انتخابات 2013 کے دلچسپ اور تاریخ ساز ہونے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار رہا
تمام چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کی تشہیر اوردوسرے کیخلاف پروپیگنڈہ کیلیے فیس بک اور ٹوئٹر...
انتخابات2013کے انتہائی دلچسپ اور تاریخ ساز ہونے میں سوشل میڈیا کا ایک اہم کردار رہا، تمام چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کی تشہیر کے لیے،نوجوان نسل میںاپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے اور دوسری سیا سی جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیلیے فیس بک پیج اور ٹوئٹر ہینڈل بنا رکھے ہیں بلکہ اس کا موثر استعمال بھی کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ نئی نسل انٹرنیٹ کے ذریعے 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور کامیابی کا سروے بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہوئے سرگرم نظر آرہی ہے، مزید یہ کہ پڑھے لکھے حضرات سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی رائے دہی سے متعلق بالکل آزاد ہوتے ہیں، وہ بلا خوف وخطر دوسروں کی رائے کو اپنی رائے میں تبدیل کرنے کیلیے بھی پرجوش ہیں، سوشل میڈیا میں بطورخاص فیس بک پر نوجوان طبقہ انتخابی مہم سے متعلق دلچسپ اور طنزومزاح سے بھرپور پوسٹرز شیئرز کرتے نظر آئے اور ان پوسٹرز سے متعلق منفی اور مثبت commentsپڑھنے کے قابل ہوتے ہیں جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے امیدوار باشعور لوگوں سے اپنے متعلق رائے کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ پڑھا لکھا مڈل کلاس طبقہ جو پہلے سیاسی عمل میں شریک نہیں تھالیکن اب سوشل میڈیا نے اسے اپنی سیاسی آرا کا اظہار کرنے کی آسانی فراہم کردی جس کے باعث لوگوں کی رائے عامہ کی تشکیل میں مدد فراہم ہوئی ہے، انتخابات کے حوالے سے سوشل میڈیا میں فیس بک اور ٹوئیٹر بہت اہمیت کے حامل ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً80لاکھ فیس بک استعمال کرنے والے ہیں جبکہ5لاکھ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 13.5 فیصد پاکستانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے جن کی تعداد تقریباً ڈھائی کروڑ بنتی ہے، ایم کیوایم اور تحریک انصاف نے کراچی میں ان دونوں سوشل میڈیا نیٹ ورک کو اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر نہ صرف بھرپور انداز میںاختیار کیا بلکہ استعمال بھی کیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2006 میں سوشل میڈیا سیل کی بنیاد رکھی، اس سیل کی ایک رکن نویدہ سلطان نے بتایا کہ اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ اس وقت میڈیا پی ٹی آئی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا، باقی پارٹیوں کی غیر اہم سرگرمیوں کو بھی کوریج ملتی تھی جبکہ ہمارے بڑے سے بڑے ایونٹ کو نظر انداز کیا جاتا تھا اسی لیے ہم نے متبادل ذرائع استعمال کرنا شروع کیے، ہم نے فیس بک پیج اور ٹوئیٹر ہینڈل بنائیں اور انھیں باقاعدگی سے استعمال کیا،جس کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی شکل میں ظاہر ہورہی ہے۔
اب سوشل میڈیا کے دور میں سیاست دان صرف انفرادی طور پر فیس بک یا ٹوئیٹر استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے اپنی اپنی جماعتوں کا پروپیگنڈہ اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں یہ وسیلہ اور بھی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں کانٹے کا مقابلہ ظاہر ہو رہا ہے اب یہ تو الیکشن کے بعد معلوم ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، حقیقت میں فیس بک اور ٹوئیٹر پاکستانی ووٹروں کی اصل عکاسی تو نہیں کرتے لیکن جب مقابلہ کانٹے کا ہو تو ایک ایک ووٹ بھی اہم ہوجاتا ہے، آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاست دانوں کی نئی نسل کے علاوہ اب بہت سے روایتی سیاست دانوں نے بھی سوشل میڈیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ نئی نسل انٹرنیٹ کے ذریعے 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور کامیابی کا سروے بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہوئے سرگرم نظر آرہی ہے، مزید یہ کہ پڑھے لکھے حضرات سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی رائے دہی سے متعلق بالکل آزاد ہوتے ہیں، وہ بلا خوف وخطر دوسروں کی رائے کو اپنی رائے میں تبدیل کرنے کیلیے بھی پرجوش ہیں، سوشل میڈیا میں بطورخاص فیس بک پر نوجوان طبقہ انتخابی مہم سے متعلق دلچسپ اور طنزومزاح سے بھرپور پوسٹرز شیئرز کرتے نظر آئے اور ان پوسٹرز سے متعلق منفی اور مثبت commentsپڑھنے کے قابل ہوتے ہیں جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے امیدوار باشعور لوگوں سے اپنے متعلق رائے کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ پڑھا لکھا مڈل کلاس طبقہ جو پہلے سیاسی عمل میں شریک نہیں تھالیکن اب سوشل میڈیا نے اسے اپنی سیاسی آرا کا اظہار کرنے کی آسانی فراہم کردی جس کے باعث لوگوں کی رائے عامہ کی تشکیل میں مدد فراہم ہوئی ہے، انتخابات کے حوالے سے سوشل میڈیا میں فیس بک اور ٹوئیٹر بہت اہمیت کے حامل ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً80لاکھ فیس بک استعمال کرنے والے ہیں جبکہ5لاکھ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 13.5 فیصد پاکستانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے جن کی تعداد تقریباً ڈھائی کروڑ بنتی ہے، ایم کیوایم اور تحریک انصاف نے کراچی میں ان دونوں سوشل میڈیا نیٹ ورک کو اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر نہ صرف بھرپور انداز میںاختیار کیا بلکہ استعمال بھی کیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2006 میں سوشل میڈیا سیل کی بنیاد رکھی، اس سیل کی ایک رکن نویدہ سلطان نے بتایا کہ اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ اس وقت میڈیا پی ٹی آئی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا، باقی پارٹیوں کی غیر اہم سرگرمیوں کو بھی کوریج ملتی تھی جبکہ ہمارے بڑے سے بڑے ایونٹ کو نظر انداز کیا جاتا تھا اسی لیے ہم نے متبادل ذرائع استعمال کرنا شروع کیے، ہم نے فیس بک پیج اور ٹوئیٹر ہینڈل بنائیں اور انھیں باقاعدگی سے استعمال کیا،جس کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی شکل میں ظاہر ہورہی ہے۔
اب سوشل میڈیا کے دور میں سیاست دان صرف انفرادی طور پر فیس بک یا ٹوئیٹر استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے اپنی اپنی جماعتوں کا پروپیگنڈہ اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں یہ وسیلہ اور بھی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں کانٹے کا مقابلہ ظاہر ہو رہا ہے اب یہ تو الیکشن کے بعد معلوم ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، حقیقت میں فیس بک اور ٹوئیٹر پاکستانی ووٹروں کی اصل عکاسی تو نہیں کرتے لیکن جب مقابلہ کانٹے کا ہو تو ایک ایک ووٹ بھی اہم ہوجاتا ہے، آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاست دانوں کی نئی نسل کے علاوہ اب بہت سے روایتی سیاست دانوں نے بھی سوشل میڈیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔