وائی فائی آفات

گھر میں گھر کے باہر، دفتر کے راستے میں، دفتر میں، غرض کم و بیش ہر جگہ۔

shaikhjabir@gmail.com

آپ ''وائبر'' کیوں استعمال نہیں کرتے؟ کیونکہ میں وائی فائی انوائرمنٹ میں نہیں رہتا۔ سات سمندر پار سے فون تھا۔ ہمارے دیرینہ کرم فرما اور مہربان کا اصرار تھا کہ اینڈرائڈ فون کے استعمال کرنے والوں کے لیے یہ سہولت ہے کہ وہ ''وائبر'' پر موجود افراد سے مسلسل اور مفت رابطے میں رہ سکتے ہیں، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کیوں نہ ہوں۔

اگر اس طرح کی خدمات کو سہولت قرار دے لیا جائے تو موبائل فون، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ وغیرہ کی بدولت آج کے انسان کو ایسی کئی سہولیات نہ صرف یہ کہ میسر ہیں بلکہ ان کا حصول دن بہ دن سہل اور مفت برابر ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے معذرت چاہی اور بتایا کہ ہمارے ہاں انٹرنیٹ کی رفتار بہت کم ہے۔ موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کریں تو رفتار مزید کم، بلکہ بہت ہی کم ملتی ہے۔ مزید عرض کیا کہ چونکہ میں وائی فائی ماحول میں نہیں رہتا لہٰذا ''وائبر'' استعمال نہیں کرتا۔ آپ فوراً فرمانے لگے کہ یہاں تو ہر طرف ہر وقت وائی فائی موجود ہے۔

گھر میں گھر کے باہر، دفتر کے راستے میں، دفتر میں، غرض کم و بیش ہر جگہ۔ وہ اس حوالے سے مختلف اطلاعات فراہم کرتے رہے۔ ہم عدم دلچسپی کے باوجود دلجمعی سے سنا کیے۔ فون بند ہونے تک ہمارا ذہن اوائل جنوری میں شائع ہونے والی '' بائیو انیشیٹیو'' کی رپورٹ کی جانب منعطف ہوچکا تھا۔''بائیو انیشیٹیو'' کی یہ رپورٹ ہمارے اطراف پھیلے مختلف لاسلکی آلات کے بارے میں ایک چونکا دینے والے انکشاف اور اکتشاف سے کم نہیں۔ آج ہم آپ بے شمار ایسی اشیا استعمال کیے جارہے ہیں جو برقی مقناطیسی میدان یا لاسلکی شعاعیں کثیر مقدار میں خارج کرتی ہیں۔

وائی فائی ان میں سے ایک ہے۔ دیگر میں ریڈیو، ٹی وی، راڈار، مصنوعی سیاروں اور دیگر نگرانی کے نظاموں کی لہریں۔ اسمارٹ میٹرز، وائر لیس لیپ ٹاپ، راوئٹرز، بے بی مانیٹر، مائیکرو ویو اوون، برقی موٹریں، ہائی ٹینشن اور عام برقی تار اور اسی قبیل کے بے شمار آلات ہیں۔ ہمارے آپ کے اردگرد پھیلی یہ چیزیں ہمہ وقت ایسی شعاعوں کا اخراج کرتی رہتی ہیں جو نہ صرف انسانی جانوں بلکہ تمام جانداروں کے لیے مضر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح کی وائی فائی شعاعوں سے بچوں اور حاملہ خواتین کو زیادہ اندیشہ ہے۔یہ رپورٹ 2012 کے اواخر میں مرتب ہوگئی تھی۔

اس رپورٹ پر 29 آزاد سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے کام کیا۔ اس رپورٹ کے تحقیق کاروں کے بارے میں غیر جانب دار تحقیقی گروپ ''پاور واچ'' کا کہنا ہے کہ تحقیق کاروں میں 10 کے پاس طب کی اعلیٰ سند ایم ڈی موجود ہے، 21 پی ایچ ڈی ہیں، تین ایم ایس سی، ایم اے، یا ایم پی ایچ یعنی ماسٹرز کی سطح کے افراد شامل تھے۔ رپورٹ کے مرتبین میں سے تین ''بائیو الیکٹرومیگنیٹک سوسائٹی'' کے سابق صدور ہیں، اور پانچ سوسائٹی کے مکمل اراکین میں سے ہیں، ایک کا تعلق روس کی قومی کمیٹی برائے عدم تابکاری سے ہے، دوسرے بچ رہنے والے مرتب یورپی ماحولیاتی ایجنسی کے پرانے مشیر ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ رپورٹ اصلاً 2007 میں اسی گروپ اور اسی عنوان کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ کی توسیع ہے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران کی گئی تحقیق اور مطالعے کو یکجا کیا گیا ہے۔ 21 ابواب پر مشتمل رپورٹ میں 1800 نئے تحقیقی مقالے (2006 سے 2011 تک) بھی شامل ہیں۔ 2007 کی رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ''بائیو انیشیٹیو گروپ'' کے تمام اراکین کا اتفاق ہے کہ برقی مقناطیسی اور لاسلکی میدانوں اور لہروں سے عام افراد کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات، قوانین اور مروجہ ضابطے قطعی ناکافی و ناموزوں ہیں۔


2012 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ حالات مزید دگرگوں ہوگئے ہیں۔ آج ہماری زمین پر اس قسم کی مضر رساں لہروں کا جال ہر سو پھیل چکا ہے۔ اس جال کی شدت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اعداد و شمار کے آئینے میں بتایا گیا ہے کہ آج پھیلنے اور پھوٹنے والے کئی امراض اس قسم کی لہروں کے براہ راست اثرات ہیں۔ مثال کے طور پر بات چیت کرنے والے آلات کے بے محابا استعمال سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس سے دماغ میں رسولی تک بن سکتی ہے۔ لینارٹ ہارڈیل ''اوریبرو یونیورسٹی'' سویڈن کے ایم ڈی ہیں۔

اس حوالے سے رپورٹ میں رقم طراز ہیں ''مسلسل ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہبات چیت کرنے والے الیکڑانک آلات یا کورڈ لیس فون سے گلایوما (ایک طرح کی دماغی رسولی) اور اکاسٹک نیو روما، کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میںوفاقی مواصلاتی کمیشن (ایف سی سی) اور آئی ای ای وغیرہ کے وضع کردہ قوانین عوام کے تحفظ کے لیے قطعی ناکافی ہیں۔'' رپورٹ میں ''مارتھا ہربرٹ'' کی تحقیق شامل ہے جو ایم ڈی اور پی ایچ ڈی ہیں، نیورولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ہاورڈ میڈیکل اسکول میں آپ کا کہنا ہے کہ جب ہم دروں بینی (آٹزم) کے معالجے اور تحقیق کی بات کرتے ہیں تو ہم ایسے مریضوں کو وائی فائی ماحول، گفتگو کے لیے استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات اور دیگر لاسلکی آلات سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔

ایک عام فرد کو تو قطعی اندازہ نہیں کہ وہ کتنے خطروں سے کھیل رہا ہے، وہ تو بس کسی وائی فائی والی جگہ اپنے کمپیوٹر پر کام کررہا ہے، یا کسی سے فون پر بات کررہا ہے۔ وہ بھلا کس طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ کمپیوٹر کی یہ کلک، کلک اس کی صحت کے لیے شدید خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سرطان، الزائمر، غنودگی، اسقاط حمل، شدید ذہنی دباؤ، تناؤ، گھبراہٹ، خوف، پریشان خیالی، عدم ارتکاز، عدم دل چسپی، یادداشت کی کمزوری وغیرہ ایسے امراض ہیں جو وائی فائی قسم کے آلات کی برکات سے نہ صرف یہ کہ بڑوں میں بھی عام ہوگئے ہیں بلکہ بچے بھی ان کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امراض سے بچاؤ کے لیے احتیاط کیسوا کوئی حل نہیں۔ جتنا زندگی سادہ ہوگی، غذا سے لے کر طرز بود و باش تک اتنا ہی آپ کا ان امراض سے بچے رہنے کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔ 7 جنوری 2013 کو شائع ہونے والی متذکرہ بالا رپورٹ کے مندرجات سے کئی اداروں اور حکومتوں کو اتفاق نہیں، لیکن اس رپورٹ کو یکسر نظر انداز کردینا بھی ممکن نہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اس حوالے سے بہت پہلے ہی تسلیم کرچکا ہے کہ برقی مقناطیسی میدانوں کے بداثرات انسانوں پر گھبراہٹ اور پریشانی وغیرہ کے امراض کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں (22-01-2008)۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے کہ مصداق ایسے آلات سے حتی الامکان پرہیز ہی بہترین علاج ہے۔ آج 99 فیصد افراد اس طرح کے آلات بغیر کسی واقفیت کے استعمال کررہے ہیں۔

رفتہ رفتہ وائی فائی کے نقصانات کے بارے میں لوگوں نے سوچنا شروع کیا ہے۔ ڈائڈر بیلینز بھی ایسے ہی افراد میں سے ایک ہیں، آپ کا تعلق بیلجیم سے ہے، وائی فائی کے بارے میں آپ کی احتیاط اس درجے بڑھی کہ انھوں نے اپنے دفتر میں وائی فائی کا استعمال ممنوع قرار دے دیا، خود وہ وائر لیس فون استعمال نہیں کرتے، دفتر کے عام فون پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب وہ خاص بات بھی گوش گزار کرتے چلیں جو انھیں دیگر افراد سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ڈائڈر بیلینز بیلجیم کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ''بیلگا کون'' کے سی ای او ہیں، آپ سی وی کیپیٹل پارٹنرز اورعالمی مشاورتی کونسل برائے نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے مشیر بھی ہیں۔

گویا اندر کے آدمی ہیں اور اہم آدمی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وائی فائی اور دیگر بات چیت کے لیے استعمال ہونیوالے آلات کے بارے میں وہ کیا خاص باتیں ہیں جن سے بیلینر تو واقف ہیں اور ہم نہیں جانتے؟ بیلینز کا کہنا ہے کہ ان سے بچوں کو دور رکھا جائے، نیز سوتے ہوئے اس قبیل کے تمام آلات یا تو بند کردیے جائیں یا خواب گاہ سے دور کردیے جائیں۔وائی فائی، برقی مقناطیسی میدان اور لاسلکی لہروں کی آفات پر تو آرا مختلف ہوسکتی ہیں لیکن اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں کہ سادہ اور اعلیٰ سوچ کی حامل زندگی ہی ایک صحت مند اور اچھی زندگی ہوسکتی ہے۔
Load Next Story