انتخابی مہم اور مزدور کسان
الیکشن کے نعرے ، عموماً عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان میں گہرائی بھی ہوتی ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی نفسیات کے بھی ماہر تھے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بس عوام کو خوش کرنے کا ایک نعرہ تھا ہمارے ملک میں بلاشبہ بہت غربت ہے لیکن ہر شخص خواہ محنت سے ہی سہی روٹی کھا لیتا تھا ۔ رہا کپڑے کا سوال سو ہر شخص بھلا برا کپڑا بھی پہنتا تھا، مکان البتہ غریب طبقات کی دسترس سے باہر تھا لیکن گھاس پھوس کا جھونپڑا ہو یا کوئی کچا مکان ہر شخص کی رہائش کے لیے ناگزیر تھا لیکن جب روٹی ،کپڑا ، مکان ایک نعرہ بن گیا تو فطری طور پر یہ سوال ذہن میں آیا کہ کیا پاکستان کے عوام روٹی ،کپڑے اور مکان سے محروم ہیں؟
الیکشن کے نعرے ، عموماً عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان میں گہرائی بھی ہوتی ہے اور معنویت بھی جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مزدور اور کسان اگرچہ ایک عام سے نام ہیں جو پسے ہوئے طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس حقیقت پر بہت کم غورکیا جاتا ہے کہ ہر ملک کی معیشت میں یہ دو نام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جوانی میں چونکہ ہمارے سر میں بھی انقلاب کا سودا سمایا ہوا تھا اور اب بھی سمایا ہوا ہے، لہٰذا انقلاب کے ان دو پلروں مزدور اور کسان سے ہمارا گہرا واسطہ رہا ہے ہم نے معیشت کے ان دو پلروں خاص طور پر مزدور کی زندگی کا بہت قریب سے اور گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اس لیے طبقاتی استحصال سے ہم اچھی طرح واقف ہیں اور استحصال کے طریقے کیا کیا ہوتے ہیں ان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
ہمارے سیاستدان آج کل سیاسی تاریخ میں پہلی بار مزدوروں اورکسانوں کی باتیں کر رہے ہیں ،اس کی وجہ بھی یہ نظر آتی ہے کہ ہم جیسے سر پھرے قلم کاروں نے اپنے کالموں میں مرکزی موضوع مزدوروں کسانوں کو بنا کر ان کے مسائل کو بھرپور طریقے سے ہائی لائٹ کیا۔ سو ہمارے سیاستدانوں نے اپنی تقاریر ہی میں مزدوروں کسانوں کا ذکر شروع کیا بلکہ بعض جماعتوں نے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو اپنے منشور میں بھی شامل کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہم نے اپنے کالموں میں اس حقیقت کا انکشاف بھی بار بارکیا کہ پاکستان میں مزدوروں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہے اورکسان دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں۔
ہمارے اس انکشاف سے سیاستدانوں کے منہ میں پانی آنا فطری امر ہے کہ مزدوروں کے چھ کروڑ ووٹ اورکسانوں کے دیہی آبادی کے 60 فیصد ووٹ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد کو الیکشن کے موسم میں دیکھ کر ہمارے محترم سیاستدانوں کے منہ میں پانی آنا ایک فطری بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل الیکشن کی وجہ اہل سیاست کی ہمدردیاں ووٹر سے بہت بڑھ گئی ہیں لیکن اب مزدور اورکسان بوتھ میں ووٹ ڈالنے کی محض مشین نہیں ہیں بلکہ وہ معاشرے اور معیشت میں اپنی حیثیت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ اگر ووٹ دیں گے تو ووٹ لینے والے کا گلا پکڑ کر وہ وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کریں گے جو انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تھے۔
مزدورکسان کا ووٹ تو صنعتکار اور جاگیردار لے جاتا ہے اور ووٹ اس نظام میں مزدورکسان کا مسئلہ بھی نہیں مزدور کا وقتی مسئلہ یہ ہے کہ مزدوروں نے بے پناہ قربانیاں دے کرکچھ قانونی حقوق حاصل کیے ہیں جن میں یونین سازی کا حق سودے کاری کا حق، حق ہڑتال سرفہرست ہیں ۔ ان حقوق کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی مزدور یونین کا نام لیتا ہے تو اسے گردن پکڑ کر ملز کے باہر نکال دیا جاتا ہے ہڑتال مزدور یوں نہیں کرسکتا کہ ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے مالکان کے غنڈے اور پولیس ہر وقت تیار ہوتے ہیں، سودے کاری کے حق کے لیے آزاد یونین ضروری ہے مالکوں کی پاکٹ یونینز نہ مزدوروں کے حقوق کے لیے ہڑتال کرسکتی ہیں نہ سودے کاری کرسکتی ہیں۔
مزدوروں کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھیکیداری نظام ہے، اس نظام میں مزدور کی حیثیت غلام داری نظام کے غلاموں سے بدتر ہوتی ہے۔ ان چند مسائل کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہمارے سیاستدان مزدوروں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مزدوروں سے لمبے چوڑے وعدے کر رہے ہیں جو وہ پورے کرسکتے ہیں نہ مزدوروں کو ان کے پورے ہونے کی امید کرنا چاہیے۔ یونین سازی کی آزادی سودے کاری کا حق، حق ہڑتال اور ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ یہ ایسے حقوق ہیں جو قانوناً ختم کیے گئے ہیں۔ کیا ہمارے سیاستدان مزدوروں کے یہ قانونی حقوق مزدوروں کو دلا دیں گے؟کیا مزدور کسان راج لانے والی پیپلز پارٹی مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دلا دے گی؟
ہماری دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہاری اورکسان ہیں قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہاری اورکسان کو غلام بناکر رکھا گیا ہے ۔ ان کی غلامی اور بے بسی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اکیسویں صدی کے روشن دور میں وڈیرے، ہاریوں کی خواتین کے ننگے جلوس نکالتے ہیں۔ ہاریوں اور کسانوں کے خاندانوں کو اغوا کرکے اپنی پرائیویٹ جیلوں میں برسوں تک بند کرتے ہیں اگر خوش قسمتی سے یہ خاندان عدالت تک پہنچ جاتے ہیں تو محترم عدالت ان مغویوں سے یہ انصاف کرتی ہے کہ انھیں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق مرحمت کیا جاتا ہے یہ ہے وڈیرہ شاہی کا کلچر۔ کیا کسانوں سے ووٹ مانگنے والے کسانوں ہاریوں کو ان مظالم سے نجات دلائیں گے؟
مزدور ، کسان، ہاری اور جسمانی محنت کرنے والے مزدور ہوتے ہیں، ایک ہاری وہ ہوتے ہیں جو ذہنی محنت کرتے ہیں ان ذہنی محنت کرنے والے دیہاڑی دار مزدوروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر حق اور انصاف کی بات کی جاتی ہے تو احترام کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے کہ ادارے کو اس کی اب ضرورت نہیں ان قلمی غلاموں کو جو دیہاڑی دی جاتی ہے وہ مزدوروں کی کم سے کم دیہاڑی سے بھی کم ہوتی ہے جس ملک میں قلم کاروں اہل علم اہل دانش کی حرمت اور ان کی معاشی حالت کا یہ حال ہو، کیا ہم اس ملک کو مہذب ملک کہہ سکتے ہیں؟
الیکشن کے نعرے ، عموماً عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان میں گہرائی بھی ہوتی ہے اور معنویت بھی جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مزدور اور کسان اگرچہ ایک عام سے نام ہیں جو پسے ہوئے طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس حقیقت پر بہت کم غورکیا جاتا ہے کہ ہر ملک کی معیشت میں یہ دو نام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جوانی میں چونکہ ہمارے سر میں بھی انقلاب کا سودا سمایا ہوا تھا اور اب بھی سمایا ہوا ہے، لہٰذا انقلاب کے ان دو پلروں مزدور اور کسان سے ہمارا گہرا واسطہ رہا ہے ہم نے معیشت کے ان دو پلروں خاص طور پر مزدور کی زندگی کا بہت قریب سے اور گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اس لیے طبقاتی استحصال سے ہم اچھی طرح واقف ہیں اور استحصال کے طریقے کیا کیا ہوتے ہیں ان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
ہمارے سیاستدان آج کل سیاسی تاریخ میں پہلی بار مزدوروں اورکسانوں کی باتیں کر رہے ہیں ،اس کی وجہ بھی یہ نظر آتی ہے کہ ہم جیسے سر پھرے قلم کاروں نے اپنے کالموں میں مرکزی موضوع مزدوروں کسانوں کو بنا کر ان کے مسائل کو بھرپور طریقے سے ہائی لائٹ کیا۔ سو ہمارے سیاستدانوں نے اپنی تقاریر ہی میں مزدوروں کسانوں کا ذکر شروع کیا بلکہ بعض جماعتوں نے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو اپنے منشور میں بھی شامل کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہم نے اپنے کالموں میں اس حقیقت کا انکشاف بھی بار بارکیا کہ پاکستان میں مزدوروں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہے اورکسان دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں۔
ہمارے اس انکشاف سے سیاستدانوں کے منہ میں پانی آنا فطری امر ہے کہ مزدوروں کے چھ کروڑ ووٹ اورکسانوں کے دیہی آبادی کے 60 فیصد ووٹ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد کو الیکشن کے موسم میں دیکھ کر ہمارے محترم سیاستدانوں کے منہ میں پانی آنا ایک فطری بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل الیکشن کی وجہ اہل سیاست کی ہمدردیاں ووٹر سے بہت بڑھ گئی ہیں لیکن اب مزدور اورکسان بوتھ میں ووٹ ڈالنے کی محض مشین نہیں ہیں بلکہ وہ معاشرے اور معیشت میں اپنی حیثیت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ اگر ووٹ دیں گے تو ووٹ لینے والے کا گلا پکڑ کر وہ وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کریں گے جو انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تھے۔
مزدورکسان کا ووٹ تو صنعتکار اور جاگیردار لے جاتا ہے اور ووٹ اس نظام میں مزدورکسان کا مسئلہ بھی نہیں مزدور کا وقتی مسئلہ یہ ہے کہ مزدوروں نے بے پناہ قربانیاں دے کرکچھ قانونی حقوق حاصل کیے ہیں جن میں یونین سازی کا حق سودے کاری کا حق، حق ہڑتال سرفہرست ہیں ۔ ان حقوق کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی مزدور یونین کا نام لیتا ہے تو اسے گردن پکڑ کر ملز کے باہر نکال دیا جاتا ہے ہڑتال مزدور یوں نہیں کرسکتا کہ ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے مالکان کے غنڈے اور پولیس ہر وقت تیار ہوتے ہیں، سودے کاری کے حق کے لیے آزاد یونین ضروری ہے مالکوں کی پاکٹ یونینز نہ مزدوروں کے حقوق کے لیے ہڑتال کرسکتی ہیں نہ سودے کاری کرسکتی ہیں۔
مزدوروں کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھیکیداری نظام ہے، اس نظام میں مزدور کی حیثیت غلام داری نظام کے غلاموں سے بدتر ہوتی ہے۔ ان چند مسائل کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہمارے سیاستدان مزدوروں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مزدوروں سے لمبے چوڑے وعدے کر رہے ہیں جو وہ پورے کرسکتے ہیں نہ مزدوروں کو ان کے پورے ہونے کی امید کرنا چاہیے۔ یونین سازی کی آزادی سودے کاری کا حق، حق ہڑتال اور ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ یہ ایسے حقوق ہیں جو قانوناً ختم کیے گئے ہیں۔ کیا ہمارے سیاستدان مزدوروں کے یہ قانونی حقوق مزدوروں کو دلا دیں گے؟کیا مزدور کسان راج لانے والی پیپلز پارٹی مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دلا دے گی؟
ہماری دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہاری اورکسان ہیں قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہاری اورکسان کو غلام بناکر رکھا گیا ہے ۔ ان کی غلامی اور بے بسی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اکیسویں صدی کے روشن دور میں وڈیرے، ہاریوں کی خواتین کے ننگے جلوس نکالتے ہیں۔ ہاریوں اور کسانوں کے خاندانوں کو اغوا کرکے اپنی پرائیویٹ جیلوں میں برسوں تک بند کرتے ہیں اگر خوش قسمتی سے یہ خاندان عدالت تک پہنچ جاتے ہیں تو محترم عدالت ان مغویوں سے یہ انصاف کرتی ہے کہ انھیں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق مرحمت کیا جاتا ہے یہ ہے وڈیرہ شاہی کا کلچر۔ کیا کسانوں سے ووٹ مانگنے والے کسانوں ہاریوں کو ان مظالم سے نجات دلائیں گے؟
مزدور ، کسان، ہاری اور جسمانی محنت کرنے والے مزدور ہوتے ہیں، ایک ہاری وہ ہوتے ہیں جو ذہنی محنت کرتے ہیں ان ذہنی محنت کرنے والے دیہاڑی دار مزدوروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر حق اور انصاف کی بات کی جاتی ہے تو احترام کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے کہ ادارے کو اس کی اب ضرورت نہیں ان قلمی غلاموں کو جو دیہاڑی دی جاتی ہے وہ مزدوروں کی کم سے کم دیہاڑی سے بھی کم ہوتی ہے جس ملک میں قلم کاروں اہل علم اہل دانش کی حرمت اور ان کی معاشی حالت کا یہ حال ہو، کیا ہم اس ملک کو مہذب ملک کہہ سکتے ہیں؟