کے چیئرمین ، صادق سنجرانی، نے پندرہ لاکھ اور بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ نے ایک ماہ کی تنخواہ ڈیموں کے فنڈز میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ کپتان خان نے اِس مَد میں چندہ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
موصوف نے کہا : '' مَیں چندہ لیتا ہُوں، دیتا نہیں۔'' پاکستان کے وہ222 دولتمند افراد جو گذشتہ برسوں کے دوران قومی خزانے سے اربوں روپے کے قرضے لے کر حیلوں بہانوں سے معاف کروا کر ہڑپ کر چکے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان چاہتے ہیں کہ یہ بھاری رقوم واپس لی جائیں گی اور اِنہیں ڈیموں کی تعمیر میں صَرف کیا جائے گا۔ ساری قوم اُن کے اِس شاندار عزم، نیّت اور اعلان سے ہم آہنگ ہے۔ جو افراد، گروہ اور جماعتیں اِس معاملے میں عدم اتفاق کررہی ہیں، قوم کا اُن سے کوئی سروکار اور واسطہ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈیموں کی فوری تعمیر کے حوالے سے جو مستعدی جناب میاں ثاقب نثار دکھا رہے ہیں، یہ مستعدی اور تندہی ہمارے سیاستکاروں اور منتخب نمایندوں کو دکھانی چاہیے تھی لیکن افسوس یہ اُن کا نصیب نہیں بن سکی ۔ نئی منتخب حکومت شائد کوئی معجزہ دکھا سکے۔
دعا ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ ڈیموں کے حوالے سے نئی مہم کا انجام کہیں(خدانخواستہ) نواز شریف کی شروع کردہ '' قرض اتارو، ملک سنوارو'' ایسا نہ ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز سربراہ نے9جولائی2018ء کو اسلام آباد کے ''گن اینڈ کنٹری کلب'' سے تقریباً چھ مربعے زمین (145ایکڑ)واپس لے کر اصل مالکان(پاکستان اسپورٹس بورڈ)کے حوالے کرکے ایک تاریخی اقدام کیا ہے۔ اِس قیمتی زمین پر گذشتہ 18برسوں سے ناجائز قبضہ چلا آرہا تھا۔ یہاں جو سرگرمیاں جاری تھیں، اِن پر بھی چیف جسٹس صاحب بجا طور پر ناراض ہُوئے ہیں۔ اِس فیصلے کی جُزئیات دیکھی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اقدام کسقدر مشکل تھا لیکن جناب میاں ثاقب نثار صاحب فیصلہ کرتے وقت کسی مشکل اور دقّت کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ فیصلہ عوام کے مفادات میں کیا گیا ہے؛ چنانچہ ہم سب کو فیصلہ کرنے والے صاحبان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
وطنِ عزیز کے چاروں صوبوںکی پولیس کو یوں تو عوامی خدمت میں جُتا ہونا چاہیے لیکن یہ دیکھ کر عوام کا دل کُڑھتا تھا کہ پولیس کی زیادہ نفری تو اشرافیہ کے گھروں، اُن کی آل اولاد اور اُن کی جائیدادوں کے تحفظ پر مامور ہے۔ یہ دولتمند اور طاقتور خاندان اور گروہ اپنے اخراجات پر پرائیویٹ سیکیورٹی کا بھی بندوبست کر سکتے تھے لیکن سارا مالی بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا جاتا رہا۔کئی سڑکوں اور گلیوں پر بھی برسہا برس سے طاقتوروں نے سیکیورٹی کے نام پر مگر در حقیقت اپنے ذاتی مفادات کے لیے قبضہ کررکھا تھا۔ کمزور عوام اِن کے خلاف بول سکتے تھے نہ کوئی قدم اُٹھا سکتے تھے۔
یہ عوامی احساس چیف جسٹس آف پاکستان تک بھی پہنچا؛ چنانچہ انھوں نے اشرافیہ پر مامور پولیس اہلکاروں کو واپس بلانے کے احکامات جاری کر دیے۔ اِس فیصلے کے تحت اب تک 13ہزار پولیس اہلکار واپس اپنے اصلی فرائض پر آ چکے ہیں۔ یقیناً اِس اقدام سے عوام کا ہی فائدہ ہُوا ہے۔ ملک بھر میں کئی نجی میڈیکل کالجوں کی ہوشربا فیسوں کے خلاف بھی چیف جسٹس صاحب کے اُٹھائے گئے قدم سے سیکڑوں طلبا اور طالبات کو فائدہ پہنچا ہے۔ اِس مہربان فیصلے نے کیا اثرات مرتّب کیے ہیں، یہ تو اُن خاندانوں سے پوچھئے جنہیں لاکھوں میں پیسے واپس ملے ہیں۔ گویا ڈُوبی رقمیں تَر گئی ہیں۔
چیف صاحب نے سرکاری اسپتالوں کے جو متواتر دَورے کیے ہیں، اِن سے بھی مریضوں اور اُن کے لواحقین کو ریلیف ملا ہے۔ خواہ وقتی طور پر ہی سہی، لیکن ملا تو ہے۔عام انتخابات کا غلغلہ بلند ہُوا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ انتخابات ہر صورت منعقد ہوں گے اور یہ انتخابات منصفانہ اورشفاف بھی ہوں گے۔ ایسے لوگوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں تھی جنہوں نے انتخابات کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی دانستہ کوششیں کی ہیں۔ الحمد للہ اِن سب کو منہ کی کھانا پڑی ہے ۔ انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب کے وعدے بھی ایفا ہونے والے ہیں۔