نف جسمی امراض
خالد جاوید بہاول نگر سے رقم طراز ہیں ’’آپ کی نگرانی میں تنفس نور کی مشق کر رہا ہوں۔
لاہور:
کل کے تھکادینے والے اور پرخطر دن کے بعد ہم نے یہی بہتر سمجھا کہ آج کا کالم ہلکے پھلکے انداز میں تحریر کیا جائے۔ ویسے بھی قارئین کل کے ڈپریشن بھرے دن کے بعد اپنا ووٹ ڈال کر فارغ ہوئے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ نئی بننے والی حکومت عوام کی شکایات کا مداوا کرے گی۔
ہمارے بہت سے قارئین نے فرمائش کی ہے کہ انھیں رئیس امروہوی کی کتابیں بازار میں دستیاب نہیں ہیں اس لیے ہم یہ کتابیں انھیں ارسال کردیں لیکن یہ چونکہ ممکن نہیں ہے، رئیس امروہوی مرحوم کی نفسیات وما بعد نفسیات اور دیگر روحانی علوم سے متعلق کتابیں رئیس اکاڈیمی کے تحت 70ء کی دہائی میں شائع ہوئی تھیں جن کے بعد ازاں کئی ایڈیشن مارکیٹ میں آئے۔ علم میں آیا ہے کہ ان کی صاحبزادی رئیس مرحوم کی کتابوں کو نئے انداز سے شائع کروانے کا عزم رکھتی ہیں، ان کتابوں کی اشاعت کے بعد یہ قارئین کے لیے بازار میں دستیاب ہوں گی تب تک ہم رئیس صاحب کی کتابوں سے مختلف اقتباسات نذر قارئین کرتے رہیں گے تاکہ آپ کی تشفی رہے۔ اور اب بات ہوجائے مشق تنفس نور کے حوالے سے کچھ قارئین کے تجربات کی۔
خالد جاوید بہاول نگر سے رقم طراز ہیں ''آپ کی نگرانی میں تنفس نور کی مشق کر رہا ہوں۔ ان مشقوں سے مجھے ایسا سکون اور ٹھہراؤ ملا ہے کہ بیان نہیں کرسکتا، مثلاً جلد بازی ختم ہوگئی ہے، سنجیدگی اور احتیاط غالب آرہی ہے، ہر کام بڑے اطمینان سے کرتا ہوں، دماغ میں پہلے کی طرح ہلچل نہیں ہے، برے خیال آنے کم ہوگئے ہیں تاہم اب بھی ''انتشار توجہ'' کی شکایت موجود ہے، یعنی سکون قلب کے باوجود آج بھی دیر تک توجہ کسی ایک پوائنٹ کی طرف مبذول نہیں کرسکتا، مطالعہ شروع کرنے کے کچھ دیر بعد ادھر ادھر کے خیالات ہلہ بول دیتے ہیں، کچھ دیر یہ کیفیت طاری رہتی ہے پھر سکون قلب اور خود اعتمادی لوٹ آتی ہے۔'' اسی طرح راولپنڈی سے سی ایچ اکرم کا بیان ہے کہ: ''تنفس نور اور خود نویسی سے خود اعتمادی میں کافی اضافہ ہوا ہے، جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، وہ بجائے خود سب سے بڑا انعام ہیں۔
اب سے پہلے مجھے نہ اپنے پر اعتماد تھا نہ دوسروں پر۔ آہ! بے اعتمادی کے ساتھ زندگی بسر کرنا موت سے بدتر ہے۔ آدمی کسی نہ کسی سہارے بسر کرتا ہے لیکن اگر کوئی سہارا ہی باقی نہ رہے تو؟ بے اعتمادی کی زندگی بہت عذاب ہے۔ اب اندر سے خود اعتمادی ابھر رہی ہے، اضطراب قلب میں کمی ہے۔ مشق کرنے کے بعد خود کو بلند حوصلہ اور پراعتماد محسوس کرتا ہوں۔ وہم کم ہو رہے ہیں، یقین پیدا ہو رہا ہے۔ بظاہر اپنے نفس پر اتنا قابو پاچکا ہوں کہ عشق کے حادثات ہوں یا عقل کے معاملات! میں دونوں منزلوں سے حقیقت پسندانہ گزر جاتا ہوں۔ پہلے فیصلہ کرنے کی استعداد دبی ہوئی تھی، ہر قدم پس و پیش کا عالم طاری رہتا تھا، اب کوئی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔''
محمد صدیق آرائیں نے اپنے خط میں اعتراف کیا ہے کہ: ''توجہ میں یکسوئی پیدا ہوئی، دل بھی پرسکون ہے، دماغ بھی۔ جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں دل فریب مناظر سامنے آجاتے ہیں اور میں ان مناظر میں کھو کر کچھ دیر کے لیے دنیا اور غم دنیا کو فراموش کردیتا ہوں۔ اتنا لطف آتا ہے کہ بیان نہیں کرسکتا، خود اعتمادی کے سبب بے خوفی پیدا ہوگئی ہے۔ کبھی تو ایک خیال سے توجہ اس قدر چمٹ کر رہ جاتی ہے کہ اور ہر خیال فراموش ہوجاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سانس جس قدر دیر میں کھینچا، جتنی دیر سینے میں روکا اور جس قدر آہستگی اور نرمی سے خارج کیا جاتا ہے سکون قلب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔''
گزشتہ کالموں میں ہم ان تمام مدارج اور کیفیات کا تذکرہ کرچکے ہیں۔ جتنے درجے عقل کے ہیں جنوں کے مدارج ان سے کم نہیں۔ مشہور ہے کہ:
ہر کس بخیال خویش خطبے دارد
یعنی ہر آدمی کسی نہ کسی خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔ زندگی سے نباہ کرنے کے تین زینے ہیں۔ پہلے ربط، یعنی زندگی اور اس کے کاروبار سے ربط، مناسبت، تعلق اور دلچسپی پیدا کی جائے، ربط کے بعد ضبط منزل آتی ہے، ربط پیدا کرنے کے سلسلے میں جو ناگوار حادثے پیش آتے ہیں ان کا مقابلہ ضبط و نظم کے ساتھ کیا جائے، اسے باقاعدہ جدوجہد حیات کہتے ہیں۔ اگر باقاعدہ جدوجہد حیات کے باوجود بھی کسی مقصد کے حصول میں ناکامی ہو تو خبط کی منزل آجاتی ہے یعنی آدمی اسی ایک مقصد میں اپنے کو گم کردیتا ہے، اس کی ساری توانائیاں صرف ایک نقطے پر مرکوز ہوجاتی ہیں اور تمام دلچسپیوں سے قطع تعلق کرلیتا ہے، اس پر ایک ہی کام کا بھوت سوار ہوجاتا ہے، یہ خبط کا صحت مندانہ درجہ ہے۔
اس کے بعد خبط کے جتنے مرحلے اور مظاہرے ہیں وہ ذہنی کمزوری کی علامت ہیں۔ شدید خبط کی حالت ''جنون'' کہلاتی ہے۔ جنون کے کرشمے بارہا نظر سے گزرے ہوں گے، اگر کسی شخص کے نفس میں جنون کی کوئی چنگاری کہیں دبی ہوئی ہوتی ہے تو سانس کی مشق سے وہ بھڑک اٹھتی ہے۔ بھڑک اٹھنے کا سبب آپ کو معلوم ہی ہے۔ ان مشقوں کو تواتر سے کیا جائے تو وہ تمام جذبات، میلانات، خواہشات اور الجھنیں جو اندر دبی پڑی ہیں، ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اور مریض شعوری طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
اگر قلب مستقل طور پر مضطرب اور آدمی کشاکش میں پھنسا رہے تو ''نروس بریک ڈاؤن'' یا عصبی خلل کے دورے پڑتے ہیں، اعصاب اس طرح تن جاتے ہیں جس طرح سارنگی کے تار۔ بعض اوقات عصبی خلل کے سبب آدمی کو دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نبض بے ڈھنگی چلنے لگتی ہے، اندرونی کشمکش کے سبب اتنی تکان طاری ہوتی ہے کہ بستر سے اٹھا نہیں جاتا، اگر یہ کیفیات طاری رہیں تو ''خفیف فشارالدم'' (لو بلڈ پریشر) یا قوی فشارالدم (ہائی) کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔نف جسمی امراض، ان امراض کو کہتے ہیں جن کی ابتدا جذباتی کشمکش (دل و دماغ کی ٹکر) سے ہوتی ہے اور اختتام جسمانی تکلیف پر ہوتا ہے، مثلاً خون کا دباؤ کم ہوجانا یا بڑھ جانا۔ بظاہر ذہن و جسم میں وہی تعلق ہے جو انڈے اور مرغی میں ہوتا ہے۔ ہزاروں سال سے باشعور انسان مرغوں کی نسل کشی کر رہے ہیں مگر اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ انڈا پہلے ہے یا مرغی؟ یہی حال ذہن اور جسم کی بحث کا ہے، سترہویں صدی میں لوگ جسم پر ذہن کی اولیت کے قائل تھے، پھر تجرباتی علوم طبیعات، کیمیا وغیرہ کی ترقی کے نتیجے میں مادے کو روح پر فوقیت دے دی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ انسانی دماغ سے شعور اسی طرح پیدا ہوتا ہے۔
جس طرح منہ سے لعاب دہن، آنکھ سے آنسو اور جگر سے صفرا۔ لیکن اب پھر، نظریات کا مسافر ماضی کی طرف جارہا ہے اور اکثر نفسیات داں ذہن کی عظمت کو تسلیم کرنے لگے ہیں، اس اعلان کے ساتھ کہ جسم شعور کے مفید، حیرت انگیز اور مستعد آلہ کار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ میرا تجربہ، مشاہدہ اور حاصل مطالعہ بھی یہی ہے کہ جسمی امراض (PSYCHOSOMATIC) میں ''نف'' (نفس) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ''جسمی'' کو ثانوی، یعنی یہ غلط انداز فکر یا جذباتی دباؤ ہے جو بدن میں امراض کے اثرات کو قبول کرنے کی نہ صرف گنجائش اور استعداد پیدا کردیتا ہے بلکہ جسمانی امراض کی شدت میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ اس صورت میں بھی سانس کی مشق کچھ کم موثر ثابت نہیں ہوتی۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
کل کے تھکادینے والے اور پرخطر دن کے بعد ہم نے یہی بہتر سمجھا کہ آج کا کالم ہلکے پھلکے انداز میں تحریر کیا جائے۔ ویسے بھی قارئین کل کے ڈپریشن بھرے دن کے بعد اپنا ووٹ ڈال کر فارغ ہوئے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ نئی بننے والی حکومت عوام کی شکایات کا مداوا کرے گی۔
ہمارے بہت سے قارئین نے فرمائش کی ہے کہ انھیں رئیس امروہوی کی کتابیں بازار میں دستیاب نہیں ہیں اس لیے ہم یہ کتابیں انھیں ارسال کردیں لیکن یہ چونکہ ممکن نہیں ہے، رئیس امروہوی مرحوم کی نفسیات وما بعد نفسیات اور دیگر روحانی علوم سے متعلق کتابیں رئیس اکاڈیمی کے تحت 70ء کی دہائی میں شائع ہوئی تھیں جن کے بعد ازاں کئی ایڈیشن مارکیٹ میں آئے۔ علم میں آیا ہے کہ ان کی صاحبزادی رئیس مرحوم کی کتابوں کو نئے انداز سے شائع کروانے کا عزم رکھتی ہیں، ان کتابوں کی اشاعت کے بعد یہ قارئین کے لیے بازار میں دستیاب ہوں گی تب تک ہم رئیس صاحب کی کتابوں سے مختلف اقتباسات نذر قارئین کرتے رہیں گے تاکہ آپ کی تشفی رہے۔ اور اب بات ہوجائے مشق تنفس نور کے حوالے سے کچھ قارئین کے تجربات کی۔
خالد جاوید بہاول نگر سے رقم طراز ہیں ''آپ کی نگرانی میں تنفس نور کی مشق کر رہا ہوں۔ ان مشقوں سے مجھے ایسا سکون اور ٹھہراؤ ملا ہے کہ بیان نہیں کرسکتا، مثلاً جلد بازی ختم ہوگئی ہے، سنجیدگی اور احتیاط غالب آرہی ہے، ہر کام بڑے اطمینان سے کرتا ہوں، دماغ میں پہلے کی طرح ہلچل نہیں ہے، برے خیال آنے کم ہوگئے ہیں تاہم اب بھی ''انتشار توجہ'' کی شکایت موجود ہے، یعنی سکون قلب کے باوجود آج بھی دیر تک توجہ کسی ایک پوائنٹ کی طرف مبذول نہیں کرسکتا، مطالعہ شروع کرنے کے کچھ دیر بعد ادھر ادھر کے خیالات ہلہ بول دیتے ہیں، کچھ دیر یہ کیفیت طاری رہتی ہے پھر سکون قلب اور خود اعتمادی لوٹ آتی ہے۔'' اسی طرح راولپنڈی سے سی ایچ اکرم کا بیان ہے کہ: ''تنفس نور اور خود نویسی سے خود اعتمادی میں کافی اضافہ ہوا ہے، جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، وہ بجائے خود سب سے بڑا انعام ہیں۔
اب سے پہلے مجھے نہ اپنے پر اعتماد تھا نہ دوسروں پر۔ آہ! بے اعتمادی کے ساتھ زندگی بسر کرنا موت سے بدتر ہے۔ آدمی کسی نہ کسی سہارے بسر کرتا ہے لیکن اگر کوئی سہارا ہی باقی نہ رہے تو؟ بے اعتمادی کی زندگی بہت عذاب ہے۔ اب اندر سے خود اعتمادی ابھر رہی ہے، اضطراب قلب میں کمی ہے۔ مشق کرنے کے بعد خود کو بلند حوصلہ اور پراعتماد محسوس کرتا ہوں۔ وہم کم ہو رہے ہیں، یقین پیدا ہو رہا ہے۔ بظاہر اپنے نفس پر اتنا قابو پاچکا ہوں کہ عشق کے حادثات ہوں یا عقل کے معاملات! میں دونوں منزلوں سے حقیقت پسندانہ گزر جاتا ہوں۔ پہلے فیصلہ کرنے کی استعداد دبی ہوئی تھی، ہر قدم پس و پیش کا عالم طاری رہتا تھا، اب کوئی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔''
محمد صدیق آرائیں نے اپنے خط میں اعتراف کیا ہے کہ: ''توجہ میں یکسوئی پیدا ہوئی، دل بھی پرسکون ہے، دماغ بھی۔ جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں دل فریب مناظر سامنے آجاتے ہیں اور میں ان مناظر میں کھو کر کچھ دیر کے لیے دنیا اور غم دنیا کو فراموش کردیتا ہوں۔ اتنا لطف آتا ہے کہ بیان نہیں کرسکتا، خود اعتمادی کے سبب بے خوفی پیدا ہوگئی ہے۔ کبھی تو ایک خیال سے توجہ اس قدر چمٹ کر رہ جاتی ہے کہ اور ہر خیال فراموش ہوجاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سانس جس قدر دیر میں کھینچا، جتنی دیر سینے میں روکا اور جس قدر آہستگی اور نرمی سے خارج کیا جاتا ہے سکون قلب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔''
گزشتہ کالموں میں ہم ان تمام مدارج اور کیفیات کا تذکرہ کرچکے ہیں۔ جتنے درجے عقل کے ہیں جنوں کے مدارج ان سے کم نہیں۔ مشہور ہے کہ:
ہر کس بخیال خویش خطبے دارد
یعنی ہر آدمی کسی نہ کسی خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔ زندگی سے نباہ کرنے کے تین زینے ہیں۔ پہلے ربط، یعنی زندگی اور اس کے کاروبار سے ربط، مناسبت، تعلق اور دلچسپی پیدا کی جائے، ربط کے بعد ضبط منزل آتی ہے، ربط پیدا کرنے کے سلسلے میں جو ناگوار حادثے پیش آتے ہیں ان کا مقابلہ ضبط و نظم کے ساتھ کیا جائے، اسے باقاعدہ جدوجہد حیات کہتے ہیں۔ اگر باقاعدہ جدوجہد حیات کے باوجود بھی کسی مقصد کے حصول میں ناکامی ہو تو خبط کی منزل آجاتی ہے یعنی آدمی اسی ایک مقصد میں اپنے کو گم کردیتا ہے، اس کی ساری توانائیاں صرف ایک نقطے پر مرکوز ہوجاتی ہیں اور تمام دلچسپیوں سے قطع تعلق کرلیتا ہے، اس پر ایک ہی کام کا بھوت سوار ہوجاتا ہے، یہ خبط کا صحت مندانہ درجہ ہے۔
اس کے بعد خبط کے جتنے مرحلے اور مظاہرے ہیں وہ ذہنی کمزوری کی علامت ہیں۔ شدید خبط کی حالت ''جنون'' کہلاتی ہے۔ جنون کے کرشمے بارہا نظر سے گزرے ہوں گے، اگر کسی شخص کے نفس میں جنون کی کوئی چنگاری کہیں دبی ہوئی ہوتی ہے تو سانس کی مشق سے وہ بھڑک اٹھتی ہے۔ بھڑک اٹھنے کا سبب آپ کو معلوم ہی ہے۔ ان مشقوں کو تواتر سے کیا جائے تو وہ تمام جذبات، میلانات، خواہشات اور الجھنیں جو اندر دبی پڑی ہیں، ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اور مریض شعوری طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
اگر قلب مستقل طور پر مضطرب اور آدمی کشاکش میں پھنسا رہے تو ''نروس بریک ڈاؤن'' یا عصبی خلل کے دورے پڑتے ہیں، اعصاب اس طرح تن جاتے ہیں جس طرح سارنگی کے تار۔ بعض اوقات عصبی خلل کے سبب آدمی کو دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نبض بے ڈھنگی چلنے لگتی ہے، اندرونی کشمکش کے سبب اتنی تکان طاری ہوتی ہے کہ بستر سے اٹھا نہیں جاتا، اگر یہ کیفیات طاری رہیں تو ''خفیف فشارالدم'' (لو بلڈ پریشر) یا قوی فشارالدم (ہائی) کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔نف جسمی امراض، ان امراض کو کہتے ہیں جن کی ابتدا جذباتی کشمکش (دل و دماغ کی ٹکر) سے ہوتی ہے اور اختتام جسمانی تکلیف پر ہوتا ہے، مثلاً خون کا دباؤ کم ہوجانا یا بڑھ جانا۔ بظاہر ذہن و جسم میں وہی تعلق ہے جو انڈے اور مرغی میں ہوتا ہے۔ ہزاروں سال سے باشعور انسان مرغوں کی نسل کشی کر رہے ہیں مگر اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ انڈا پہلے ہے یا مرغی؟ یہی حال ذہن اور جسم کی بحث کا ہے، سترہویں صدی میں لوگ جسم پر ذہن کی اولیت کے قائل تھے، پھر تجرباتی علوم طبیعات، کیمیا وغیرہ کی ترقی کے نتیجے میں مادے کو روح پر فوقیت دے دی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ انسانی دماغ سے شعور اسی طرح پیدا ہوتا ہے۔
جس طرح منہ سے لعاب دہن، آنکھ سے آنسو اور جگر سے صفرا۔ لیکن اب پھر، نظریات کا مسافر ماضی کی طرف جارہا ہے اور اکثر نفسیات داں ذہن کی عظمت کو تسلیم کرنے لگے ہیں، اس اعلان کے ساتھ کہ جسم شعور کے مفید، حیرت انگیز اور مستعد آلہ کار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ میرا تجربہ، مشاہدہ اور حاصل مطالعہ بھی یہی ہے کہ جسمی امراض (PSYCHOSOMATIC) میں ''نف'' (نفس) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ''جسمی'' کو ثانوی، یعنی یہ غلط انداز فکر یا جذباتی دباؤ ہے جو بدن میں امراض کے اثرات کو قبول کرنے کی نہ صرف گنجائش اور استعداد پیدا کردیتا ہے بلکہ جسمانی امراض کی شدت میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ اس صورت میں بھی سانس کی مشق کچھ کم موثر ثابت نہیں ہوتی۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)