جھوٹا انقلاب
جلد ہی اس قسم کا جھوٹ بولنے والے بے نقاب ہوں گے۔ یہ جھوٹ کا انقلاب تھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کوکر پشن کے الزام میں سزا نہیں ہوئی لیکن یہ کھلا جھوٹ مسلسل بولا جا رہا ہے۔ اثاثے چھپانا کرپشن ہے اور اسی الزام میں انہیں سزا ہوئی۔ پاکستانی سیاست میں اختیارات کے حصول کے لیے ہر داؤ استعمال کیا جا رہا ہے، جھوٹ بڑھ چڑھ کر بولا جا رہا ہے اور یہ کام محض نعرے کے طور پر ہے، حقیقت بالکل برعکس ہے۔
مسلم لیگی قیادت کو اب نواز شریف سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ سمجھ رہی ہے کہ نواز شریف کا جیل میں رہنا ہی ان کے لیے فائدے مند ہے۔ لہذا کم از کم وہ انتخابات تک جیل میں ہوں گے تو انہیں اس کا فائدہ ہو گا، لہذا وہ خوش ہیں کہ نوازشریف جیل میں ہیں۔ سیاست کو بہت گندا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ اس میں کبھی لاشیں درکار ہوتی ہیں اور کبھی اپنی ہی قیادت کو اذیت میں مبتلا کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج کے حالات میں نظر آ رہا ہے نواز شریف کو یہ ضرور یقین دلایا گیا ہو گا کہ جب وہ پاکستان آئیں گے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہونگے۔
دوسری جانب مسلم لیگی قیادت نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر تمام معاملات طے کر لیے ہیں اور وہ ایئر پورٹ سے بہت دور رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف سے مسلم لیگی قیادت پر لعن طعن ہے کہ ہر صورت میں تمام رکاوٹیں عبورکر کے ایئر پورٹ پہنچنے کے دعو ے کیا ہوئے۔ مسلم لیگی قیادت اس بات اس سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز جیل سے باہر آ گئے تو مسلم لیگ میں شہباز شریف کی حیثیت بہت کم ہو گی اور اس مرتبہ مریم نواز صوبہ پنجاب بھی شہبازشریف کے حوالے نہیں کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے تیئں یہ سمجھ رہی ہے کہ انھوں نے نواز شریف کو پاکستان بلا کر اپنی سیاست کو آگے بڑھایا ہے تو شاید جلد ہی انہیں اس غلطی کا احساس ہو گا۔ اول تو انتخابات پر اس کا اثر نہیں ہو گا۔ دوسرا جلد ہی نواز شریف اور مریم نواز ان لوگوں کو پیچھے کرنے کی کوشش کریں گے جو آج کل شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ ہیں، جب کہ بعض مسلم لیگی اس کھیل میں شریک ہونے سے انکار کر دیں گے اور خاموشی یا حالات سے سمجھوتے میں ہی بہتری تصور کریں گے۔
جو حالات سامنے ہیں اس میں اس بات کا امکان کم ہو گاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی سزا ختم ہو ۔ اس کی واحد صورت یہ ہو گی کہ وہ اقرار جرم کر کے معافی نامہ داخل کریں۔ وزیر اعظم ان کامعافی نامہ صدر مملکت کو دیں اور وہ انہیں معاف کر دیں ۔ ضمانت پر رہائی کا امکان کم ہے۔ مقدمہ طویل عرصے تک چل سکتا ہے۔ یہ صورتحال نواز شریف اور مریم نواز کے لیے قابل قبول نہ ہو گی۔ نواز شریف اور مریم نواز اس کے لیے ان لوگوں پر برہم ہوں گے جو انہیں بہلا پھسلا کر یہاں لے آئے ہیں۔ اگر نواز شریف کے سامنے ایسی تصویر کھینچی گئی ہے کہ ان کی آمد پر پورا پاکستان باہر ہو گا اور ملک میں ترکی کی طرز پر انقلاب آئے گا تو یہ ایک کھلا جھوٹ تھا۔ جلد ہی اس قسم کا جھوٹ بولنے والے بے نقاب ہوں گے۔ یہ جھوٹ کا انقلاب تھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
دراصل مسلم لیگ کی قیادت نے شروع ہی سے آ بیل مجھے مار کی پالیسی اپنائی تھی۔ انہیں یہ ضرور سوچنا تھا کہ پاناما پیپرز کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ یہ کوئی پاکستانی میڈیا کا انکشاف نہیں تھا۔ یہ دنیا کے امیر لوگوں کی ناجائز دولت اور اثاثے چھپانے کے نام پر تھا۔ اس میں مریم نواز کے نام سے 1993ء میں حاصل کیے گئے قیمتی فلیٹس کا ذکر تھا اور اس وقت مریم نواز، نوازشریف کی زیر کفالت تھی۔ ان تمام باتوں کے منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف کے ارد گرد لوگ ا نہیں غلط مشورے دیتے رہے اور انہیں اکسایا گیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کو درمیان میں لے آئیں۔
پہلے نوازشریف سے یہ اقرار کر وایا گیا کہ وہ تسلیم کر لیں کہ لندن کے فلیٹس ان کے ہیں۔ نتیجہ یہ ہواکہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ گیا۔ وہاں بھی معاملہ سلجھ سکتا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر بھی جعلی دستاویزات کا سہارا لیا گیا۔ بعض لوگوں نے مریم نوازکو بھی اس میں شامل کرا دیا اور ایک جعلی دستاویز ان کے ذریعے شامل کرا دی گئی اس طرح یہ معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا رہا اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور لندن کے اثاثوں کا معاملہ نیب عدالت کے حوالے کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی اس قسم کے مقدمات نیب میں ہی چلتے ہیں۔
اس مقدمے میں تحقیقاتی ٹیموں نے جو معلومات حاصل کیں وہ بھی نیب عدالت کے حوالے کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سزا ہو گئی۔ دنیا بھر میں تمام میڈیا نواز شریف کے لیے اچھے تاثرات نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناجائز دولت کی کہیں کوئی پذیرائی نہیں ہے۔
بھارت کے میڈیاکی جانب سے نواز شریف کی حمایت کی وجہ پاکستان میں انتشار کو فروغ دینا ہے، اگر اب بھی مسلم لیگی قیادت صرف اپنے مفادات کا حصول چاہے گی، تو اس کا مطلب یہ ہی ہو گاکہ وہ نواز شریف کو ایک طویل عرصے تک جیل میں رکھنا چاہتے ہیں تا کہ کسی طرح اس کارڈ کو استعمال کیا جائے، لیکن شاید یہ صورتحال بھی آبیل مجھے مارکی طرف ہی جا رہی ہے۔
مسلم لیگی قیادت کو اب نواز شریف سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ سمجھ رہی ہے کہ نواز شریف کا جیل میں رہنا ہی ان کے لیے فائدے مند ہے۔ لہذا کم از کم وہ انتخابات تک جیل میں ہوں گے تو انہیں اس کا فائدہ ہو گا، لہذا وہ خوش ہیں کہ نوازشریف جیل میں ہیں۔ سیاست کو بہت گندا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ اس میں کبھی لاشیں درکار ہوتی ہیں اور کبھی اپنی ہی قیادت کو اذیت میں مبتلا کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج کے حالات میں نظر آ رہا ہے نواز شریف کو یہ ضرور یقین دلایا گیا ہو گا کہ جب وہ پاکستان آئیں گے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہونگے۔
دوسری جانب مسلم لیگی قیادت نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر تمام معاملات طے کر لیے ہیں اور وہ ایئر پورٹ سے بہت دور رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف سے مسلم لیگی قیادت پر لعن طعن ہے کہ ہر صورت میں تمام رکاوٹیں عبورکر کے ایئر پورٹ پہنچنے کے دعو ے کیا ہوئے۔ مسلم لیگی قیادت اس بات اس سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز جیل سے باہر آ گئے تو مسلم لیگ میں شہباز شریف کی حیثیت بہت کم ہو گی اور اس مرتبہ مریم نواز صوبہ پنجاب بھی شہبازشریف کے حوالے نہیں کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے تیئں یہ سمجھ رہی ہے کہ انھوں نے نواز شریف کو پاکستان بلا کر اپنی سیاست کو آگے بڑھایا ہے تو شاید جلد ہی انہیں اس غلطی کا احساس ہو گا۔ اول تو انتخابات پر اس کا اثر نہیں ہو گا۔ دوسرا جلد ہی نواز شریف اور مریم نواز ان لوگوں کو پیچھے کرنے کی کوشش کریں گے جو آج کل شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ ہیں، جب کہ بعض مسلم لیگی اس کھیل میں شریک ہونے سے انکار کر دیں گے اور خاموشی یا حالات سے سمجھوتے میں ہی بہتری تصور کریں گے۔
جو حالات سامنے ہیں اس میں اس بات کا امکان کم ہو گاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی سزا ختم ہو ۔ اس کی واحد صورت یہ ہو گی کہ وہ اقرار جرم کر کے معافی نامہ داخل کریں۔ وزیر اعظم ان کامعافی نامہ صدر مملکت کو دیں اور وہ انہیں معاف کر دیں ۔ ضمانت پر رہائی کا امکان کم ہے۔ مقدمہ طویل عرصے تک چل سکتا ہے۔ یہ صورتحال نواز شریف اور مریم نواز کے لیے قابل قبول نہ ہو گی۔ نواز شریف اور مریم نواز اس کے لیے ان لوگوں پر برہم ہوں گے جو انہیں بہلا پھسلا کر یہاں لے آئے ہیں۔ اگر نواز شریف کے سامنے ایسی تصویر کھینچی گئی ہے کہ ان کی آمد پر پورا پاکستان باہر ہو گا اور ملک میں ترکی کی طرز پر انقلاب آئے گا تو یہ ایک کھلا جھوٹ تھا۔ جلد ہی اس قسم کا جھوٹ بولنے والے بے نقاب ہوں گے۔ یہ جھوٹ کا انقلاب تھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
دراصل مسلم لیگ کی قیادت نے شروع ہی سے آ بیل مجھے مار کی پالیسی اپنائی تھی۔ انہیں یہ ضرور سوچنا تھا کہ پاناما پیپرز کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ یہ کوئی پاکستانی میڈیا کا انکشاف نہیں تھا۔ یہ دنیا کے امیر لوگوں کی ناجائز دولت اور اثاثے چھپانے کے نام پر تھا۔ اس میں مریم نواز کے نام سے 1993ء میں حاصل کیے گئے قیمتی فلیٹس کا ذکر تھا اور اس وقت مریم نواز، نوازشریف کی زیر کفالت تھی۔ ان تمام باتوں کے منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف کے ارد گرد لوگ ا نہیں غلط مشورے دیتے رہے اور انہیں اکسایا گیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کو درمیان میں لے آئیں۔
پہلے نوازشریف سے یہ اقرار کر وایا گیا کہ وہ تسلیم کر لیں کہ لندن کے فلیٹس ان کے ہیں۔ نتیجہ یہ ہواکہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ گیا۔ وہاں بھی معاملہ سلجھ سکتا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر بھی جعلی دستاویزات کا سہارا لیا گیا۔ بعض لوگوں نے مریم نوازکو بھی اس میں شامل کرا دیا اور ایک جعلی دستاویز ان کے ذریعے شامل کرا دی گئی اس طرح یہ معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا رہا اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور لندن کے اثاثوں کا معاملہ نیب عدالت کے حوالے کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی اس قسم کے مقدمات نیب میں ہی چلتے ہیں۔
اس مقدمے میں تحقیقاتی ٹیموں نے جو معلومات حاصل کیں وہ بھی نیب عدالت کے حوالے کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سزا ہو گئی۔ دنیا بھر میں تمام میڈیا نواز شریف کے لیے اچھے تاثرات نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناجائز دولت کی کہیں کوئی پذیرائی نہیں ہے۔
بھارت کے میڈیاکی جانب سے نواز شریف کی حمایت کی وجہ پاکستان میں انتشار کو فروغ دینا ہے، اگر اب بھی مسلم لیگی قیادت صرف اپنے مفادات کا حصول چاہے گی، تو اس کا مطلب یہ ہی ہو گاکہ وہ نواز شریف کو ایک طویل عرصے تک جیل میں رکھنا چاہتے ہیں تا کہ کسی طرح اس کارڈ کو استعمال کیا جائے، لیکن شاید یہ صورتحال بھی آبیل مجھے مارکی طرف ہی جا رہی ہے۔