این اے 251 سب سے بڑے مسائل قلت آب اور شناختی کارڈ نہ ہونا ہیں
پختون، بہاری، بنگالی کمیونٹی کو شناختی کارڈکے اجرا اور پرانے کارڈکی تجدید میں شدید مشکلات کا سامنا ہے
قومی اسمبلی کی نشست این اے 251 مسائل کا گڑھ ہے، سب ڈویژن اورنگی کے بیشتر اور سب ڈویژن مومن آباد کے مختلف علاقوں پر مشتمل اس قومی اسمبلی کی نشست میں اہم مسائل پانی کی قلت اور شناختی کارڈ ہے جب کہ دیگر مسائل میں ، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، کچرے کے ڈھیر، ناقص سیوریج نظام ، تجاوزات، خراب اسٹریٹ لائٹس، اسٹریٹ کرائمز، سرکاری اسپتال اور اسکول کالجز کی کمی شامل ہیں۔
سندھ حکومت کے ایدھی لائن بس منصوبہ میں تاخیر کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن کے رہائشیوں کو آمد ورفت میں سخت پریشانی کا سامنا ہے،این اے 251 میں اردو اسپیکنگ اور بہاری کمیونٹی کی اکثریت ہے ، بعض علاقوں میں پختون رہتے ہیں جبکہ پنجابی، سرائیکی اور بنگالی بھی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، قومی اسمبلی کی اس نشست کا بنیادی مسئلہ پانی ہے۔
ضلع غربی کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی حب ڈیم خشک ہونے کی وجہ سے پانی کا بدترین بحران ہے اور بیشتر علاقوں میں ایک ماہ کے بعد چند گھنٹوں کیلئے پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ پانی کے مسئلے کے بعد یہاں سب سے بڑا مسئلہ شناختی کارڈ کا ہے جو پختون اور بہاری کمیونٹی کو درپیش ہے۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے گذشتہ چند سالوں سے نئے شناختی کارڈ کے اجراء اور پرانے شناختی کی تجدید کرانے والوں کے دستاویزات کی اسکروٹنی کی جارہی ہے اور اس بنیاد پر پختون اور بہاری کمیونٹی سخت پریشانی کا شکار ہے،ایکسپریس سروے کے مطابق بہاری کمیونٹی جو گلشن بہار، اورنگی 12,13,14 ضیاء کالونی اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہے شناختی کارڈ کی تجدید کرانے سے احتراز کررہی ہے۔
نادرا کی جانب سے بہاری کمیونٹی کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ جو شخص 1976ء تک مشرقی پاکستان سے یہاں منتقل ہوگیا ہے اسے پاکستانی تسیلم کیا جاتا ہے جبکہ بعد میں آنے والوں کو تارکین وطن قرار دیا گیا ہے،کئی شہریوں نے ایکسپریس کو آگاہ کیا کہ ماضی میں نادرا نے ان کے کمپیوٹرائزڈ شناختی بنائے جب ان شناختی کارڈ کی مدت پوری ہونے کے بعد بہاری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شناختی کارڈ کی تجدید کرانے نادرا دفاتر گئے تو ان سے ماں باپ کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات طلب کی گئیں اور جو لوگ فراہم نہ کرسکے ان کے شناختی کارڈ بلاک کرکے تارکین وطن کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔
جن شہریوں کے شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ بھی بند ہوگئے ہیں جبکہ ان کے پاسپورٹ بھی نہیں بن پارہے، موجودہ انتخابی فہرستوں میں ان کے نام بھی نہیں شامل ہیں،یہی صورتحال فقیر کالونی ، فرید کالونی ، پریشان چوک بسمہ کالونی اور دیگر علاقوں میں آباد پختون کمیونٹی کی ہے۔
فقیر کالونی کے رہائشی محمد خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے پختونوں کو بلاجواز تنگ کیا جارہا ہے، انھیں افغان قرار دیکر ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جارہے ہیں اور انھیں بھی تارکین وطن کی کٹیگری میں شامل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں سخت پریشانی کا سامنا ہے، محمد خان نے کہا کہ نادرا کی جانب سے والدین کے پرانے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات مانگے جاہے ہیں ، جو پختون یہ دستاویزات فراہم نہیں کرپاتا اس کا کارڈ بلاک کردیا جاتا ہے۔
این اے 251 کے دیگر مسائل میں خستہ حال سڑکیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، ناقص سیوریج نظام، اسٹریٹ کرائمز کی بہتات شہریوں کیلئے سخت تکلیف کا باعث ہیں، شاہراہ اورنگی اور اندرونی علاقوں کی سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ ان سڑکوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام کا مسئلہ روز مرہ کا معمول ہے، یہاں صرف قطر اسپتال سرکاری سطح پر ہے جبکہ سرکاری اسکول وکالجز بھی بہت کم تعداد ہیں،صوبائی حکومت کا ایدھی لائن بس منصوبہ اورنگی کے رہائشیوں کیلیے سخت وبال جان بن گیا ہے۔
یہ منصوبہ اورنگی ٹی ایم اے آفس سے شروع ہوتا ہے اور اسے ضلع وسطی کی حدود بورڈ آفس چورنگی پر مکمل ہونا ہے تاہم روایتی سست روی کی وجہ سے یہ دوسال سے تاخیر کا شکار ہے ۔ اس منصوبہ کی وجہ سے شاہراہ اورنگی کو جگہ جگہ سے کھود دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور شہریوں کو آمد ورفت میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
این اے 251میں آنے والی سابقہ قومی اسمبلی این اے 242اور این اے 243 بالترتیب ایم کیوایم کے محبوب عالم اور عبدالوسیم جیتے، صوبائی اسمبلی پی ایس 95، پی ایس 96 اور پی ایس 97 سے بالترتیب محمد حسین، مظاہیر امیر خان اور شیخ عبداللہ کامیاب ہوئے، قومی اسمبلی کی اس نشست میں بظاہر ایم کیوایم کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے تاہم گذشتہ دو سالوں میں ایم کیوایم پاکستان کو کئی سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایم کیوایم کے بطن سے پاک سرزمین پارٹی کا وجود میں آنا اور اہم سیاسی رہنماؤں میں اختلاف کی وجہ سے اب ان نشستوں پر ایم کیوایم کی کامیابی کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
علاوہ ازیں جماعت اسلامی نے گذشتہ چھ ماہ میں اورنگی ٹاؤن کے رہائشی بہاریوں اور پختونوں کا دیرینہ مسئلہ نئے شناختی کارڈ کا اجراء اور پرانے شناختی کی تجدید میں آنے والی رکاوٹوں پر شہر بھر میں سخت احتجاجی مہم چلائیں، جنرل منیجر سندھ نادرا اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے متاثرہ شہریوں کے مسائل بھی حل کرائے جس سے ان کے ووٹ بینک پر اچھا اثر پڑسکتا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے رہنما لئیق احمد خان کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کے پلیٹ فارم سے اس نشست سے کھڑا کیا ہے۔ ایم کیوایم کے کئی مرکزی رہنماؤں مصطفیٰ کمال ، انیس قائم خانی ، رضا ہارون اور دیگر بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی نے پارٹی سے علیحیدہ ہوکر پاک سززمین پارٹی تشکیل دی ہے جو اب ایم کیوایم کیلئے چیلنج بن چکی ہے۔
آئندہ الیکشن میں ایم کیوایم کو ایم ایم اے اور پاک سرزمین پارٹی سے سخت خطرہ ہے اور یہ نشست ایم کیوایم کیلئے ایک آزمائش بن گئی ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی اس نشست میں مجموعی ووٹرز 405,662اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 239,849 ہے اور خواتین ووٹرز 165,803ہیں، ایم کیوایم کے امین الحق، پی ایس پی کے محمد نہال ملک، ایم ایم اے کے لئیق احمد خان، پیپلزپارٹی کے جمیل ضیاء، تحریک انصاف کے محمد اسلم ، مسلم لیگ(ن) کے فہد شفیق، تحریک لبیک کے ممتاز حسین انصاری سمیت 13امیدوار ا نتخابی مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔
کراچی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا تفصیلی جائزہ
سندھ حکومت کے ایدھی لائن بس منصوبہ میں تاخیر کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن کے رہائشیوں کو آمد ورفت میں سخت پریشانی کا سامنا ہے،این اے 251 میں اردو اسپیکنگ اور بہاری کمیونٹی کی اکثریت ہے ، بعض علاقوں میں پختون رہتے ہیں جبکہ پنجابی، سرائیکی اور بنگالی بھی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، قومی اسمبلی کی اس نشست کا بنیادی مسئلہ پانی ہے۔
ضلع غربی کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی حب ڈیم خشک ہونے کی وجہ سے پانی کا بدترین بحران ہے اور بیشتر علاقوں میں ایک ماہ کے بعد چند گھنٹوں کیلئے پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ پانی کے مسئلے کے بعد یہاں سب سے بڑا مسئلہ شناختی کارڈ کا ہے جو پختون اور بہاری کمیونٹی کو درپیش ہے۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے گذشتہ چند سالوں سے نئے شناختی کارڈ کے اجراء اور پرانے شناختی کی تجدید کرانے والوں کے دستاویزات کی اسکروٹنی کی جارہی ہے اور اس بنیاد پر پختون اور بہاری کمیونٹی سخت پریشانی کا شکار ہے،ایکسپریس سروے کے مطابق بہاری کمیونٹی جو گلشن بہار، اورنگی 12,13,14 ضیاء کالونی اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہے شناختی کارڈ کی تجدید کرانے سے احتراز کررہی ہے۔
نادرا کی جانب سے بہاری کمیونٹی کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ جو شخص 1976ء تک مشرقی پاکستان سے یہاں منتقل ہوگیا ہے اسے پاکستانی تسیلم کیا جاتا ہے جبکہ بعد میں آنے والوں کو تارکین وطن قرار دیا گیا ہے،کئی شہریوں نے ایکسپریس کو آگاہ کیا کہ ماضی میں نادرا نے ان کے کمپیوٹرائزڈ شناختی بنائے جب ان شناختی کارڈ کی مدت پوری ہونے کے بعد بہاری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شناختی کارڈ کی تجدید کرانے نادرا دفاتر گئے تو ان سے ماں باپ کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات طلب کی گئیں اور جو لوگ فراہم نہ کرسکے ان کے شناختی کارڈ بلاک کرکے تارکین وطن کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔
جن شہریوں کے شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ بھی بند ہوگئے ہیں جبکہ ان کے پاسپورٹ بھی نہیں بن پارہے، موجودہ انتخابی فہرستوں میں ان کے نام بھی نہیں شامل ہیں،یہی صورتحال فقیر کالونی ، فرید کالونی ، پریشان چوک بسمہ کالونی اور دیگر علاقوں میں آباد پختون کمیونٹی کی ہے۔
فقیر کالونی کے رہائشی محمد خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے پختونوں کو بلاجواز تنگ کیا جارہا ہے، انھیں افغان قرار دیکر ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جارہے ہیں اور انھیں بھی تارکین وطن کی کٹیگری میں شامل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں سخت پریشانی کا سامنا ہے، محمد خان نے کہا کہ نادرا کی جانب سے والدین کے پرانے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات مانگے جاہے ہیں ، جو پختون یہ دستاویزات فراہم نہیں کرپاتا اس کا کارڈ بلاک کردیا جاتا ہے۔
این اے 251 کے دیگر مسائل میں خستہ حال سڑکیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، ناقص سیوریج نظام، اسٹریٹ کرائمز کی بہتات شہریوں کیلئے سخت تکلیف کا باعث ہیں، شاہراہ اورنگی اور اندرونی علاقوں کی سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ ان سڑکوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام کا مسئلہ روز مرہ کا معمول ہے، یہاں صرف قطر اسپتال سرکاری سطح پر ہے جبکہ سرکاری اسکول وکالجز بھی بہت کم تعداد ہیں،صوبائی حکومت کا ایدھی لائن بس منصوبہ اورنگی کے رہائشیوں کیلیے سخت وبال جان بن گیا ہے۔
یہ منصوبہ اورنگی ٹی ایم اے آفس سے شروع ہوتا ہے اور اسے ضلع وسطی کی حدود بورڈ آفس چورنگی پر مکمل ہونا ہے تاہم روایتی سست روی کی وجہ سے یہ دوسال سے تاخیر کا شکار ہے ۔ اس منصوبہ کی وجہ سے شاہراہ اورنگی کو جگہ جگہ سے کھود دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور شہریوں کو آمد ورفت میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
این اے 251میں آنے والی سابقہ قومی اسمبلی این اے 242اور این اے 243 بالترتیب ایم کیوایم کے محبوب عالم اور عبدالوسیم جیتے، صوبائی اسمبلی پی ایس 95، پی ایس 96 اور پی ایس 97 سے بالترتیب محمد حسین، مظاہیر امیر خان اور شیخ عبداللہ کامیاب ہوئے، قومی اسمبلی کی اس نشست میں بظاہر ایم کیوایم کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے تاہم گذشتہ دو سالوں میں ایم کیوایم پاکستان کو کئی سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایم کیوایم کے بطن سے پاک سرزمین پارٹی کا وجود میں آنا اور اہم سیاسی رہنماؤں میں اختلاف کی وجہ سے اب ان نشستوں پر ایم کیوایم کی کامیابی کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
علاوہ ازیں جماعت اسلامی نے گذشتہ چھ ماہ میں اورنگی ٹاؤن کے رہائشی بہاریوں اور پختونوں کا دیرینہ مسئلہ نئے شناختی کارڈ کا اجراء اور پرانے شناختی کی تجدید میں آنے والی رکاوٹوں پر شہر بھر میں سخت احتجاجی مہم چلائیں، جنرل منیجر سندھ نادرا اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے متاثرہ شہریوں کے مسائل بھی حل کرائے جس سے ان کے ووٹ بینک پر اچھا اثر پڑسکتا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے رہنما لئیق احمد خان کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کے پلیٹ فارم سے اس نشست سے کھڑا کیا ہے۔ ایم کیوایم کے کئی مرکزی رہنماؤں مصطفیٰ کمال ، انیس قائم خانی ، رضا ہارون اور دیگر بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی نے پارٹی سے علیحیدہ ہوکر پاک سززمین پارٹی تشکیل دی ہے جو اب ایم کیوایم کیلئے چیلنج بن چکی ہے۔
آئندہ الیکشن میں ایم کیوایم کو ایم ایم اے اور پاک سرزمین پارٹی سے سخت خطرہ ہے اور یہ نشست ایم کیوایم کیلئے ایک آزمائش بن گئی ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی اس نشست میں مجموعی ووٹرز 405,662اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 239,849 ہے اور خواتین ووٹرز 165,803ہیں، ایم کیوایم کے امین الحق، پی ایس پی کے محمد نہال ملک، ایم ایم اے کے لئیق احمد خان، پیپلزپارٹی کے جمیل ضیاء، تحریک انصاف کے محمد اسلم ، مسلم لیگ(ن) کے فہد شفیق، تحریک لبیک کے ممتاز حسین انصاری سمیت 13امیدوار ا نتخابی مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔
کراچی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا تفصیلی جائزہ