موجودہ انتخابات میں تبدیلی کانعرہ سب سے حاوی رہا
مرکزاور3صوبوںمیںپرانی پوزیشن، پختونخوا میں مذہبی جماعتوںکی حکومت خارج ازامکان نہیں
موجودہ انتخابات میں تبدیلی کانعرہ سب سے حاوی رہالیکن رجحان سے یہ دکھائی دیتاہے کہ سیاسی جماعتوں کے ووٹ بنک میںتوکسی حد تک تبدیلی کاامکان ہے تاہم امیدواروںکی فتح وشکست کے حوالے سے کوئی اہم تبدیلی نظرنہیں آتی۔
بظاہریہی لگ رہاہے کہ ماضی کاحکومتی اتحادکچھ سیٹوںکی کمی بیشی کیساتھ دوبارہ مرکزی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔صوبوں میں بھی قریباً ایسی ہی صورتحال ہو گی۔البتہ خیبر پختونخوامیں بوجوہ مذہبی جماعتوںکی حکومت قائم ہو نے کے امکان کوردنہیںکیاجا سکتا۔ عمران خان کی انتخابی مہم نے خصو صاً تمام سیاسی پنڈتوں کو چکراکررکھ دیاہے اسی پس منظرمیںغالباً تمام سیاسی تجزیہ نگار انتخابی نتائج کے حوالے سے پیش گوئی سے کترارہے ہیں۔
الیکشن میںڈالے جانیوالے ووٹوںکی تعدادمیںکمی بیشی کے حوالے سے بھی دلچسپ انداز ے اورنتائج اخذکئے جا رہے ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی صف بندی اور حلقے کی سیاست کے ایک عمومی جائزے سے بہت حدتک حقیقت سے قریب اندازہ لگانے میںکوئی دشواری نہیںہونی چاہئے۔ پنجاب اورہزارہ میںمسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف نے بھرپورانتخابی مہم چلائی جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے انتخابی جلسوںکی عدم موجودگی اورمرکزی قائدین کی عدم راہنمائی کی وجہ سے اپنے حلقوںمیںخودہی تمام ذمے داری سنبھال رکھی تھی۔پاکستان کی انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی کاووٹر صرف1997کے انتخابات میںخاموش رہاتھاجسکانتیجہ پیپلزپارٹی کی بدترین شکست کی صورت میںنکلا۔
بظاہریہی لگ رہاہے کہ ماضی کاحکومتی اتحادکچھ سیٹوںکی کمی بیشی کیساتھ دوبارہ مرکزی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔صوبوں میں بھی قریباً ایسی ہی صورتحال ہو گی۔البتہ خیبر پختونخوامیں بوجوہ مذہبی جماعتوںکی حکومت قائم ہو نے کے امکان کوردنہیںکیاجا سکتا۔ عمران خان کی انتخابی مہم نے خصو صاً تمام سیاسی پنڈتوں کو چکراکررکھ دیاہے اسی پس منظرمیںغالباً تمام سیاسی تجزیہ نگار انتخابی نتائج کے حوالے سے پیش گوئی سے کترارہے ہیں۔
الیکشن میںڈالے جانیوالے ووٹوںکی تعدادمیںکمی بیشی کے حوالے سے بھی دلچسپ انداز ے اورنتائج اخذکئے جا رہے ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی صف بندی اور حلقے کی سیاست کے ایک عمومی جائزے سے بہت حدتک حقیقت سے قریب اندازہ لگانے میںکوئی دشواری نہیںہونی چاہئے۔ پنجاب اورہزارہ میںمسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف نے بھرپورانتخابی مہم چلائی جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے انتخابی جلسوںکی عدم موجودگی اورمرکزی قائدین کی عدم راہنمائی کی وجہ سے اپنے حلقوںمیںخودہی تمام ذمے داری سنبھال رکھی تھی۔پاکستان کی انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی کاووٹر صرف1997کے انتخابات میںخاموش رہاتھاجسکانتیجہ پیپلزپارٹی کی بدترین شکست کی صورت میںنکلا۔