عورت کی عزتِ نفس
یہ وہ معاشرتی ناسور تھے جن پر کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس میں عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا اور پاکستان میں جاگیرداروں، وڈیروں،سرمایہ داروں اور نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے آپس میں اتحاد کرکے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان حلقوں میں عورتیں ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھاجاتا ہے۔ اس کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔
اسے غیرت کے نام پر کاروکاری کرکے قتل کردیا جاتا ہے یا پھر اسے ونی کردیا جاتا ہے۔ اگر بس نہیں چلتا تو اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیاجاتا ہے۔ یہ وہ معاشرتی ناسور تھے جن پر کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ماضی میں نورپور میں خواتین کے ساتھ جو برہنہ کرنے کا سلوک کیا گیا، اس کی نظیر شاید زمانہ جاہلیت میں بھی دستیاب نہ تھی اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو اسلام کی خود ساختہ تشریح کرنے والوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کیے گئے۔
یہ تھا وہ پاکستان جسے حاصل کرنے والے ایک روشن خیال، اعتدال پسند ، راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ میرا اشارہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء کی جانب ہے۔ ان کے پاکستان میں خواتین کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا۔ اس ظلم کے خلاف اگر کسی نے آواز بلند کی تو اس قلندر صفت ہستی کو دنیا الطاف حسین کے نام سے جانتی ہے جس نے ببانگ دہل عورتوں کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ جہاں جہاں ظلم ہوا، اس نے اپنی صدا بلند کی۔ خواہ وہ کاروکاری ہو یا ونی ہو۔ خواتین پر تیزاب پھینکنے کا عمل ہو یا کسی بھی شعبہ زندگی میں خواتین کے حصے کا معاملہ ہو۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی کے تمام منشور جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور 2013ء کے انتخابات کے لیے بااختیار عوام کے نام سے جاری ہونے والے منشور میں بھی اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت تمام شعبہ زندگی میں خواتین کا حصہ 50فیصد کی سطح پر لایاجائے گا۔ قائد تحریک اپنے خطبات و تقاریر میں اس امر پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے۔ تاکہ وہ ناسور جو ہمارے قومی تشخص کو مجروح کررہے ہیں، انھیں ختم کیاجاسکے۔
ایم کیو ایم نے گھریلو تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے اور مسلسل اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا خواتین ونگ اس سلسلے میں ایک فعال کردار ادا کررہا ہے جو عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے جلسے جلوس ہوں، ریلیاں ہوں یا تنظیمی امور ، اس میں خواتین کا کردار قابل ستائش ہے۔ ایم کیو ایم کی خواتین قانون ساز بھی ایوانوں میں اور ایوانوں سے باہر اپنی ذمے داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے انتخابی منشور ہمیشہ تمام طبقہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ الطاف حسین یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی کا کوئی بھی عمل خواتین کی ترقی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جب تک ماں تربیت یافتہ و تعلیم یافتہ نہیں ہوگی، وہ قوم بھی تعلیم یافتہ نہیں ہوسکتی اور تعلیم کے بغیر ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ خواتین کے شعور کو بیدار کیاجائے ۔ جب کہ ملک کی کل آبادی کا نصف سے زائد یہ طبقہ اگر بیداری حاصل کر لے تو تبدیلی کے عمل کو کوئی نہیں روک سکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ کا یقین ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی عورت کو باشعور بنائے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ آج کراچی سے پشاور تک پاکستان جن مسائل سے دوچارہے، اس میں عورت کی پسماندگی کا بہت بڑا عمل دخل ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی اکائی گھر ہوتی ہے اور گھر کو عورت تعمیر کرتی ہے۔ عورت قوم کے مستقبل کی امین و محافظ ہے۔ وہ قوم کے مستقبل کو تعمیر کرنے والی ہے۔
اس سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے الطاف حسین نے تنظیمی ذمے داروں کو یہ ہدایت دی کہ ایک ایسا منشور ترتیب دیاجائے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کے حصے کو پچاس فیصد رکھا جائے ، تاکہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی آبادی کا نصف 11مئی 2013ء کو اپنے گھروں سے باہر نکلے اور اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
یہ امر تقریباً لازم ہے کہ جب تک یہ طبقہ آبادی شعور کے ساتھ اپنا کردار ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی اور جماعت اس طبقے کو حقیقی معنوں میں متحرک کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی لہٰذا میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو دعوتِ فکر دے رہی ہوں کہ وہ 11مئی کو گھر سے باہر نکلیں اور پتنگ پر مہر لگا کر اپنے مستقبل کومحفوظ بنائیں اور اپنے سماجی و سیاسی حقوق کو محفوظ بنائیں۔
اسے غیرت کے نام پر کاروکاری کرکے قتل کردیا جاتا ہے یا پھر اسے ونی کردیا جاتا ہے۔ اگر بس نہیں چلتا تو اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیاجاتا ہے۔ یہ وہ معاشرتی ناسور تھے جن پر کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ماضی میں نورپور میں خواتین کے ساتھ جو برہنہ کرنے کا سلوک کیا گیا، اس کی نظیر شاید زمانہ جاہلیت میں بھی دستیاب نہ تھی اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو اسلام کی خود ساختہ تشریح کرنے والوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کیے گئے۔
یہ تھا وہ پاکستان جسے حاصل کرنے والے ایک روشن خیال، اعتدال پسند ، راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ میرا اشارہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء کی جانب ہے۔ ان کے پاکستان میں خواتین کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا۔ اس ظلم کے خلاف اگر کسی نے آواز بلند کی تو اس قلندر صفت ہستی کو دنیا الطاف حسین کے نام سے جانتی ہے جس نے ببانگ دہل عورتوں کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ جہاں جہاں ظلم ہوا، اس نے اپنی صدا بلند کی۔ خواہ وہ کاروکاری ہو یا ونی ہو۔ خواتین پر تیزاب پھینکنے کا عمل ہو یا کسی بھی شعبہ زندگی میں خواتین کے حصے کا معاملہ ہو۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی کے تمام منشور جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور 2013ء کے انتخابات کے لیے بااختیار عوام کے نام سے جاری ہونے والے منشور میں بھی اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت تمام شعبہ زندگی میں خواتین کا حصہ 50فیصد کی سطح پر لایاجائے گا۔ قائد تحریک اپنے خطبات و تقاریر میں اس امر پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے۔ تاکہ وہ ناسور جو ہمارے قومی تشخص کو مجروح کررہے ہیں، انھیں ختم کیاجاسکے۔
ایم کیو ایم نے گھریلو تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے اور مسلسل اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا خواتین ونگ اس سلسلے میں ایک فعال کردار ادا کررہا ہے جو عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے جلسے جلوس ہوں، ریلیاں ہوں یا تنظیمی امور ، اس میں خواتین کا کردار قابل ستائش ہے۔ ایم کیو ایم کی خواتین قانون ساز بھی ایوانوں میں اور ایوانوں سے باہر اپنی ذمے داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے انتخابی منشور ہمیشہ تمام طبقہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ الطاف حسین یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی کا کوئی بھی عمل خواتین کی ترقی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جب تک ماں تربیت یافتہ و تعلیم یافتہ نہیں ہوگی، وہ قوم بھی تعلیم یافتہ نہیں ہوسکتی اور تعلیم کے بغیر ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ خواتین کے شعور کو بیدار کیاجائے ۔ جب کہ ملک کی کل آبادی کا نصف سے زائد یہ طبقہ اگر بیداری حاصل کر لے تو تبدیلی کے عمل کو کوئی نہیں روک سکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ کا یقین ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی عورت کو باشعور بنائے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ آج کراچی سے پشاور تک پاکستان جن مسائل سے دوچارہے، اس میں عورت کی پسماندگی کا بہت بڑا عمل دخل ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی اکائی گھر ہوتی ہے اور گھر کو عورت تعمیر کرتی ہے۔ عورت قوم کے مستقبل کی امین و محافظ ہے۔ وہ قوم کے مستقبل کو تعمیر کرنے والی ہے۔
اس سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے الطاف حسین نے تنظیمی ذمے داروں کو یہ ہدایت دی کہ ایک ایسا منشور ترتیب دیاجائے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کے حصے کو پچاس فیصد رکھا جائے ، تاکہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی آبادی کا نصف 11مئی 2013ء کو اپنے گھروں سے باہر نکلے اور اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
یہ امر تقریباً لازم ہے کہ جب تک یہ طبقہ آبادی شعور کے ساتھ اپنا کردار ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی اور جماعت اس طبقے کو حقیقی معنوں میں متحرک کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی لہٰذا میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو دعوتِ فکر دے رہی ہوں کہ وہ 11مئی کو گھر سے باہر نکلیں اور پتنگ پر مہر لگا کر اپنے مستقبل کومحفوظ بنائیں اور اپنے سماجی و سیاسی حقوق کو محفوظ بنائیں۔