ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک

سزائے قید قبول کرنے کے جرأت مندانہ فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کو ایک نیا بھٹو بھی قرار دیا جانے لگا ہے

نااہلی، مقدمات، گرفتاری اور سزائے قید جیسے فیصلوں نے میاں نواز شریف کو دوسرا ذوالفقار علی بھٹو بنا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کہنے والے کہتے ہیں کہ جس طرح سمندر دوبارہ اپنی پرانی منزل کی جانب لوٹ کر آتا ہے، ٹھیک اسی طرح تاریخ بھی اپنے آپ کو دوہراتی ہے۔ یہ بات کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ پاکستان میں جس طرح آج سے 39 برس قبل ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو سازش کے تانے بانے بُنے گئے، ٹھیک اسی طرح کی سازش، نااہل قرار دیئے گئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف بھی کی گئی جس کے تحت وہ ان دنوں اڈیالہ جیل میں ایون فیلڈ ریفرنس میں گیارہ سالہ قید بامشقت، ان کی صاحبزادی مر یم نواز 8 سال جبکہ داماد کیپٹن صفدر 1 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اس طرح یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے جس کے تحت ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا باب بند کر دیا گیا تو اب 39 برس بعد طویل قید کے ذریعے ملک کو ایک معتبر سیاستداں سے محروم کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔

جس طرح ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے میں فوج اور عدلیہ ملوث تھی، ٹھیک آج بھی اس میں کم و بیش یہی ادارے ملوث نظر آتے ہیں۔ بالآخر دونوں وزرائے اعظم سے کونسی ایسی خطائیں سرزد ہوئیں جس کی بنیاد پر انہیں عوام سے دور بلکہ بہت دور کردیا گیا۔ اگر اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکو مت کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس عظیم مرتبت شخص نے اپنی سحرانگیز اور کرشماتی شخصیت ہونے کی بنیاد پر عوام کے دلوں میں گھر کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عوام انہیں ووٹوں کے ذریعے مسند اقتدار پر لائی اور اس نے بھی عوام سے بے وفائی نہیں کی بلکہ بطور وزیراعظم ملک کے اندر ایک انقلاب برپا کرتے ہوئے ملک کے پسے ہوئے طبقات مزدور، کسان، دہقان کو قوت گویائی دینے کے ساتھ ساتھ حق لینے کا سلیقہ بھی سکھایا۔

صرف یہی نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں کے اس تارے نے ملک میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر تمام اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کی بات کی۔ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کی دو سپر طاقتوں یعنی سوویت یونین اور امریکا کے مدمقابل اسلامی سپرپاور کو کھڑا کرنے کیلئے کوششیں کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی بینک کے قیام کی باتیں بھی کیں جبکہ ملک کے اندر بھی ایک صنعتی انقلاب برپا کیا اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت وہ بے شمار منصوبے دیئے جن کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچا۔ اس عظیم شخصیت کی بہترین خارجہ پا لیسی کے تحت پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری آئی اور نہ صرف دنیا بھر کے ممالک پاکستان کے ساتھ تجارت کرنے لگے بلکہ اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں روزگار بھی پاکستانی قوم کو نصیب ہوا۔

یہ اسی دور کی بات ہے جب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد جو ملک میں رو زگار نہ ہو نے کے سبب نانِ شبینہ تک سے محروم تھے، نہ صرف دبئی بلکہ دوسرے ممالک تک گئے جس سے ملک کے زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ غربت کی زندگی گزارنے والے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا۔ غالباً یہی وہ باتیں تھیں جو بین الاقوامی طاقتوں کو پسند نہیں آئیں اور انہوں نے سازشوں کے تانے بانے بُننے شروع کردیئے اور بالآخر ایک فو جی جنرل ضیاء الحق کے ذریعے ایک جمہوری حکومت پر شبخون مار کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پابندِ سلاسل کرنے کے بعد عدلیہ کے ذریعے ایک فیصلے کے تحت پھانسی دے کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے سنہرے باب کو بند کردیا گیا۔

اس پھانسی کے حوالے سے بعد میں یہ انکشافات بھی آئے کہ یہ سزا کسی طور پر درست نہیں تھی بلکہ یہ ایک سازش کا حصہ تھی۔


اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی کئی حکومتیں یکے بعد دیگر قائم ہوئیں جنہیں سازش کے ذریعے ختم کیا جاتا رہا۔ مگر 39 سال بعد ان ہی اداروں کے ذریعے نوازشریف کو الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کرکے تیسری بار اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ نواز شریف بھی بھٹو کی طرح ملک گیر سیاست کے حامی تھے کیونکہ انہوں نے بجائے پو رے ملک و عوام کے، صوبہ پنجاب کی زیادہ خد مت کی اور صرف ایک صوبے کو ترقی و خوشحالی سے نوازا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی صورت میں ملک میں ایک جمہوری حکو مت قائم تھی جسے نہ صرف ختم کردیا گیا بلکہ طویل عرصے تک انہیں اور ان کے خاندان کو عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا رکھا گیا۔ بالآخر ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں گیارہ سال، ان کی صاحبزادی مر یم نواز کو 8 سال اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو ایک سال کی سزائے قید سنادی گئی۔

ظاہر سی بات ہے کہ عدالتوں سے ان سزاؤں کو جو نواز خاندان کو کرپشن کی بنیاد پر دی گئیں کسی طور غلط تو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ یہ ایک سازش تھی۔ اس سلسلے میں ایک عام تاثر یہی تھا کہ نواز شریف ماضی کی طرح ایک بار پھر معافی مانگ کر سمجھوتے کے تحت لندن میں اپنے قیام کو بڑھادیں گے لیکن تمام قیاس آرائیاں اس وقت دم توڑ گئیں جب میاں صاحب کے داماد کیپٹن صفدر نے باقاعدہ طور پر ازخود اپنی گرفتاری پیش کردی جبکہ اس کے چند روز بعد ہی نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ گرفتاری دینے کیلئے وطن واپس پہنچ گئے اور آخرکار انہیں گرفتار کرکے اڈیا لہ جیل منتقل کرد یا گیا جہاں وہ اس وقت قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔

ان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر ایک عام خیال یہ ہے کہ 39 سال بعد ملک کے اندر ایک اور بھٹو پیدا ہوچکا ہے جو بھٹو کی طرح ہی ملک کے اندر ایک ایسی انقلابی سیاست کو جنم دے گا جو اداروں کی سرپرستی کے بغیر ہوگی۔

اس حوالے سے ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے بھی مستند سیاستداں بننے کی پیش گوئیاں جاری ہیں جبکہ ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں ماہرین اور مبصرین کا دعوی ہے کہ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار نہ صرف بھرپور انداز سے کامیاب ہوں گے بلکہ سیاسی اتحاد کے ذریعے مسلم لیگ ن ایک بار پھر ملک میں حکومت بنائے گی جبکہ باوجود سازشوں اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے، انہیں پنجاب میں حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی اور ان کی قربانی کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے متعدد بار اقتدار حاصل کیا، تو کیا اسی طرح نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کی قربانیوں کے نتیجے میں مسلم لیگ ن بھی ملک میں کئی ایک بار اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے عوام کی آواز بنتی رہے گی یا نہیں۔

اس سلسلے میں سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی جغادریوں کا اب تک دعوی یہی ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے ساتھ اسے اس کے خاندان کے ہمراہ سزائے قید دینے کے بعد، اس پورے عمل میں ملوث ملکی اداروں کا مورال ڈاؤن ہوگا جبکہ اس اقدام سے پاکستان مسلم لیگ ن، جو صرف پنجاب تک محدود تھی، اب ملک بھر میں ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story