ثناء اللہ کی موت پر یہ مجرمانہ خاموشی
بھارت نے آتشِ انتقام سے مغلوب ہو کر سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ ثناء اللہ کو قتل کروا کر لے لیا ہے۔
بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ، تقریباً ایک ہفتہ قبل ہلاک ہوا تو پاکستان کے کئی قلمکاروں اور دانشوروں نے گہرے قلق کا اظہار کیا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی بھلوال جیل میں پاکستانی قیدی ثناء اللہ کو ہندووانہ انتقام کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے شدید تشدد سے شہید کر دیا گیا تو ہمارے وطن کے اِن ''انسان دوست'' دانشوروں اور کالم کاروں کے ہونٹ بھی سِل گئے اور قلم کی سیاہی بھی منجمد ہو گئی۔
کیا غیر مسلم سربجیت سنگھ کا خون مسلمان ثناء اللہ کے خون سے زیادہ گراں قدر اور مقدس تھا؟ اگر اِن دونوں ہلاکتوں کو ہم مذہبی جذبات سے الگ کر کے بھی سوچیں تو بھی ہمارے اِن اہلِ دانش سے سوال کیا جا سکتا ہے: حضورِ والا، کیا بھارتی قیدی کی موت پاکستانی قیدی کی شہادت سے زیادہ قیمتی تھی؟ اگر ایسا نہیں تھا، اور یقیناً ایسا نہیں ہے، تو پھر بھارتی قید میں ایک بھارتی قیدی کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے ثناء اللہ سیالکوٹی کی موت پر ہمارے ہاں زبانیں خاموش کیوں ہو گئیں؟
بھارت نے آتشِ انتقام سے مغلوب ہو کر سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ ثناء اللہ کو قتل کروا کر لے لیا ہے۔ دیکھا جائے تو یوں اُس نے اپنی نام نہاد اخلاقی برتری بھی کھو دی ہے۔ اب بھارت اور بھارتی عوام کا پاکستان کے خلاف واویلا بھی بے بنیاد ثابت ہو گیا ہے۔ اگر فرض کیا پاکستان کے کسی جیل حاکم کی نالائقی کی وجہ سے ہائی پروفائل قیدی پر تشدد کر کے ''پاگل پن'' کا مظاہرہ کیا گیا تو بھارتی حکام نے ثناء اللہ کو مروا کر اِس سے کہیں بڑھ کر پاگل پَن اور جنونیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ثناء اللہ اور سربجیت سنگھ میں کئی ''باتیں'' مشترک تھیں۔ دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔
سربجیت کا مشرقی پنجاب اور ثناء اللہ کا مغربی پنجاب سے۔ دونوں پاکستان اور بھارت (مقبوضہ کشمیر) میں تقریباً دو، دو عشرے قید رہے۔ ایک کو پاکستانیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے سزائے موت جب کہ دوسرے کو غلطی سے سرحد پار کرنے کے جرم میں عمر قید سنائی گئی تھی۔ ایک پر جیل میں سزائے موت کے قیدیوں نے مبینہ طور پر آہنی سلاخ سے حملہ کیا تو دوسرے پر بھی عمر قید کی سزا بھگتنے والے ریٹائرڈ فوجی کی طرف سے ایک لوہے کے تیز دھار آلے (گینتی) سے حملہ کیا گیا۔
دونوں کے سر یکساں طور پر پھٹے۔ ثناء اللہ سے بھارت نے قدم قدم پر اُسی طرح انتقام لیا جس طرح سربجیت سنگھ پر لاہور میں سلوک کیا گیا۔ بھارت نے سربجیت کی طرح ثناء اللہ کو سر پر ضربیں لگوائیں۔ اگر سربجیت کو مبینہ تشدد کے بعد تقریباً چھ روز تک لاہور کے جناح اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تو بھارت نے بھی ثناء اللہ کو اتنے ہی دن چندی گڑھ کے اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا۔ اِن مناظر سے ہم خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت ہر ہر قدم پر پاکستان سے کس طرح انتقام لینے کے ہمیشہ درپے رہتا ہے۔
بھارتی حکام نے مضروب ثناء اللہ کے اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش کے دوران اُس کے گھر والوں کو بھارت جانے کی اجازت دینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ ویزہ دینے کا نام سننا بھی گوارا نہ کیا۔ چند روز بعد البتہ بھارت نے اِس سلسلے میں عالمی دباؤ پر ثناء اللہ کے عزیزوں کو ویزے جاری کر دیے۔ ہمیں پاکستانی حکومت سے بھی گلہ کرنا چاہیے۔ بھارت نے سربجیت سنگھ کے معاملے پر پاکستان کے خلاف اپنے ملک میں جو کنسرن شو کیا، پاکستان ثناء اللہ کے کیس میں سرکاری سطح پر اس کا عشرِ عشیر بھی رد ِعمل کا اظہار نہ کر سکا۔
شہید ثناء اللہ اور دہشت گرد سربجیت سنگھ کی شخصیات میں ایک بڑا فرق بھی تھا جسے بھارت نے انتقام لیتے ہوئے بدقسمتی سے ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ثناء اللہ ریاستِ پاکستان کی طرف سے بھارت بھیجا گیا جاسوس نہیں تھا جب کہ سربجیت سنگھ باقاعدہ جاسوس تھا اور اِس کا اعتراف بھارتی خفیہ ادارے ''را'' کے ایک سابق سینئر افسر نے بھی کیا ہے اور ''ہندوستان ٹائمز'' نے اپنے چندی گڑھ ایڈیشن میں اِس حقیقت کے بارے میں 4 مئی 2013ء کو ایک رپورٹ بھی شایع کی ہے۔
اور ہاں بھارت سے ایک سنجیدہ سوال کا جواب بھی سرکاری سطح پر لیا جانا چاہیے: 2000ء کے آس پاس پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے ذمے داران وقتاً فوقتاً، سال میں تین چار بار، ایک جگہ بیٹھا کریں گے تا کہ پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کا خیال بھی رکھا جا سکے اور اُن سے کسی قسم کی زیادتی بھی نہ ہونے پائے۔ اِس جوڈیشل کمیٹی میں دونوں ممالک کے چنیدہ افراد شرکت کرتے رہے ہیں۔
تقریباً آٹھ سال تک برابر لیکن پھر بھارت نے دانستہ، نہایت بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اِس جوڈیشل کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ پاکستان میں بھارت کے گیت گانے والے کیا اِس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ وہ بھی جن کی آنکھیں سربجیت سنگھ کی موت پر تو بھر آئی تھیں لیکن ثناء اللہ کی موت پر اُن کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں ٹپکا۔
کیا غیر مسلم سربجیت سنگھ کا خون مسلمان ثناء اللہ کے خون سے زیادہ گراں قدر اور مقدس تھا؟ اگر اِن دونوں ہلاکتوں کو ہم مذہبی جذبات سے الگ کر کے بھی سوچیں تو بھی ہمارے اِن اہلِ دانش سے سوال کیا جا سکتا ہے: حضورِ والا، کیا بھارتی قیدی کی موت پاکستانی قیدی کی شہادت سے زیادہ قیمتی تھی؟ اگر ایسا نہیں تھا، اور یقیناً ایسا نہیں ہے، تو پھر بھارتی قید میں ایک بھارتی قیدی کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے ثناء اللہ سیالکوٹی کی موت پر ہمارے ہاں زبانیں خاموش کیوں ہو گئیں؟
بھارت نے آتشِ انتقام سے مغلوب ہو کر سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ ثناء اللہ کو قتل کروا کر لے لیا ہے۔ دیکھا جائے تو یوں اُس نے اپنی نام نہاد اخلاقی برتری بھی کھو دی ہے۔ اب بھارت اور بھارتی عوام کا پاکستان کے خلاف واویلا بھی بے بنیاد ثابت ہو گیا ہے۔ اگر فرض کیا پاکستان کے کسی جیل حاکم کی نالائقی کی وجہ سے ہائی پروفائل قیدی پر تشدد کر کے ''پاگل پن'' کا مظاہرہ کیا گیا تو بھارتی حکام نے ثناء اللہ کو مروا کر اِس سے کہیں بڑھ کر پاگل پَن اور جنونیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ثناء اللہ اور سربجیت سنگھ میں کئی ''باتیں'' مشترک تھیں۔ دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔
سربجیت کا مشرقی پنجاب اور ثناء اللہ کا مغربی پنجاب سے۔ دونوں پاکستان اور بھارت (مقبوضہ کشمیر) میں تقریباً دو، دو عشرے قید رہے۔ ایک کو پاکستانیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے سزائے موت جب کہ دوسرے کو غلطی سے سرحد پار کرنے کے جرم میں عمر قید سنائی گئی تھی۔ ایک پر جیل میں سزائے موت کے قیدیوں نے مبینہ طور پر آہنی سلاخ سے حملہ کیا تو دوسرے پر بھی عمر قید کی سزا بھگتنے والے ریٹائرڈ فوجی کی طرف سے ایک لوہے کے تیز دھار آلے (گینتی) سے حملہ کیا گیا۔
دونوں کے سر یکساں طور پر پھٹے۔ ثناء اللہ سے بھارت نے قدم قدم پر اُسی طرح انتقام لیا جس طرح سربجیت سنگھ پر لاہور میں سلوک کیا گیا۔ بھارت نے سربجیت کی طرح ثناء اللہ کو سر پر ضربیں لگوائیں۔ اگر سربجیت کو مبینہ تشدد کے بعد تقریباً چھ روز تک لاہور کے جناح اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تو بھارت نے بھی ثناء اللہ کو اتنے ہی دن چندی گڑھ کے اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا۔ اِن مناظر سے ہم خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت ہر ہر قدم پر پاکستان سے کس طرح انتقام لینے کے ہمیشہ درپے رہتا ہے۔
بھارتی حکام نے مضروب ثناء اللہ کے اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش کے دوران اُس کے گھر والوں کو بھارت جانے کی اجازت دینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ ویزہ دینے کا نام سننا بھی گوارا نہ کیا۔ چند روز بعد البتہ بھارت نے اِس سلسلے میں عالمی دباؤ پر ثناء اللہ کے عزیزوں کو ویزے جاری کر دیے۔ ہمیں پاکستانی حکومت سے بھی گلہ کرنا چاہیے۔ بھارت نے سربجیت سنگھ کے معاملے پر پاکستان کے خلاف اپنے ملک میں جو کنسرن شو کیا، پاکستان ثناء اللہ کے کیس میں سرکاری سطح پر اس کا عشرِ عشیر بھی رد ِعمل کا اظہار نہ کر سکا۔
شہید ثناء اللہ اور دہشت گرد سربجیت سنگھ کی شخصیات میں ایک بڑا فرق بھی تھا جسے بھارت نے انتقام لیتے ہوئے بدقسمتی سے ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ثناء اللہ ریاستِ پاکستان کی طرف سے بھارت بھیجا گیا جاسوس نہیں تھا جب کہ سربجیت سنگھ باقاعدہ جاسوس تھا اور اِس کا اعتراف بھارتی خفیہ ادارے ''را'' کے ایک سابق سینئر افسر نے بھی کیا ہے اور ''ہندوستان ٹائمز'' نے اپنے چندی گڑھ ایڈیشن میں اِس حقیقت کے بارے میں 4 مئی 2013ء کو ایک رپورٹ بھی شایع کی ہے۔
اور ہاں بھارت سے ایک سنجیدہ سوال کا جواب بھی سرکاری سطح پر لیا جانا چاہیے: 2000ء کے آس پاس پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے ذمے داران وقتاً فوقتاً، سال میں تین چار بار، ایک جگہ بیٹھا کریں گے تا کہ پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کا خیال بھی رکھا جا سکے اور اُن سے کسی قسم کی زیادتی بھی نہ ہونے پائے۔ اِس جوڈیشل کمیٹی میں دونوں ممالک کے چنیدہ افراد شرکت کرتے رہے ہیں۔
تقریباً آٹھ سال تک برابر لیکن پھر بھارت نے دانستہ، نہایت بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اِس جوڈیشل کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ پاکستان میں بھارت کے گیت گانے والے کیا اِس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ وہ بھی جن کی آنکھیں سربجیت سنگھ کی موت پر تو بھر آئی تھیں لیکن ثناء اللہ کی موت پر اُن کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں ٹپکا۔