سایہ دار درخت

آج پورے ملک میں سابقہ حکومت اور ان کے اتحادی نہایت پریشان اور خوف کے عالم میں ہیں.

لطیفے اور حادثات قوموں کی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ زندہ اور باشعور اقوام ان سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں، میری طرح بہت سے لوگ اپنی قومی ذمے داریوں سے اپنی لاچارگی اور بے بسی کا رونا رو کر اپنے ضمیرکو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ عمل غیر فطری ہوتا ہے، لہذا پھر ضمیر کے قیدی بن جاتے ہیں، مجھے وہ کردار ایسے موقع پر بہت شدت سے یاد آتا ہے جس میں ایک تیز طرار مالی سارے غلط کام کرکے اپنی ذمے داری اور الزام سے بچنے کے لیے نہایت سادگی سے کہہ دیتا تھا ''میں تو مالی آں'' اس مالی کے کردار اور اس جملے میں ہماری پوری قوم کا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔

ہم میں سے چاہے وہ عام آدمی ہو یا حکومتی اہلکار، ہر کام کرنے کے بعد صرف یہی جملہ کہہ کر یا محسوس کرکے ہر قسم کی جوابدہی سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ آج پورے ملک میں سابقہ حکومت اور ان کے اتحادی نہایت پریشان اور خوف کے عالم میں ہیں، وہ اپنی انتخابی مہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتے کیونکہ ایک قوت جو بظاہر نظر نہیں آتی اس مہم کے دوران نہایت قیمتی جانیں ضایع کرچکی ہے، جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے کیونکہ اگر سابقہ حکومت نے کچھ کام نہیں کیا تو انھیں سیاسی میدان میں ہی شکست دینی چاہیے تاکہ آیندہ آنے والی حکومت اور ان کے اتحادی ان کے انجام کو یاد رکھیں اور وطن عزیز میں جمہوری نظام چلتا رہے۔

وہ اپنی اس مشکل کا تمام تر ذمے دار نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کو ٹھہرا رہے ہیں۔ نگراں حکومت اپنے محدود وسائل اور اختیارات کا ذکر کر رہی ہے حالانکہ وہ تمام مراعات حاصل کررہی ہے جو ایک منتخب حکومت کو حاصل ہوتی ہیں، وہی پروٹوکول، مراعات، تنخواہیں اور سب کچھ، دوسرے لفظوں میں وہی جملہ کہہ رہے ہیں کہ ''میں تے مالی آں''۔ اب عام آدمی کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ یہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی تشکیل کس نے کی تھی؟ ظاہر ہے سابقہ حکومت اور ان کے اتحادیوں نے، مرکز میں اور باقی متاثرہ تینوں صوبوں میں جہاں کچھ اتحادی الیکشن سے چند دن پہلے سندھ اور بلوچستان میں اپوزیشن میں چلے گئے تھے کیونکہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے بعد نگراں حکومت کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی مرضی و منشا سے ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن بھی اسی ترتیب سے بنتا ہے۔

اب تک ان صوبوں کے گورنرز بھی انھی سیاسی جماعتوں کے ہیں۔ غرض وفاق اور تینوں متاثرہ صوبوں میں تقریباً تمام کا تمام اختیاری سیٹ اپ انھی متاثرہ جماعتوں کا ہے۔ اب قوم ان سے ایک مختصر سا سوال کرتی ہے کہ آپ جب حکومت میں تھے تب بھی دہشتگردی ہوتی تھی، بلوچستان میں 90 لاشوں کے ساتھ تاریخی احتجاج کیا گیا، کراچی میں روزانہ بے قصور قیمتی خون بہتا تھا، اغوا برائے تاوان، بھتہ، پرچی مافیا کھلے عام اسے کاروبار کی حیثیت دے چکے تھے، آپ سے جب اس وقت کہا جاتا تھا کہ اسے کنٹرول کرو، آپ بولتے تھے کچھ نہیں ہے، یہ لوگ آپس میں ذاتی دشمنیاں نکال رہے ہیں۔

وزیر داخلہ سندھ لیاری گینگ وار والوں کو اپنا بچہ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ جس دن حکومت ختم ہوئی وفاقی وزیر داخلہ نے تاریخی بیان دیا کہ ''میں ایک پرامن پاکستان چھوڑ کر جارہا ہوں'' لیکن چند دن بعد لوگوں نے اسی شخص کو سیکیورٹی کا شکوہ کرتے ہوئے دیکھا۔ پوری قوم کو ایسے بیان دے کر پہلے زخمی کیا اور پھر ششدر کردیا کہ ان لوگوں نے ہمارے لیے کیسی ریت کی دیواریں بنائی تھیں اور اب ان کے پاس ایک وہی جملہ ہے، بلکہ یہ آیندہ بھی الیکشن میں وہی ''مالی'' بننا چاہتے ہیں تاکہ پھر ہر کام دیگر ریاستی اداروں پر چھوڑ دیں اور وہ عوامی مفاد میں جو فیصلے کریں ان پر عمل کرنے کے بجائے اس کا مذاق اڑایا جائے۔


جب عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ بلوچستان حکومت انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوگئی ہے تو وفاقی حکومت نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ دلوایا، کراچی میں جب بدامنی، دہشتگردی اور لاقانونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت اس کا کوئی سدباب نہیں کررہی تھی بلکہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی تو عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کے ذریعے اسے کنٹرول کیا، اس وقت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آج شہر میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں تو ان کا جواب تھا ''ابھی تک 5 کا اسکور ہے'' اور متعلقہ محکموں کی جانب سے اسے کنٹرول کرنے کے لیے جو رپورٹس داخل کی گئیں انھیں عدالت نے جھوٹ پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ بلوچستان جیسا فیصلہ کراچی کے لیے بھی دینا پڑے گا۔

اس کے بعد بھی وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا سوائے اپنے آپ کو ''مالی'' قرار دینے کے، اور آج جب بالواسطہ یہ جماعتیں متاثر ہونے لگیں تو یک جان ہوگئیں ورنہ حکومتی دور میں جو ایک دوسرے کے خلاف کہا کرتی تھیں وہ بھی قوم کے سامنے ہیں، اگر اس وقت مٹھی مضبوط کرلیتے تو آج شاید یہ دن نہیں آتا۔ لیکن افسوس کل بھی عام آدمی ہی اپنی جان سے جاتا تھا اور آج بھی، جس کی وجہ سے پوری قوم ذہنی مریض بن چکی ہے اور آج بھی یہ ''مالی'' انھی پالیسیوں کو آیندہ بھی زندہ رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بس قوم نے انھیں دوبارہ ''مالی'' بننے کا نئے الیکشن میں موقع دینا ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، ڈرون حملے، لوٹ کھسوٹ، پانی، سی این جی، بجلی کا فقدان اور عام استعمال کی اشیا کا ناپید ہوجانا اس کے علاوہ ہے۔

غلامانہ ذہنیت کے لوگ آج بھی پرانے دور کی واپسی کے خواب دیکھ رہے ہیں تاکہ پھر وہی مزے ہوں، قوم چاہے کسی حال میں ہو۔ 61 سال کے دوران پاکستانی حکومت نے ساڑھے 6 ہزار ارب روپے کے قرض لیے جب کہ گزشتہ 5 سال میں سابقہ حکومت نے 8 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے۔ صرف 18 ہزار ارب روپے کی ریکارڈ کرپشن ہوئی، تعلیم کی بے توقیری اس کے علاوہ ہے، جہاںوزرا کو Ph.D کی ڈگری دی گئی۔

آج اگر قوم نے یہ سب کچھ اور بہت کچھ جو پہلے بھی اس کے علم میں ہے، اپنے ذہن میں نہیں رکھا اور اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال نہیں کیا اور مصلحتوں کا شکار رہی اور اپنی قومیت، لسانیت، علاقائیت، مسلک، مذہب، سیاسی وابستگی، رشتے داری کو اہمیت دی تو یقیناً وہ خود کہہ رہے ہوں گے کہ ''میں تے مالی آں'' اور پھر یہی کچھ دوبارہ ان کے مقدر میں لکھ دیا جائے گا اور پھر یہی کچھ دیکھنے، کڑھنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ کسی میں بھی نہیں ہوگا اور انھیں کہیں سایہ نہ ملے گا۔ شاید آنے والی نسل ان کے بارے میں یہ کہے؎

شجر تمام تو اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹ دیے
عجیب شخص ہے سایہ تلاش کرتا ہے
Load Next Story