اب کیا ہوگا
قرین قیاس یہ ہے کہ نوازشریف کاہدف جلد ازجلد قید سے رہائی ہے۔ ساتھ ہی وہ مریم نوازکواہم ترین کردار دینا چاہتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ممکنہ شکست سے دو چار ہو سکتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی یہ خراب حالت اس کی اپنی پیداکردہ ہے جب وہ برسراقتدار تھے وہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کے بجائے یہ کہتے رہے کہ ادارے ان کے مخالف ہوگئے۔
یہ بات کسی بھی برسراقتدار جماعت کے لیے قطعی نامناسب تھی برسراقتدار جماعت کا اس بات کا علانیہ اظہار اپنی ناکامی کا اعتراف ہے اس طرح یہ ایک بڑی غلطی تھی، اگر وہ اس وقت اقتدارسے علیحدہ ہوکر یہ بات واضح ثبوت کے ساتھ سامنے لاتے تو انھیں شایدکسی حد تک پذیرائی مل سکتی تھی۔ اقتدار جانے کے بعد جب جنوبی پنجاب کے بعض رہنما مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ گئے تواس وقت بھی وہ زعم میں رہے اور دو تہائی اکثریت کے خواب سجاتے رہے ۔
حالانکہ جنوبی پنجاب ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن محاذ آرائی کی پالیسی میں کمی نہ ہوئی اور یہ باورکرانے لگے کہ انتظامیہ ان کے مخالفین کے ساتھ مل گئی ۔اس تاثر کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا اور مزید لوگ اس سے جاملے ۔ اب کیفیت یہ ہے کہ ہرروز مسلم لیگ (ن) اپنی قوت کھوتی جارہی ہے ۔ نوازشریف کی گرفتاری کے موقعے پر ان کے منشور نے انھیں اندرونی اور بیرونی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ اندرونی انتشار اس قدر بڑھ رہا ہے کہ جو لوگ کامیاب ہوں گے وہ بھی نئی راہیں تلاش کریں گے۔ کامیاب ہونے والے محاذ آرائی کے ساتھ نہیں چل سکیں گے جو تصویر انتخابات کے نتائج کے لیے سامنے آرہی ہے اس میں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات پر بیشتر تجزیہ نگار رائے زنی کررہے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن) مخمصے کا شکار ہے ۔ ایک حلقہ اس بات پر زور دے رہاہے کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیاجائے جس میں محاذ آرائی سے گریزکیاجائے۔ افواہیں گردش میں ہیں کہ جلد ہی کسی سمجھوتے کے نتیجے میں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم رہا ہو سکتے ہیں ۔ قانونی طورپر اس کا ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے کہ وہ معافی کی درخواست دیں اور وزیراعظم اسے صدر مملکت کو بھیج دیں اور صدر اس سزا کو ختم کردیں لیکن باقی ماندہ مسلم لیگی قیادت کو انتخابات سے قبل اس طرح کاکوئی سمجھوتہ قبول نہیں ہوگا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نگران حکومت کی جانب سے مسلم لیگی قیادت کو شاید یہ باور کرایاجائے گا کہ انتخابات کے بعد ایسا کوئی قدم نہ اٹھایاجائے جس سے عدم استحکام پیدا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد روز بروز نوازشریف سے دور ہوتی جارہے ہیں ۔
قرین قیاس یہ ہے کہ نوازشریف کاہدف جلد ازجلد قید سے رہائی ہے۔ ساتھ ہی وہ مریم نوازکواہم ترین کردار دینا چاہتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس مقدمے سے فارغ ہوں یا کم از کم انھیں ضمانت پر رہائی ملے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک دوسرا حلقہ خطرہ تصورکرتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں جو انتہائی مشکل اور خود کومصائب میں مبتلا رکھنے کا طویل راستہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ خود بے نظیر بھٹو بھی مفاہمت کے راستے تلاش کرتی تھیں اور آخر میں تو وہ مفاہمت کی سیاست کو پوری طرح اپنا چکی تھیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اسی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں ۔اب انتخابات ہورہے ہیں نتیجے میں اگر ایک مخلوط حکومت بن جاتی تو اس میں مسلم لیگ (ن) کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا اوروہ اقتدارسے باہر رہے گی ۔اگر پنجاب کے اراکین اسمبلی اقتدار کی طرف آگے بڑھتے ہیں تویہ صورت حال مسلم لیگ (ن)کے لیے مزید تباہ کن ہوگی اوروہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی ۔ اب مسلم لیگ (ن) کو اپنا راستہ تلاش کرنا ہے۔
جب انتخابات کا عمل ختم ہوجائے گا تو انھیں سوچنا ہوگا کہ وہ اس حال کوکس وجہ سے پہنچے ۔ یہ حالات پناما پیپرز کے منظر عام پر آنے سے شروع ہوئے تھے، اس وقت ان کے بعض ساتھیوں اور پیپلز پارٹی نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کچھ وقت کے لیے پیچھے ہٹ جائیں اورایک قابل قبول فارمولا تلاش کریں ۔اگر اس وقت یہ بات تسلیم کرلی جاتی تو شاید تاحیات نااہلی سے بچ جاتے اور اس وقت وہ اپنی انتخابی مہم بھی زور شور سے چلاسکتے تھے ۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں تقریرکی اور اعتراف کیا کہ لندن فلیٹ ہمارے ہیں اور یہ وہ ہیںذرایع جس سے فلیٹ خریدے گئے '' ۔ اور اس سلسلے میں عدالت میں جانے کا اعلان کردیا۔نتیجہ یہ ہواکہ معاملے کو خود عدالت تک پہنچادیا۔ پھر وہ ان لندن فلیٹس کی رسید نہ پیش کرسکے ۔
بالا آخر تحقیقات شروع ہوئی اور وہ تاحیات نااہل ہوگئے ۔ اس معاملے میں مریم نواز کو بھی خود شامل کردیا۔ جب کہ اپنے دونوں بیٹوں کو یہ کہہ کر علیحدہ کردیا کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں ۔ مریم نواز کو موجودہ انتخابات میں وہ وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ وہ بھی خود اپنی غلطی کے نتیجے میں سزا یافتہ ہوچکی ہیں اور مزید دس سال کے لیے نااہل ہیں اب بھی مریم نواز کو تسلی دی جا رہی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مقدمے میں بھی کامیابی ہوگی اور کسی ایک نشست کو خالی کرکے انھیں منتخب کرایاجائے گا اور وہ ملک کی وزیراعظم ہونگی ، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
اگر انھیں ضمانت مل بھی گئی تو اس میں بھی وقت لگے گا اور مقدمے کے خاتمے میں بھی ایک طویل وقت لگ سکتا ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے ۔ لہذا آنے والا وقت بھی فی الحال خود مسلم لیگ کے لیے ساز گار نہیں ہے ۔
یہ بات کسی بھی برسراقتدار جماعت کے لیے قطعی نامناسب تھی برسراقتدار جماعت کا اس بات کا علانیہ اظہار اپنی ناکامی کا اعتراف ہے اس طرح یہ ایک بڑی غلطی تھی، اگر وہ اس وقت اقتدارسے علیحدہ ہوکر یہ بات واضح ثبوت کے ساتھ سامنے لاتے تو انھیں شایدکسی حد تک پذیرائی مل سکتی تھی۔ اقتدار جانے کے بعد جب جنوبی پنجاب کے بعض رہنما مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ گئے تواس وقت بھی وہ زعم میں رہے اور دو تہائی اکثریت کے خواب سجاتے رہے ۔
حالانکہ جنوبی پنجاب ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن محاذ آرائی کی پالیسی میں کمی نہ ہوئی اور یہ باورکرانے لگے کہ انتظامیہ ان کے مخالفین کے ساتھ مل گئی ۔اس تاثر کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا اور مزید لوگ اس سے جاملے ۔ اب کیفیت یہ ہے کہ ہرروز مسلم لیگ (ن) اپنی قوت کھوتی جارہی ہے ۔ نوازشریف کی گرفتاری کے موقعے پر ان کے منشور نے انھیں اندرونی اور بیرونی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ اندرونی انتشار اس قدر بڑھ رہا ہے کہ جو لوگ کامیاب ہوں گے وہ بھی نئی راہیں تلاش کریں گے۔ کامیاب ہونے والے محاذ آرائی کے ساتھ نہیں چل سکیں گے جو تصویر انتخابات کے نتائج کے لیے سامنے آرہی ہے اس میں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات پر بیشتر تجزیہ نگار رائے زنی کررہے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن) مخمصے کا شکار ہے ۔ ایک حلقہ اس بات پر زور دے رہاہے کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیاجائے جس میں محاذ آرائی سے گریزکیاجائے۔ افواہیں گردش میں ہیں کہ جلد ہی کسی سمجھوتے کے نتیجے میں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم رہا ہو سکتے ہیں ۔ قانونی طورپر اس کا ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے کہ وہ معافی کی درخواست دیں اور وزیراعظم اسے صدر مملکت کو بھیج دیں اور صدر اس سزا کو ختم کردیں لیکن باقی ماندہ مسلم لیگی قیادت کو انتخابات سے قبل اس طرح کاکوئی سمجھوتہ قبول نہیں ہوگا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نگران حکومت کی جانب سے مسلم لیگی قیادت کو شاید یہ باور کرایاجائے گا کہ انتخابات کے بعد ایسا کوئی قدم نہ اٹھایاجائے جس سے عدم استحکام پیدا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد روز بروز نوازشریف سے دور ہوتی جارہے ہیں ۔
قرین قیاس یہ ہے کہ نوازشریف کاہدف جلد ازجلد قید سے رہائی ہے۔ ساتھ ہی وہ مریم نوازکواہم ترین کردار دینا چاہتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس مقدمے سے فارغ ہوں یا کم از کم انھیں ضمانت پر رہائی ملے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک دوسرا حلقہ خطرہ تصورکرتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں جو انتہائی مشکل اور خود کومصائب میں مبتلا رکھنے کا طویل راستہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ خود بے نظیر بھٹو بھی مفاہمت کے راستے تلاش کرتی تھیں اور آخر میں تو وہ مفاہمت کی سیاست کو پوری طرح اپنا چکی تھیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اسی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں ۔اب انتخابات ہورہے ہیں نتیجے میں اگر ایک مخلوط حکومت بن جاتی تو اس میں مسلم لیگ (ن) کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا اوروہ اقتدارسے باہر رہے گی ۔اگر پنجاب کے اراکین اسمبلی اقتدار کی طرف آگے بڑھتے ہیں تویہ صورت حال مسلم لیگ (ن)کے لیے مزید تباہ کن ہوگی اوروہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی ۔ اب مسلم لیگ (ن) کو اپنا راستہ تلاش کرنا ہے۔
جب انتخابات کا عمل ختم ہوجائے گا تو انھیں سوچنا ہوگا کہ وہ اس حال کوکس وجہ سے پہنچے ۔ یہ حالات پناما پیپرز کے منظر عام پر آنے سے شروع ہوئے تھے، اس وقت ان کے بعض ساتھیوں اور پیپلز پارٹی نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کچھ وقت کے لیے پیچھے ہٹ جائیں اورایک قابل قبول فارمولا تلاش کریں ۔اگر اس وقت یہ بات تسلیم کرلی جاتی تو شاید تاحیات نااہلی سے بچ جاتے اور اس وقت وہ اپنی انتخابی مہم بھی زور شور سے چلاسکتے تھے ۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں تقریرکی اور اعتراف کیا کہ لندن فلیٹ ہمارے ہیں اور یہ وہ ہیںذرایع جس سے فلیٹ خریدے گئے '' ۔ اور اس سلسلے میں عدالت میں جانے کا اعلان کردیا۔نتیجہ یہ ہواکہ معاملے کو خود عدالت تک پہنچادیا۔ پھر وہ ان لندن فلیٹس کی رسید نہ پیش کرسکے ۔
بالا آخر تحقیقات شروع ہوئی اور وہ تاحیات نااہل ہوگئے ۔ اس معاملے میں مریم نواز کو بھی خود شامل کردیا۔ جب کہ اپنے دونوں بیٹوں کو یہ کہہ کر علیحدہ کردیا کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں ۔ مریم نواز کو موجودہ انتخابات میں وہ وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ وہ بھی خود اپنی غلطی کے نتیجے میں سزا یافتہ ہوچکی ہیں اور مزید دس سال کے لیے نااہل ہیں اب بھی مریم نواز کو تسلی دی جا رہی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مقدمے میں بھی کامیابی ہوگی اور کسی ایک نشست کو خالی کرکے انھیں منتخب کرایاجائے گا اور وہ ملک کی وزیراعظم ہونگی ، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
اگر انھیں ضمانت مل بھی گئی تو اس میں بھی وقت لگے گا اور مقدمے کے خاتمے میں بھی ایک طویل وقت لگ سکتا ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے ۔ لہذا آنے والا وقت بھی فی الحال خود مسلم لیگ کے لیے ساز گار نہیں ہے ۔