پولنگ اسٹیشنوں میں بد انتظامی ووٹرز کو مشکلات

کہیں انتخابی عملہ تاخیر سے پہنچا توکہیں بیلٹ باکس سمیت دیگر سامان کئی گھنٹے بعد لایا گیا

پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی عوام ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے اور پولنگ کے اختتام تک پولنگ اسٹیشنوں میں عوام کا رش رہا۔ فوٹو : جلال قریشی/ ایکسپریس

کراچی میںقومی اسمبلی کی 19اورصوبائی اسمبلی کی41 نشستوں پر انتخابات ہوئے، پولنگ اسٹیشنوں میں بدترین بدانتظامی رہی،شہر بھر میں قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، عوام کا انتخاب میں غیرمعمولی جوش وخروش دیکھنے میں آیا ۔

پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی عوام ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے اور پولنگ کے اختتام تک پولنگ اسٹیشنوں میں عوام کا رش رہا ، شہریوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ماضی کی روایتوں کے برعکس اس بار پولنگ کا تناسب زیادہ رہا تاہم مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر بدانتظامی رہی، کہیں عملہ تاخیر سے پہنچا تو کہیں بیلٹ باکس سمیت دیگر سامان پہنچانے میں تاخیر ہوئی، متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا عمل 3گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا جس کی وجہ سے ووٹرز کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، بیشتر پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔

ایکسپریس رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 239 اور سندھ اسمبلی کے حلقوں پی ایس 89اور 90کے55فیصد پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوگیا تھا جبکہ 45 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر عملے کے نہ پہنچنے کی وجہ سے پولنگ کا عمل 15 سے 45 منٹ تاخیر سے شروع ہوا، کیماڑی کے پولنگ اسٹیشن نمبر 56 ، 55، 82، 83 ، 60اور 61 اور دیگر میں پولنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہوا ، حلقہ239 میں زبردست انتخابی گہماگہمی دیکھنے میں آئی ، بلدیہ ٹاؤن میں ایم کیو ایم کی جانب سے بڑی تعداد میں انتخابی کیمپ لگائے گئے تھے۔

کیماڑی کے علاقے جیکسن اسکول کے پولنگ اسٹیشن میں دو گروپوں میں تصادم اور یونیک اسکول کے پولنگ اسٹیشن کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولنگ کا عمل 20 منٹ تک معطل رہا تاہم بعد ازاں صورتحال پر کنٹرول کرلیا گیا، مذکورہ حلقے میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ آخری گھنٹوں میں 45 فیصد تک دیکھنے میں آیا ،قومی اسمبلی کے حلقے 240 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے 91-92 میں پولنگ کا عمل 35 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ باکس اور عملے کے تاخیر سے پہنچنے کے سبب 30 سے 35 منٹ تاخیر سے شروع ہوا ۔

بلدیہ ٹاؤن ، پاک کالونی ، پرانا گولیمار ، سائٹ ایریا میں لیبر کالونی سمیت دیگر علاقوں میں واقع پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے موجود تھی ، پولنگ اسٹیشنوں پر سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث عملے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، پاک کالونی کے علاقے میں واقع پولنگ اسٹیشنوں پر دو گروپوں کے درمیان سخت کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی ، آخری وقت تک پولنگ کا ٹرن آؤٹ 40 فیصد تک دیکھنے میں آیا ، قومی اسمبلی کے حلقہ NA-242-NA-241اورپی ایس 93-94-96-97کے بیشترپولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کاآغازوقت پر ہوا ۔

حلقے میں جماعت اسلامی ،متحدہ قومی موومنٹ،اورپاکستان تحریک انصاف کے کیمپ بڑی تعداد میںلگے ہوئے تھے ، پی ایس 95 میں آزاد امیدوار کے قتل کے بعد انتخابات ملتوی کردیے گئے تھے ،ضلع وسطی کراچی کے دوحلقوں این اے243 اور این اے244 میں انتخابی عمل کے دوران بعض پولنگ اسٹیشنوں پر شہریوں کی جانب سے ووٹ ڈالنے میں تاخیر کی شکایت رہی، گرمی کی شدت سے بچنے کی غرض سے دونوں حلقوں کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے صبح کے اوقات میں ہی ووٹ ڈالنے کو ترجیح دی، پولنگ اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کا ناقص انتظام دیکھنے میں آیا۔

جبکہ پولنگ اسٹیشنوں میں ٹوٹے ہوئے فرنیچرز اور پنکھوں کے بغیر عملے نے خدمات انجام دیں،قومی اسمبلی کے حلقے NA-245 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے PS-101 میں پولنگ کا عمل وقت مقررہ پر صبح 8 بجے سے شروع ہوا جس میں خواتین اور مرد ووٹرز کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور مذکورہ حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر دن بھر گہما گہمی رہی ، پولنگ کا عمل پرامن ماحول میں شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے شام پانچ بجے تک جاری رہا ، حلقہ این اے 246 سے ایم کیوایم کے نبیل گبول ، پیپلز پارٹی کے شہزاد مجید بلوچ ،تحریک انصاف کے عامر شرجیل اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم امیدوارتھے، فیڈرل بی ایریا میں قائم مختلف پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹرزکی بڑی تعدادنے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

سیکیورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات تھے ،پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فوج ،رینجرز اورپولیس اہلکار تعینات تھے، شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ووٹرزکواسٹیشن کے اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی،متعدد پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹرز کے موبائل فون بندکروا کے اندر بھیجا گیا، اکثر پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹرزکی تعدادکے لحاظ سے انتخابی عملہ کم تعینات کیا گیا ، پولنگ اسٹیشن سے دور مختلف جماعتوں نے ووٹرزکی رہنمائی کیلیے کیمپ لگائے تھے، آغا خان ہائر سیکنڈری اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشن میں مقررہ وقت پر انتخابی عملے کے نہ پہنچنے پرخواتین سمیت دیگر ووٹروں نے احتجاج کیا اور نعرے بازی کی،عزیز آباد بلاک 8 کمپری ہنسیو اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے شدید بدانتظامی دیکھنے میں آئی ، متعدد بوتھ میں اسٹیمپس نہ ہونے سے پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی۔



بزرگ ووٹرز کو پولنگ بوتھ تلاش کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، پولنگ اسٹیشن کے اندر ووٹرز کی رہنمائی کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا، ووٹرز عمارت کی ایک منزل سے دوسری اور دوسری سے تیسری منزل میں متعلقہ بوتھ تلاش کرتے رہے،ووٹرز کیلیے پانی کا بھی انتظام نہیںکیا گیا، ایف بی ایریا بلاک 10 میں مونو ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں قائم پولنگ اسٹیشن میں انتخابی عمل بروقت شروع ہوا، ایم کیوایم کے نامزد امیدوار برائے پی ایس 105 خالد بن ولایت نے یہاں اپنا ووٹ ڈالا، ایک خاتون نے نمائندہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پہلی بار خواتین کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھ رہی ہوں ، ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ توقع سے زیادہ لوگوں کا انتخابی عمل میں شامل ہونا خوش آئند ہے، کراچی کے مضبوط اعصاب کے مالک تعلیم یافتہ شہریوں نے دہشت گردی کے ذریعے خوف پھیلانے والوں کی سازشوں کو ناکام کردیا اور بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر اپنے حق رائے دہی کا ستعمال کیا،کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 107اور پی ایس 104کے لیے پولنگ کا آغاز 8بجے ہوگیا ۔


حلقے میں خواتین ووٹرز نے انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر بزرگ ووٹرز اور خواتین کی بڑی تعداد پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی پہنچنا شرو ع ہوگئیں، پولنگ اسٹیشنر پر تعینات عملہ بھی بروقت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے پہنچ گیا، محلے کی سطح پر کاروں میں خواتین اور بزرگ شہریوں کو پولنگ اسٹیشن تک لایا گیا جبکہ نوجوان اور مرد ٹولیوں کی شکل میں پولنگ اسٹیشنوں کارخ کرتے دکھائی دیے،اس حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پرسیکیورٹی کے فرائض علاقے کے نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر انجام دیے ، این اے 247کے لیے پولنگ پر تعینات عملے نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوآرڈینیشن کی کمی کی شکایت کرتے پایا گیا مختلف اسٹیشنوں پر پریزائڈنگ افسران نے بتایا کہ گزشتہ انتخابات کے برعکس اس مرتبہ انتخابی ڈیوٹی کے لیے سرکاری الاؤنس پیشگی ادا نہیں کیا گیا پولنگ پر تعینات خواتین عملے نے کہا کہ پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد واپسی کے بارے میں کوئی پلان نہیں دیا گیا۔

اسی طرح سرکاری عملے نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سرکاری عملے کے لیے کھانے پینے کا بندوبست نہ کرنے کی بھی شکایت کی، کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 248 کے60 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر 4 گھنٹے تاخیر سے بیلٹ باکس پہنچنے کے بعد پولنگ کا عمل دوپہر 12 بجے شروع ہوا، لیاری میں انتخابات کے موقع پر گہما گہمی دیکھنے میں آئی اور پولنگ کا عمل شروع ہونے کے بعد ووٹرز کی بڑی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوںکے باہر قطاروں میں لگی نظر آئی، حلقے کے علاقے موسیٰ لائن میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے انتخابی کیمپ نظر آئے جبکہ پورے حلقے میں صرف پیپلز پارٹی کے انتخابی کیمپ سیکڑوں کی تعداد میں لگے ہوے تھے،حلقے میں ایم کیو ایم کا کوئی بھی انتخابی کیمپ موجود نہیں تھا۔

لیاری کے علاقے میں سروے کے دوران زیادہ تر پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اہلکار تعینات تھے، بہت کم پولنگ اسٹیشنوں پر رینجرز اور فوج موجود تھی،لیاری کے علاقے بھٹائی روڈ پر موجود پولنگ اسٹیشن نمبر ون میں پہلا ووٹ دوپہر 12 بجکر 5 منٹ پر کاسٹ ہوا، آگرہ تاج کالونی کے پولنگ اسٹیشن نمبر 6 ماڑی پور روڈ پر واقع پولنگ اسٹیشن نمبر15 اور دیگر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے عمل کو شروع ہونے کے دو گھنٹے میں ہی بیلٹ باکس بھر گئے تھے اور ہنگامی بنیادوں پر مزید بیلٹ باکس منگوائے گئے، بعض پولنگ اسٹیشنوں پر کھلے عام چند لوگوں کی مداخلت بھی دیکھنے میں آئی،کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 249 کے 70 فیصد پولنگ اسٹیشنوں میں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ناقص انتظامات کے باعث بیلٹ باکس پولنگ والے روز دوپہر ایک بجے تک نہیں پہنچ سکے۔

جس کے باعث ہزاروں ووٹرز صبح کے اوقات میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے اور ووٹرز کی بڑی تعداد مایوس ہوکر واپس اپنے گھروں کو چلی گئی، NA-250 ، پی ایس 112 اور پی ایس 113کے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا مواد تاخیر سے پہنچنے کے باعث ووٹنگ ایک تا3 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی جس کے باعث الیکشن کمیشن نے بھی ووٹنگ ٹائم میں اضافہ کر دیا ،ایکسپریس سروے کے مطابق این اے 250اور پی ایس113کے پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول چانڈیو ولیج پنجاب کالونی میں پہلا ووٹ9 بجکر25 منٹ پر کاسٹ کیا گیا ، اسی حلقے میں واقع پولو گراؤنڈ کے سامنے گورنمنٹ کامرس کالج میں پہلا ووٹ9بجکر 45 منٹ ، اسی حلقے میں واقع برنس روڈ گلی نمبر 5گدی اسکول میں پہلا ووٹ8بجکر45منٹ پر ، اسی حلقے میں سٹی ریلوے کالونی بونیری اسکول میں پہلا ووٹ8بجکر45منٹ ریلوے فیڈرل اسکول سٹی ریلوے کالونی میں پہلا ووٹ9بجکر 15منٹ ، گورنمنٹ ڈی جے سائنس کالج میں پہلا ووٹ9بجکر30 منٹ پر ڈالا گیا۔

این اے250 ، پی ایس113میں واقع بعض پولنگ اسٹیشنوں میں دوپہر تک پولنگ شروع نہیں ہوسکی تھی تاہم بعد میں الیکشن کمیشن نے متاثرہ پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹروں کو رات8 بجے تک ووٹ ڈالنے کی اجازت دیدی ،قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 251میں پولنگ کے موقع پر عوام کاجوش وخروش دیکھنے میں آیا،این اے 251میں پولنگ کاآغاز الیکشن کمیشن کے دیے گئے وقت کے مطابق صبح 8بجے ہی ہوگیاتھااوربڑی تعداد میں مردوخواتین ووٹرنے اپنے حق رائے دہی استعمال کیاجبکہ اسی حلقے میں شامل صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 114اورپی ایس115میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے این اے 251کے پولنگ اسٹیشنوںمیں پاک فوج کے جوان بھی تعینات کیے گئے تھے۔

کراچی کے حلقہ قومی اسمبلی252اور صوبائی اسمبلی حلقہ116.117میں ووٹرز نے بہت بڑی تعداد میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا، چند علاقوں میں بیلٹ پیر اور عملہ کے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پولنگ شروع ہوئی، سولجر بازار کے پولنگ اسٹیشن میں بہت زیادہ گہمی گہما نظر آئی سولجر بازار کے اس حلقہ میں 4 پولنگ اسٹیشن تھے جس میں ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ تھی،ووٹرز کا کہنا تھا اگر ہم خوف زدہ ہوکر گھر سے نہیں نکلیں گے تو اس ملک میں تبدیلی کون لائے گا ،،عمر رسیدہ مرد اور خواتین ویل چیئرز پر ووٹ ڈالنے آئے، قومی اسمبلی کے حلقے NA-253 اور صوبائی اسمبلی کے حلقوںPS-118اور PS-126 میں بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد پولنگ کا آغاز ہوا جبکہ الیکشن کمیشن کے دعویٰ کے باوجود بعض پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی سامان مکمل کی ترسیل بروقت نہ ہو سکی ، بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کا عمل 3 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا ۔

قومی اسمبلی کے حلقےNA-253 کے اکثر و بیشتر پولنگ اسٹیشنوں میں انگوٹھے پر لگائی جانے والی سیاہی ختم ہونے کی بھی شکایات موصول ہوئی ،اے این پی کے امیدوار صادق خٹک کے قتل کے باعث این اے 254 کے انتخابات ملتوی کردیے گئے تھے لیکن کورنگی کے اس علاقے میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پی ایس 124اور 125 پر انتخابات ہوئے،یہ علاقہ کراچی کے ان خوش نصیب انتخابی حلقوںمیں سے ایک تھا جہاں انتخابی مواد اور انتخابی عملہ بروقت پہنچا اور پرسکون ماحول میں انتخاب عمل میں آیا ، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی جاری رہی ، ووٹرز، انتخابی عملہ اور سیکیورٹی اہلکار موبائل فون استعمال کرتے رہے ، ووٹرز کھلے کمرے میں انتخابی نشان پر مہر لگاتے رہے۔

گورئمنٹ بوائز پرائمری اسکول فیوچر کالونی کے پولنگ اسٹیشن کے پریزائڈنگ افسر قمرالدین انجم نے ووٹرز کے ہنگامہ آرائی کے باعث امن امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر دو مرتبہ رینجرز اور پولیس کو طلب کیا تھا ، لیاقت علی پریزائڈنگ افسر کی جانب سے رینجر کو طلب کیا گیا تھا، خواتین کا کہنا تھا کہ انگھوٹھا لگاکر انھیں واپس کردیا گیا اور ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا جبکہ انتخابی عملے کے مطابق ایسا کوئی واقع نہیں ہوا ،قومی اسمبلی کے حلقے این اے 256 میں مرد و خواتین ووٹرز کا خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آیا ، پہلوان گوٹھ کے سرکاری اسکول میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن کے اندر بعض سیاسی تنظیموں کے مسلح افراد نے داخل ہوکر پولنگ افسران و عملے اور ووٹرز کو مارا پیٹا ، فرنیچر توڑ پھوڑ دیا اور بیلٹ باکس اور کیش لیکر فرار ہوگئے ۔

بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر سیکورٹی کے انتظامات نہیں تھے، پولنگ اسٹیشن پر تعینات پریزائڈنگ آفیسر یوسف امام نے ایکسپریس کو بتایا کہ اس پولنگ اسٹیشن پر پولنگ بروقت شروع ہوگئی تھی لیکن شرپسند عناصر نے پولنگ اسٹیشن پر داخل ہوکر پولنگ رکوادی اور توڑ پھوڑ کی، گلستان جوہر بلاک 17 میں سرجی کالجیٹ اسکول میں پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا تھا انتہائی چھوٹا سا اسکول تھا جس میں داخلے کا صرف ایک ہی گیٹ تھا پولنگ اسٹیشن اندھیرے میں ڈوبا ہوا پولنگ اسٹیشن میں انتہائی گرمی اور حبس تھا اور ووٹرز کو شدید مشکلات پیش آئیں خواتین ووٹرز پولنگ اسٹیشن کے باہر چبوتروں پر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا ،اس پولنگ اسٹیشن پر بھی تاخیر سے پولنگ شروع ہوئی، اس پولنگ اسٹیشن میں آٹھ پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔

مرد و خواتین ووٹرز کی کل تعداد 8191 تھی اس پولنگ اسٹیشن کے برابر میں واقع ایجوکیشن سٹی بھی انتہائی چھوٹا سا اسکول تھا جس کے داخلے کا صرف ایک گیٹ تھا پولنگ اسٹیشن کے اندر انتہائی حبس تھا اس پولنگ اسٹیشن پر بھی پولنگ عملے کی کمی تھی ،قومی اسمبلی کے حلقہNA-257اور اس میں شامل سندھ اسمبلی کے حلقوں PS121اورPS127کے بیشترعلاقوںمیںپولنگ انتہائی پرسکون ماحول میںہوئی، قائد آباد کے علاقے میں دہشت گردی کے واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد اطراف کے علاقوں میں خوف وہراس کے باعث پولنگ متاثر ہوئی،پولیس اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل پیڑولنگ کے باوجودووٹرز نے محتاط رویہ اپنایا،سوئیڈیش انسٹی ٹیوٹ، قائد آباد میں پولنگ اسٹیشن پر سخت حفاظی انتظامات دیکھنے میں آئے۔

ہر ووٹر کو جامہ تلاشی کے بعد ہی داخل ہونے دیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے زیر اثر سمجھے جانے والے قومی اسمبلی کی نشستNA-258 اوراس میں شامل صوبائی اسمبلی کے حلقوں PS129اورPS130 کے علاقوں میں سخت کشمکش دیکھنے میں آئی، جہاں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے بھی بھر پور تگ و دو کی،ساحلی علاقوں ابراہیم حیدری،ریڈھی،مظفر آباد، جمعہ گوٹھ، علی خاص خیلی گوٹھ ،قزافی ٹاؤن، بن قاسم اور کاٹھور کے علاقوں میں پولنگ عملہ کو ہراساں کرنے، یرغمال بنانے اورووٹرز کو دھمکانے کے الزامات سامنے آئے،گورنمنٹ بوائز سکینڈری اسکول، مراد میمن گوٹھ کے پولنگ اسٹیشن پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں جہاں رجسٹرڈ 33 سو ووٹرز کے لیے صرف 4 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے جبکہ غیرتربیت یافتہ عملہ کی وجہ سے دقت پیش آئی۔
Load Next Story