نام ور جو ناکام رہے
پاکستان کی مشہور غیرسیاسی شخصیات جنھوں نے انتخابات میں حصہ لیا مگرکامیابی نہ حاصل کرسکیں
KARACHI:
پاکستانی سیاست کے بارے میں پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے، وہ بھی اسے ایک گندا کھیل سمجھتے تھے، ایک بار جماعت اسلامی کے بانی امیر سیدابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے:'' مولانا آپ بہت شریف اور علمی آدمی ہیں جبکہ سیاست بْہت گندا کھیل ہے۔
آپ اس میں آکر اپنے آپ کو گندا کرلیں گے اور اس میں سوائے گندا ہونے کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ، آپ اپنی زندگی اور وقت دونوں ضا ئع کر رہے ہیں، آپ اندرون و بیرون ممالک اسلا م کی تبلیغ کریںبالخصوص افریقی ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے''۔ مولانا مودودی نے جنرل صاحب کی بات کا کیا جواب دیا، یہ ہمارا موضوع نہیں، البتہ پاکستانی تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعدادسمجھتی ہے کہ جنرل ایوب نے پاکستانی سیاست کے میدان کو مزید گندا کردیا۔
آنے والے برسوں میں اس گند نے مزید انڈے بچے دیے، نتیجتاً آج کوئی بھی پاکستانی سیاست کے بارے میں کلمہ خیر نہیں کہتا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد انتخابات سے غیرمتعلق رہتی ہے،رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے 'گیلپ' کے مطابق 1988ء سے 2008ء تک آدھے سے زائد پاکستانی ووٹ ہی نہیں ڈالتے تھے، اس عرصہ میں انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح 42 فیصد سے 44 فیصد رہی۔ یادرہے کہ 1970ء اور1977ء کے انتخابات میں یہ شرح بالترتیب 64اور62 فیصد رہی اور 2013ء میں 53 فیصد۔
پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست کسی شریف اور دیانت دار فرد کے لئے موزوں نہیں۔ ایسا شخص انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، چاہے وہ جتنا بھی نیک نام ہو، چاہے وہ حکیم محمد سعید جیسی شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔'ہمدرد پاکستان' کے بانی شہید حکیم محمد سعید نے بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 1977ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے۔
ان کے انتخاب میں حصہ لینے کا قصہ عجب ہے، وہ خود انتخابات کے جھمیلوں میں پڑنے والے نہ تھے۔ حکیم صاحب کے ایک قریبی ساتھی حکیم راحت نسیم سوہدروی کے مطابق حکیم محمد سعید کبھی پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں رہے۔ تاہم انھیں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی طرف سے ایک پیغام دیاگیا کہ آپ کو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑناہے، انکار کی گنجائش نہیں بصورت دیگر آپ کا ادارہ 'ہمدرد' بحق سرکار ضبط کرلیاجائے گا۔ حکیم صاحب نے اس تجربہ کی بابت ایک کتاب بھی لکھی:'' پچاس دن اور پچاس راتیں، میدان سیاست میں'' تاہم یہ کتاب شائع نہ ہوسکی۔
دراصل پیپلزپارٹی کو کراچی میں حکیم محمد سعید ایسی مہاجر شخصیات کی ضرورت تھی جو نیک نام ہوںاور معروف بھی۔ حکیم صاحب کی انتخابی مہم کا ایک قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے، وہ اپنے ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرنے مقررہ وقت نو بجے پہنچے تو جلسہ گاہ میں ابھی دریاں بچھائی جارہی تھیں، انھوں نے انتظامات کرنے والوں سے استفسار کیا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگے کہ حکیم صاحب! نو بجے کا مطلب ہوتاہے گیارہ بجے۔ ملک میں پیپلزپارٹی کی ساکھ اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ حکیم محمد سعید جیسا نیک نام اور قابل احترام انسان بھی یہ انتخاب نہ جیت سکا۔ ان کا مقابلہ کراچی کے قومی حلقہ این اے 184میں جماعت اسلامی کے امیدوار محمود اعظم فاروقی سے ہوا۔ یادرہے کہ اس الیکشن میں کراچی میں اکثرحلقے اپوزیشن الائنس' پاکستان قومی اتحاد' نے جیت لئے تھے۔
پاکستان کا انتخابی نظام ایسا ہے کہ وہ گروہ اور افراد بھی بری طرح الیکشن ہارجاتے ہیں جن کے لئے قوم تن، من، دھن قربان کردیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن پر قوم اپنا سب کچھ وار سکتی ہے، انھیں ووٹ کیوں نہیں دے سکتی۔کوئی دور تھا کہ مرحوم عبدالستارایدھی بھی ایک پرجوش سیاسی کارکن تھے، ستّر کی دہائی میں انھوں نے کراچی سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم دونوں مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انھوں نے سیاسی زندگی کو خیرباد کہا اور سماجی سرگرمیوں کے لئے وقف ہوگئے۔
انھوں نے پہلی بار 1970ء میں انتخاب لڑا جس کی پولنگ سات دسمبر1970ء کو ہوئی۔ یہ حلقہ اس وقت این ڈبلیو 134 کراچی سات کہلاتاتھا، جو کھارادر اور مٹھادر کے علاقوں، برنس روڈ اور اس سے جڑی مارکیٹوں پر مشتمل تھا، اس حلقہ سے جمعیت علمائے پاکستان کے علامہ شاہ احمد نورانی28ہزار304 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، دوسری پوزیشن پیپلزپارٹی کے نورالعارفین کی تھی جنھوں نے22ہزار609 سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تیسری پوزیشن جماعت اسلامی کے پیرمحمد کی تھی جنھوں نے20ہزار 838 ووٹ حاصل کئے۔ مسلم لیگ کے زین نورانی کو10ہزار 634 ووٹ ملے جبکہ عبدالستارایدھی کو سات ہزار850ووٹ ملے۔
سن1975ء میں جب مولانا شاہ احمد نورانی نے سینیٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تو ان کے حلقے میں ضمنی انتخابات ہوئے، عبدالستارایدھی نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ 19اکتوبر کو انتخاب ہوا، اب کی بار یہ سیٹ پیپلزپارٹی نے جمعیت علمائے پاکستان سے چھین لی، نورالعارفین نے 27ہزار632 ووٹ حاصل کئے جبکہ جے یوپی کے حاجی محمد حنیف طیب کو24 ہزار224ووٹ ملے، عبدالستارایدھی نے سات ہزار611ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ انھوں نے دونوں مرتبہ اپنی انتخابی مہم آزادامیدوار کے طور پر خود ہی چلائی، انھیں کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ تھی۔
مشہور انقلابی شاعر مرحوم حبیب جالب نے بھی 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیاتھا،لوگوں کے ذہن میں ہے کہ انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑاتھا تاہم اصل بات یہ ہے کہ حبیب جالب نے اپنی ایک جماعت قائم کی تھی۔ جب عوامی نیشنل پارٹی کے خان عبدالولی خان نے حبیب جالب سے کہا کہ آئیں! دونوں پارٹیوں کو ایک بنالیتے ہیں تو جالب نے کہاتھاکہ سمندر دریاؤں میں شامل نہیں ہوتے۔ حبیب جالب نے باغبان پورہ لاہور سے انتخاب لڑا تھا لیکن انھیں محض 770ووٹ ہی مل سکے تھے۔
اردو کے معروف شاعر، سفرنامہ نگار، کالم نگار، ادیب اور کئی مشہور ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی بھی70ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں متحرک رہے، انھوں نے1977ء کے انتخابات میں کراچی کے قومی حلقہ 191سے انتخابات میں حصہ لیا تاہم جماعت اسلامی کے سیدمنورحسن کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ بعدازاں نوے کی دہائی میں جمیل الدین عالی متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
عمران خان پہلے کرکٹر نہیں ہیں جو میدان سیاست میں کودے، سن1990ء کے عام انتخابات میں اوول کے ہیرو، مشہور فاسٹ میڈیم باؤلر کرکٹرفضل محمود نے بھی پروفیسر ڈاکٹرطاہرالقادری کی 'پاکستان عوامی تحریک' کے ٹکٹ پر اسلامی جمہوری اتحاد کے میاں محمد نوازشریف کے خلاف انتخاب لڑاتھا۔ یہ حلقہ95 تھا، جو بعدازاں این اے 120 اور پھر این اے 127قرارپایا۔ اس حلقے سے میاں محمد نوازشریف نے59ہزار 944 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ فضل محمود نے1497 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اسی حلقے سے تحریک استقلال کے سربراہ ائیرمارشل (ر) محمد اصغر خان نے عوامی جمہوری اتحاد( جس کی قیادت محترمہ بے نظیربھٹو کے ہاتھ میں تھی) کے ٹکٹ پر39ہزار 585 ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
شوبز انڈسٹری کے ستاروں نے بھی کوچہ سیاست میں کا چکر لگایا لیکن انھیں بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مشہور ٹی وی ڈرامہ سیریل 'اندھیرا اجالا' میں اداکاری کے بہترین جوہر دکھانے والے محمد قوی خان نے بھی اپنے دوست احباب بالخصوص ساتھی اداکارجمیل فخری کے مشورے پر جنرل ضیا الحق کے دورمیں منعقدہ غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا، ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ 'اندھیراجالا 'کے سبب شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے قوی خان ضرور جیتیں گے، چنانچہ جمیل فخری نے ان کے کاغذات نامزدگی 500روپے کی فیس ادا کرکے جمع کرائے تھے، تاہم بدقسمتی سے انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اداکار عنایت حسین بھٹی ستّر کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی محبت میں گرفتار ہوکر پیپلزپارٹی کا حصہ رہے، انھوں نے اپنی پرجوش تقریروں سے ہر کسی کو حیران کردیا، اس کا مظاہرہ وہ 1977اور پھر 1988ء کے عام انتخابات کے دوران کرتے رہے، پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا البتہ عنایت حسین بھٹی نے حصہ لیا،انھوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے95سے حصہ لیا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
مشہور ٹی وی اداکار شفیع محمد شاہ کی پسندیدہ جماعت پیپلزپارٹی تھی، انھوں نے سن 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ 253 سے حصہ لیا لیکن انھیں بھی شکست کا سامنا کرناپڑا۔ انھوں نے 13ہزار نوسو سنتالیس ووٹ حاصل کئے، اس حلقے سے متحدہ مجلس عمل کے مولانا اسداللہ بھٹو کامیاب ہوئے جنھوں نے 28840 ووٹ حاصل کئے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد فہیم الدین نے 25960 ووٹ حاصل کئے تھے۔ شفیع محمد شاہ کی پوزیشن تیسری تھی۔
اداکار سیدکمال کو بھی سیاست سے بھی دلچسپی رہی۔ انہوں نے1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقدہ غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوسکے جس کے بعد انہوں نے فلم 'سیاست' بنائی جس میں انھوں نے پاکستانی سیاست کی غلط کاریوں کو موضوع بنایا۔ بعدازاں 2002ء کے انتخابات میں بھی انھوں نے حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ تحریک انصاف میں تھے لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پارٹی کا کوئی بھی فرد جنازے میں شریک نہ ہوا۔ سیدکمال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عوام اداکار کو بطور سیاست دان پسند نہیں کرتے حالانکہ سیاست دان زیادہ بہتر اداکاری کرتے ہیں۔
پشتو فلموں کی مشہور اداکارہ مشرت شاہین کے من میں نجانے کیا سوجھی کہ انھوں نے2013ء میں ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے مقابل قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔'تحریک مساوات' کی سربراہ اپنی جیت کے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں لیکن انھیں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں محض99 ووٹ ہی حاصل کرسکیں جبکہ مولانا فضل الرحمن نے91 ہزار834 ووٹ حاصل کرکے حلقے کے مجموعی33 امیدواروں میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ مسرت شاہین کا نمبر ستائیسواں تھا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ریٹائرڈ صوبیدار کی بیٹی ہونے کی دعویدار مسرت شاہین سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف بھی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن مشرف نے 2013ء کا انتخاب ہی نہ لڑا۔ مسرت شاہین گزشتہ عام انتخابات میں مطالبہ کرتی رہیں کہ انتخابات آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت کرانے چاہئیں تاکہ کوئی کرپٹ سیاست دان پارلیمان میں گھس نہ سکے۔ یادرہے کہ مسرت شاہین نے 1997ء میں بھی مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا۔
شوبز انڈسٹری کے ستاروں میں سے متعدد صرف اس خیال سے میدان میں اترے کہ پوری قوم ان کی اداکاری کے جوہر دیکھ کر خوش ہوتی ہے، ممکن ہے کہ وہ انتخابات میں اسی شہرت کو کیش کرالیں تاہم انتخابات نے ثابت کیا کہ ان کی خواہش پاکستان میں پوری نہیں ہوسکتی۔ یادرہے کہ بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں اداکار انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے بارے میں پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے، وہ بھی اسے ایک گندا کھیل سمجھتے تھے، ایک بار جماعت اسلامی کے بانی امیر سیدابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے:'' مولانا آپ بہت شریف اور علمی آدمی ہیں جبکہ سیاست بْہت گندا کھیل ہے۔
آپ اس میں آکر اپنے آپ کو گندا کرلیں گے اور اس میں سوائے گندا ہونے کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ، آپ اپنی زندگی اور وقت دونوں ضا ئع کر رہے ہیں، آپ اندرون و بیرون ممالک اسلا م کی تبلیغ کریںبالخصوص افریقی ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے''۔ مولانا مودودی نے جنرل صاحب کی بات کا کیا جواب دیا، یہ ہمارا موضوع نہیں، البتہ پاکستانی تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعدادسمجھتی ہے کہ جنرل ایوب نے پاکستانی سیاست کے میدان کو مزید گندا کردیا۔
آنے والے برسوں میں اس گند نے مزید انڈے بچے دیے، نتیجتاً آج کوئی بھی پاکستانی سیاست کے بارے میں کلمہ خیر نہیں کہتا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد انتخابات سے غیرمتعلق رہتی ہے،رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے 'گیلپ' کے مطابق 1988ء سے 2008ء تک آدھے سے زائد پاکستانی ووٹ ہی نہیں ڈالتے تھے، اس عرصہ میں انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح 42 فیصد سے 44 فیصد رہی۔ یادرہے کہ 1970ء اور1977ء کے انتخابات میں یہ شرح بالترتیب 64اور62 فیصد رہی اور 2013ء میں 53 فیصد۔
پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست کسی شریف اور دیانت دار فرد کے لئے موزوں نہیں۔ ایسا شخص انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، چاہے وہ جتنا بھی نیک نام ہو، چاہے وہ حکیم محمد سعید جیسی شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔'ہمدرد پاکستان' کے بانی شہید حکیم محمد سعید نے بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 1977ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے۔
ان کے انتخاب میں حصہ لینے کا قصہ عجب ہے، وہ خود انتخابات کے جھمیلوں میں پڑنے والے نہ تھے۔ حکیم صاحب کے ایک قریبی ساتھی حکیم راحت نسیم سوہدروی کے مطابق حکیم محمد سعید کبھی پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں رہے۔ تاہم انھیں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی طرف سے ایک پیغام دیاگیا کہ آپ کو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑناہے، انکار کی گنجائش نہیں بصورت دیگر آپ کا ادارہ 'ہمدرد' بحق سرکار ضبط کرلیاجائے گا۔ حکیم صاحب نے اس تجربہ کی بابت ایک کتاب بھی لکھی:'' پچاس دن اور پچاس راتیں، میدان سیاست میں'' تاہم یہ کتاب شائع نہ ہوسکی۔
دراصل پیپلزپارٹی کو کراچی میں حکیم محمد سعید ایسی مہاجر شخصیات کی ضرورت تھی جو نیک نام ہوںاور معروف بھی۔ حکیم صاحب کی انتخابی مہم کا ایک قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے، وہ اپنے ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرنے مقررہ وقت نو بجے پہنچے تو جلسہ گاہ میں ابھی دریاں بچھائی جارہی تھیں، انھوں نے انتظامات کرنے والوں سے استفسار کیا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگے کہ حکیم صاحب! نو بجے کا مطلب ہوتاہے گیارہ بجے۔ ملک میں پیپلزپارٹی کی ساکھ اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ حکیم محمد سعید جیسا نیک نام اور قابل احترام انسان بھی یہ انتخاب نہ جیت سکا۔ ان کا مقابلہ کراچی کے قومی حلقہ این اے 184میں جماعت اسلامی کے امیدوار محمود اعظم فاروقی سے ہوا۔ یادرہے کہ اس الیکشن میں کراچی میں اکثرحلقے اپوزیشن الائنس' پاکستان قومی اتحاد' نے جیت لئے تھے۔
پاکستان کا انتخابی نظام ایسا ہے کہ وہ گروہ اور افراد بھی بری طرح الیکشن ہارجاتے ہیں جن کے لئے قوم تن، من، دھن قربان کردیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن پر قوم اپنا سب کچھ وار سکتی ہے، انھیں ووٹ کیوں نہیں دے سکتی۔کوئی دور تھا کہ مرحوم عبدالستارایدھی بھی ایک پرجوش سیاسی کارکن تھے، ستّر کی دہائی میں انھوں نے کراچی سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم دونوں مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انھوں نے سیاسی زندگی کو خیرباد کہا اور سماجی سرگرمیوں کے لئے وقف ہوگئے۔
انھوں نے پہلی بار 1970ء میں انتخاب لڑا جس کی پولنگ سات دسمبر1970ء کو ہوئی۔ یہ حلقہ اس وقت این ڈبلیو 134 کراچی سات کہلاتاتھا، جو کھارادر اور مٹھادر کے علاقوں، برنس روڈ اور اس سے جڑی مارکیٹوں پر مشتمل تھا، اس حلقہ سے جمعیت علمائے پاکستان کے علامہ شاہ احمد نورانی28ہزار304 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، دوسری پوزیشن پیپلزپارٹی کے نورالعارفین کی تھی جنھوں نے22ہزار609 سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تیسری پوزیشن جماعت اسلامی کے پیرمحمد کی تھی جنھوں نے20ہزار 838 ووٹ حاصل کئے۔ مسلم لیگ کے زین نورانی کو10ہزار 634 ووٹ ملے جبکہ عبدالستارایدھی کو سات ہزار850ووٹ ملے۔
سن1975ء میں جب مولانا شاہ احمد نورانی نے سینیٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تو ان کے حلقے میں ضمنی انتخابات ہوئے، عبدالستارایدھی نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ 19اکتوبر کو انتخاب ہوا، اب کی بار یہ سیٹ پیپلزپارٹی نے جمعیت علمائے پاکستان سے چھین لی، نورالعارفین نے 27ہزار632 ووٹ حاصل کئے جبکہ جے یوپی کے حاجی محمد حنیف طیب کو24 ہزار224ووٹ ملے، عبدالستارایدھی نے سات ہزار611ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ انھوں نے دونوں مرتبہ اپنی انتخابی مہم آزادامیدوار کے طور پر خود ہی چلائی، انھیں کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ تھی۔
مشہور انقلابی شاعر مرحوم حبیب جالب نے بھی 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیاتھا،لوگوں کے ذہن میں ہے کہ انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑاتھا تاہم اصل بات یہ ہے کہ حبیب جالب نے اپنی ایک جماعت قائم کی تھی۔ جب عوامی نیشنل پارٹی کے خان عبدالولی خان نے حبیب جالب سے کہا کہ آئیں! دونوں پارٹیوں کو ایک بنالیتے ہیں تو جالب نے کہاتھاکہ سمندر دریاؤں میں شامل نہیں ہوتے۔ حبیب جالب نے باغبان پورہ لاہور سے انتخاب لڑا تھا لیکن انھیں محض 770ووٹ ہی مل سکے تھے۔
اردو کے معروف شاعر، سفرنامہ نگار، کالم نگار، ادیب اور کئی مشہور ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی بھی70ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں متحرک رہے، انھوں نے1977ء کے انتخابات میں کراچی کے قومی حلقہ 191سے انتخابات میں حصہ لیا تاہم جماعت اسلامی کے سیدمنورحسن کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ بعدازاں نوے کی دہائی میں جمیل الدین عالی متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
عمران خان پہلے کرکٹر نہیں ہیں جو میدان سیاست میں کودے، سن1990ء کے عام انتخابات میں اوول کے ہیرو، مشہور فاسٹ میڈیم باؤلر کرکٹرفضل محمود نے بھی پروفیسر ڈاکٹرطاہرالقادری کی 'پاکستان عوامی تحریک' کے ٹکٹ پر اسلامی جمہوری اتحاد کے میاں محمد نوازشریف کے خلاف انتخاب لڑاتھا۔ یہ حلقہ95 تھا، جو بعدازاں این اے 120 اور پھر این اے 127قرارپایا۔ اس حلقے سے میاں محمد نوازشریف نے59ہزار 944 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ فضل محمود نے1497 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اسی حلقے سے تحریک استقلال کے سربراہ ائیرمارشل (ر) محمد اصغر خان نے عوامی جمہوری اتحاد( جس کی قیادت محترمہ بے نظیربھٹو کے ہاتھ میں تھی) کے ٹکٹ پر39ہزار 585 ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
شوبز انڈسٹری کے ستاروں نے بھی کوچہ سیاست میں کا چکر لگایا لیکن انھیں بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مشہور ٹی وی ڈرامہ سیریل 'اندھیرا اجالا' میں اداکاری کے بہترین جوہر دکھانے والے محمد قوی خان نے بھی اپنے دوست احباب بالخصوص ساتھی اداکارجمیل فخری کے مشورے پر جنرل ضیا الحق کے دورمیں منعقدہ غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا، ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ 'اندھیراجالا 'کے سبب شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے قوی خان ضرور جیتیں گے، چنانچہ جمیل فخری نے ان کے کاغذات نامزدگی 500روپے کی فیس ادا کرکے جمع کرائے تھے، تاہم بدقسمتی سے انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اداکار عنایت حسین بھٹی ستّر کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی محبت میں گرفتار ہوکر پیپلزپارٹی کا حصہ رہے، انھوں نے اپنی پرجوش تقریروں سے ہر کسی کو حیران کردیا، اس کا مظاہرہ وہ 1977اور پھر 1988ء کے عام انتخابات کے دوران کرتے رہے، پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا البتہ عنایت حسین بھٹی نے حصہ لیا،انھوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے95سے حصہ لیا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
مشہور ٹی وی اداکار شفیع محمد شاہ کی پسندیدہ جماعت پیپلزپارٹی تھی، انھوں نے سن 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ 253 سے حصہ لیا لیکن انھیں بھی شکست کا سامنا کرناپڑا۔ انھوں نے 13ہزار نوسو سنتالیس ووٹ حاصل کئے، اس حلقے سے متحدہ مجلس عمل کے مولانا اسداللہ بھٹو کامیاب ہوئے جنھوں نے 28840 ووٹ حاصل کئے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد فہیم الدین نے 25960 ووٹ حاصل کئے تھے۔ شفیع محمد شاہ کی پوزیشن تیسری تھی۔
اداکار سیدکمال کو بھی سیاست سے بھی دلچسپی رہی۔ انہوں نے1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقدہ غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوسکے جس کے بعد انہوں نے فلم 'سیاست' بنائی جس میں انھوں نے پاکستانی سیاست کی غلط کاریوں کو موضوع بنایا۔ بعدازاں 2002ء کے انتخابات میں بھی انھوں نے حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ تحریک انصاف میں تھے لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پارٹی کا کوئی بھی فرد جنازے میں شریک نہ ہوا۔ سیدکمال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عوام اداکار کو بطور سیاست دان پسند نہیں کرتے حالانکہ سیاست دان زیادہ بہتر اداکاری کرتے ہیں۔
پشتو فلموں کی مشہور اداکارہ مشرت شاہین کے من میں نجانے کیا سوجھی کہ انھوں نے2013ء میں ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے مقابل قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔'تحریک مساوات' کی سربراہ اپنی جیت کے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں لیکن انھیں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں محض99 ووٹ ہی حاصل کرسکیں جبکہ مولانا فضل الرحمن نے91 ہزار834 ووٹ حاصل کرکے حلقے کے مجموعی33 امیدواروں میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ مسرت شاہین کا نمبر ستائیسواں تھا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ریٹائرڈ صوبیدار کی بیٹی ہونے کی دعویدار مسرت شاہین سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف بھی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن مشرف نے 2013ء کا انتخاب ہی نہ لڑا۔ مسرت شاہین گزشتہ عام انتخابات میں مطالبہ کرتی رہیں کہ انتخابات آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت کرانے چاہئیں تاکہ کوئی کرپٹ سیاست دان پارلیمان میں گھس نہ سکے۔ یادرہے کہ مسرت شاہین نے 1997ء میں بھی مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا۔
شوبز انڈسٹری کے ستاروں میں سے متعدد صرف اس خیال سے میدان میں اترے کہ پوری قوم ان کی اداکاری کے جوہر دیکھ کر خوش ہوتی ہے، ممکن ہے کہ وہ انتخابات میں اسی شہرت کو کیش کرالیں تاہم انتخابات نے ثابت کیا کہ ان کی خواہش پاکستان میں پوری نہیں ہوسکتی۔ یادرہے کہ بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں اداکار انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں۔