تقدیر بدلنے کے لیے ووٹنگ ضرور کریں

الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک بھر میں 85 ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں

ali.dhillon@ymail.com

آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے جب ملک میں گیارہویں جنرل الیکشن کا انعقاد ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی 272 میں سے 270 نشستوں پر امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا، ان انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوںکی کل 849 نشستوں پر 11ہزار 855 امیدواروں کے درمیان جنگ کا طبل بج چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک بھر میں 85 ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں، جن کی تعداد گزشتہ عام انتخابات 2013ء میں 69 ہزار تھی یعنی نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد 16ہزار پولنگ اسٹیشن کا اضافہ ہوا ہے۔ آج ملک بھر میں 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 افراد حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 92 لاکھ 24 ہزار 263 اور خواتین ووٹرزکی تعداد 4 کروڑ 67 لاکھ 31 ہزار 146 ہے۔ جب کہ 2008 میں ملک بھر میں ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ، 7لاکھ، 96 ہزار 382 تھی۔

2013 میں یہ تعداد بڑھ کر 8 کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 802 ہوگئی تھی ۔ دوسری طرف اگر سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 350 پارٹیاں رجسٹرڈ تھیں، تاہم نئے ایکٹ میں شامل ہونے والی اصلاحات کے بعد یہ تعداد 122 رہ چکی ہے، کیوں کہ سیاسی جماعت کے قیام کے لیے پائی جانے والی غیرسنجیدگی کو کافی حد تک اس ایکٹ کے نفاذ میں ختم کر دیا گیا ہے۔

ویسے آج کا ''ایونٹ ''جسے پاکستان کی تاریخ کا اگر سب سے بڑا جمہوری ایونٹ کہا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔جس میں ہر بالغ پاکستانی کو ضرور حصہ لینا چاہیے۔ اور آج 25جولائی کو چونکہ بارش کا امکان ہے تو کوئی بات نہیںپھر بھی آندھی چلے، طوفان آئے، موسلا دھار بارش آئے ، آج کے دن ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ کیوں کہ اگر آپ ووٹ ڈالیں گے تو کسی پر نہیں خود پر اور آنے والی نسلوں پر بھی احسان کریں گے۔ آپ کے ووٹوں سے نئی حکومت نے وجود میں آنا ہے جس کی مدت پانچ سال ہو گی۔ ان پانچ برسوں میں یہ حکومت مختلف پالیسیاں بنائے گی۔

یہ پالیسیاں پاکستان کو مضبوط بھی کر سکتی ہیں۔ عوام میں خوشحالی بھی لا سکتی ہیں۔ انصاف بلاتاخیر کا خواب بھی پورا کر سکتی ہیں۔اس لیے کم از کم پرچی ڈالتے وقت تھوڑی دیر کے لیے اپنی وابستگیاں بھول کر غیر جانبدار ہو جانا ہے اور پھر اسی غیر جانبداری کے نتیجے میں آپ جس فیصلے پر پہنچیں اس کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔کیوں کہ اگر ماضی میں بننے والی حکومتیں آگئیں تو پھر اگلے پانچ سالوں میں ہم اپنے آپ کو کوستے رہیں گے۔ گمان ہے کہ ڈالر 300روپے کا ہو جائے گا، ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے، ملک پر قرض دوگنا یعنی 400ارب ڈالر کے قریب پہنچ جائے گا ... ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو، یہ میرے ذاتی خدشات ہیں کیوں کہ اس ملک میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جن حکمرانوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں انھوں نے اس ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا...

اور افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہر مرتبہ ہمارے ہاں ووٹ کا ٹرن آؤٹ خطرناک حد تک کم رہتا ہے۔ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے میں سب سے زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بلوچستان ووٹر ٹرن آؤٹ کے حوالے سے سب سے پیچھے رہا ہے۔دوہزار 13 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد رہا۔ سب سے زیادہ 62 فیصد ٹرن آؤٹ اسلام آباد کا تھا، جہاں 3 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوا۔

دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔ 60 فیصد ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا جو 2 کروڑ، 87 لاکھ، 60 ہزار 265 بنتے ہیں۔ سندھ میں یہ تناسب 54 فیصد رہا، ووٹوں کی تعداد 97 لاکھ 82 ہزار 599 تھی۔خیبر پختونخواہ میں 45 فیصد رہا، جہاں 54 لاکھ 76 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان میں ٹرن آؤٹ 42.5 فیصد رہا اور 13 لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ فاٹا میں 5 لاکھ 8 ہزار لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ تناسب 36 فیصد بنتا ہے۔

اس کے برعکس دنیا بھر میںانتخابات کا ٹرن آؤٹ اگر دیکھا جائے تو بیشتر یورپی ممالک میں ووٹ کا ٹرن آؤٹ 70فیصد سے زائد رہتا ہے۔ اور رواں سال ہونے والے عام انتخابات جن ملکوں میں ہوئے ان میں ترکی ، ملائشیا، میکسیکو وغیرہ شامل ہیں وہاں کا ٹرن آؤٹ حوصلہ افزاء رہا اور نتائج بھی بہترین میسر آئے۔ دنیا بھر میں ووٹرز کو ''پکڑنے '' اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔


دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو بھاری جرمانے، قید یا دونوں سزائیںبیک وقت دی جاتی ہیںلیکن ہمیں ان ممالک کے نقوشِ قدم پر نہیں چلنا۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے پر مائل اور قائل کرنا چاہیے جو کندھے اُچکا کر کہتے ہیں: ہم توووٹ کسی کو بھی نہیں دیں گے،اِس روئیے اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔

جو شخص ووٹ نہیں ڈالتا، وہ اپنا قومی تشخص بھی کھو دیتا ہے۔ ابراہام لنکن نے خوبصورت بات کہی تھی: جو شہری ووٹ نہیں ڈالتا،اُسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ منتخب حکومت پر تنقید کرے۔ آپ ڈنمارک، کروشیا اور ناروے جیسے ملکوں کی مثال لے لیں وہاں جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کی فہرستیں مرتب کی جاتی ہیں۔ وہ لوگ بینکوں سے قرضے نہیں لے سکتے، انھیں حکومتی سہولیات نہیں دی جاتیں اور ان کے لیے بہت سی مشکلات جان بوجھ کر پیدا کر دی جاتی ہیں کہ وہ آیندہ انتخابات میں لازمی اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔

اسی سلسلے میں ووٹرز کو سہولیات دی جاتی ہیں۔ مثلاََ جرمنی میں پارلمیانی انتخابات میں ووٹرز کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے الیکشن کی مختص شدہ تاریخ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنی سہولت کے حساب سے جرمن باشندے الیکشن سے ہفتوں پہلے بھی ووٹنگ دفاتر میں جاکر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔جس دن الیکشن ہو، آپ اُس دن ملک سے باہر ہیں یا کسی اور وجہ سے آپ الیکشن کے دن ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ایسی صورت میں آپ کا ووٹ ضایع ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔ جرمنی میں ہر ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے اور ووٹرز بھی اپنے اس جمہوری حق کا پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اگر اس ووٹ کی اہمیت کا اندازہ پاکستان میں ہو جائے تو یقینا یہاں بھی خوشحالی آسکتی ہے۔ یہاں بھی شفاف قیادت میسر آسکتی ہے۔ مگر افسوس یہاں وہ اقدام نہیں کیے جاتے جن سے ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ کیا جا سکے۔ یہاں بھی جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کے لیے ہلکی پھلکی سزا کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ ان کی فہرستیں مرتب کرکے ویب سائیٹس پر شایع کی جانی چاہئیں، انھیں بینک سے قرض کی سہولت سے محروم رکھا جانا چاہیے۔

اسے کسی قسم کی سرکاری نوکری پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے حکومت کو ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ ووٹر کو پولنگ اسٹیشن میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر آج بارش ہو جاتی ہے تو ووٹر ٹرن آؤٹ مزید کم ہو سکتا ہے اس لیے اس کے پیشگی انتظامات کیے جانے چاہیے تھے۔ یہاں تو دھوپ میں کھڑا کرکے ووٹ کاسٹ کروایا جاتا ہے۔یہاں پولنگ اسٹیشن پر پانی نہیں ہوتا، چھاؤں نہیں ہوتی، دہشت گردی وامن و امان کا مسئلہ رہتا ہے۔ لوگ ووٹ ڈالنا پسند نہیں کرتے ۔ دھکم پیل میں لوگ ووٹ ڈالتے ہیں ۔

وی آئی پی شخصیت آ جائے تو اسے پہلے ووٹ ڈلوایا جاتا ہے۔ اور سب سے اہم ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جس سے ووٹر کو لگتا ہے کہ یہ الیکشن نہیں ''سلیکشن '' ہو رہی ہے۔ یعنی پری پول دھاندلی کی خبریں عام ہوتی ہیں ۔حتیٰ کہ پولنگ اسٹاف میں جذبے کی کمی کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ بددل ہو کر ووٹنگ کا مرحلہ طے کر وا رہا ہوتا ہے۔ آپ کو ایسا کوئی پریزائیڈنگ آفیسر نہیں ملے گا جو خوشی سے کام کر رہا ہو۔

بہرکیف آج ووٹر کا اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سخت الیکشن میں کچھ بھی ہو جائے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ شفاف قیادت مل سکے۔ جو ووٹر کو وہ تمام سہولیات دے جس کی وجہ سے اس نے ووٹ کاسٹ کیا ہے۔آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دس کروڑ ووٹوں میں 44فیصد نوجوانوں کے ووٹ ہیں ،جن کی تعداد ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اب اپنے ووٹ کی قوت سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔

خاص طور پر شہروں کی تعلیم یافتہ اور وسائل رکھنے والی نئی نسل عقل و تدبر سے کام لے کر ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔گویا ان کو ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کا موقع مل رہا ہے تو ضرور حصہ لیں اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔
Load Next Story