گزشتہ تین قومی انتخابات کی حلقہ وار صورتحال کا تقابلی جائزہ

الیکشن کو پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدارکی راہ ہموار کرنے کا منفراد امتیاز حاصل ہے۔

الیکشن کو پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدارکی راہ ہموار کرنے کا منفراد امتیاز حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

الیکشن 2013 ء

11مئی 2013ء کو ملک کی 14ویں قومی اسمبلی کی تشکیل کیلئے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس انتخابی عمل کے دوران رائے دہندگان نے ملک کے چاروں صوبوں پنجاب' سندھ ' کے پی کے اور بلوچستان کے لئے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا چناؤ بھی کیا۔ ان انتخابات میں ایک طرف سیاسی جماعتوں پر دھاندلی' نسلی اور فرقہ وارانہ رویوں کے الزامات لگے، دوسری جانب ان انتخابات کو یہ مثبت امتیاز بھی حاصل ہوا کہ ان کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اپنی 5سالہ مدت مکمل کی اور پُرامن انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوا۔

قومی اسمبلی کے 272حلقوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ خواتین اور اقلیتوں کی 72 مخصوص نشستیں اس کے علاوہ ہیں جو انتخابات میں کامیابی کے تناسب سے مختلف جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ ان انتخابات میں کوئی ایک جماعت 172نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو سادہ اکثریت کے لئے درکار ہوتی ہیں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کے پاس بھی سادہ اکثیریت سے 6 ووٹ کم تھے، یوں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ 19 آزاد امیدواروں کی مدد سے ن لیگ نے مرکز میں اپنی حکومت بنائی اور میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے اتحاد بنایا جبکہ ن لیگ' مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچ پارٹیوں نے متحد ہو کر انتخاب لڑا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی۔

انتخابات سے قبل جب نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا تو مسلم لیگ ن' جماعت اسلامی' تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) اس بات پر متفق تھیں کہ سابق سینئر جج ناصر اسلم زاہد کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا جا ئے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت اور حزب اختلاف میں عدم اتفاق کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ لحاظہ آئین کی رو سے نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس آ گیا۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا۔

یکم اگست 2012ء کو پاکستان الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی منعقد کروائے جائیں گے۔

دسمبر2012: پاکستان سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ کراچی میں فوج کی نگرانی میں نئے سرے سے حلقہ بندیوں کی تشکیل کی جائے اور گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کا عمل مکمل کیا جائے۔

17جنوری 2013ء: پاکستان الیکشن کمیشن نے گھر گھر جا کر رائے دہندگان کی تصدیق کے عمل کا آغاز کر دیا۔

3 فروری2013ء: صدر آصف علی زرداری نے اعلان کیا کہ ملک میں عام انتخابات 8 اور 14 مارچ 2013ء کے درمیان منعقد کرائے جائیں گے۔

31 مارچ 2013ء امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ مقرر ہوئی۔

2013ء کے انتخابات پر تشدد وواقعات کے حوالے سے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ کالعدم تحریک طالبان نے ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں28اپریل کو 2آزاد امیدواروں کے دفاتر پر بم دھماکے ہوئے۔ کوہاٹ میں اے این پی کے ناصر خان آفریدی کے دفتر پر حملے میں 6 افراد شہید ہو گئے۔2مئی کو ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر بم دھماکہ ہوا۔ 4 مئی کو ایم کیو ایم کے عزیز آباد دفتر میں بم دھماکے میں 3 افراد شہید اور 34زخمی ہو گئے ۔ کُرم ویلی میں جے یو آئی (ف) کے منیر اورکزئی کی انتخابی ریلی پر حملے میں 15 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ 9 مئی کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو اغوا کر لیا گیا۔ انتخابات والے د ن پولنگ کے اختتام تک مختلف پرتشدد واقعات میں 20 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انتخابی نتائج کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں سانے آنے والی صورتحال کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 214 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ میاں شہباز شریف صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے 94 نشستوں کے ساتھ سندھ میں حکومت بنائی، قائم علی شاہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف نے 39 نشستوں کے ساتھ حکومت بنائی جبکہ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی بھی اس حکومت میں شامل تھیں۔ حکومت کے سربراہ پرویز خٹک منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں پختونخواہ میپ کی 10نشستیں تھیں جبکہ پاکستان نیشنل پارٹی کے سات ارکان کے ساتھ ن لیگ کے آٹھ ارکان ملا کر حکومت سازی کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔

دھاندلی اور فرقہ واریت پر مبنی رویوں سے داغ دار ہیں۔ الیکشن کو پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدارکی راہ ہموار کرنے کا منفراد امتیاز حاصل ہے۔

الیکشن 2008ء

انتخابات کے لئے پہلے 8 جنوری 2008ء کی تاریخ دی گئی تھی جوملتوی کر دی گئی اور نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا جو 18 فروری 2008ء تھی۔ 3 نومبر2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا تھا۔ 8 ۔ نومبر2007ء کو صدر مشرف نے اعلان کیا کہ الیکشن 15فروری 2008ء کو منعقد ہوں گے لیکن بعد میں اعلان کیا گیا کہ انتخابات 9جنوری2008ء سے قبل منعقد کئے جائیں گے۔ صدر نے 8 جنوری کی تاریخ کا اعلان کر دیا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث الیکشن کی نئی تاریخ 18 فروری مقرر ہوئی۔

انتخابات میں صدر مشرف کی حمایت یافتہ سیاسی قوتوں کو شکست ہوئی۔ صدر نے اعلان کیا کہ وہ نئی پارلیمنٹ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دو بڑی جماعتوں کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئیں۔ دونوں جماعتوں نے مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی جس میں وزیر اعظم کا عہدہ پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے حصے آیا۔ لیکن جلد ہی ن لیگ نے اس اتحاد کو خیر باد کہہ دیا اور صدر کے مواخذہ اور عدلیہ کی بحالی کی تحریکوں میں شامل ہو گئی۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کو حکومت قائم رکھنے کے لئے ایم کیو ایم' اے این پی اور جے یو آ ئی (ف) کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔

2008ء کے انتخابات کو دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا۔ انتخابات سے قبل اسلام آباد کی لال مسجد کا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ پھر 27 سمبر2007ء کو پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ پیش آ گیا۔ ن لیگ نے اس موقع پر الیکشن کے بائیکاٹ کا ا علان کر دیا لیکن بعد میں اس شرط پر الیکشن میں شرکت کرنے کا عندیہ دیا کہ پیپلزپارٹی بھی الیکشن میں شریک ہو۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول کو پارٹی چیرمین نامزد کر دیا جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری کو پارٹی کا شریک چیئرمین نامزد کر دیا گیا۔


جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آتی گئی بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر دہشت گردی کے حملے بڑھتے گئے۔ 9 فروری کو چارسدہ میں اے این پی کی انتخابی ریلی پر بم حملے میں 27 فراد شہید اور 37زخمی ہو گئے۔ پارچنار میں 16فروری کو پیپلز پارٹی کے امیدوار ریاض شاہ کی رہائش گاہ پر کار بم دھماکے میں 37 افراد شہید اور 93 زخمی ہوئے۔ اسی روز سوات میں پاک فوج کی ایک پوسٹ پر خودکش حملے میں 2 شہری شہید اور 8 افراد زخمی ہو گئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت کے ساتھ پرویز مشرف کی حامی سیاسی قوتوں کو شکست دی۔ مشرف کی کابینہ میں شامل 22 وزراء انتخابات میں شکست کھا گئے۔ جبکہ مسلم لیگ ق کے صدر شجاعت حسین اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو بھی اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

پنجاب میں مسلم لیگ ن 171 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں شہباز شریف نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔

سندھ میں 93 سیٹوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی۔اور قائم علی شاہ نے وزیراعلیٰ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں۔

مسلم لیگ ق نے بلوچستان 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اس لئے اسلم رئیسانی نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی نشستوں کی تعداد48تھی اس لئے یہاں اے این پی کی حکومت قائم ہوئی جس کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی تھے۔

2008ء کے انتخابات دہشت گردی کے سائلے میں ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ بائیں بازو کی جماعتیں مسلسل دہشت گردوں کی زد پر رہیں۔

الیکشن 2002ء

12اکتوبر 1999ء کو تاریخ پاکستان کے تیسرے مارشل لاء کے نفاذ کے تین برس گزر جانے کے بعد 11جولائی 2002ء کو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں عام انتخابات کروانے کی نوید سنائی۔10 اکتوبر 2002ء میں جنرل مشرف کی حکومت کے زیر سایہ عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں چھ بڑی جماعتیں اُبھر کر سامنے آئیں۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جلسوں اور ریلیوں کی سختی سے ممانعت رہی ۔الیکشن مہم میں تشدد اپنے عروج پر تھا جس کے نتیجے میں 7 افراد کو قتل جبکہ 50 سے زائد افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ الیکشن کے دوران ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا۔

انتخابات میں 70سے زائد پارٹیوں نے حصہ لیا جس میں پیپلزپارٹی ' مسلم لیگ ن' متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) ' متحدہ مجلس عمل ا ور مسلم لگ (ق) انتخابات کے نتیجے میں اہم جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔ دیگر قابل ذکر پارٹیوں میں سابق صدر فاروق احمد لغاری کی قیادت میں 6جماعتی اتحاد نیشنل الائنس ' عمران خان کی تحریک انصاف اور علامہ طاہر القادری پاکستان عوامی تحریک بھی سیاسی منظر نامے پر نموار ہوئیں۔

2002ء کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 'جسے کنگز پارٹی ہونے کا امتیاز اور فائد حاصل تھا' سب سے زیادہ 126 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین 81نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی جبکہ متحدہ مجلس عمل نے 63 نشستیں حاصل کیں۔ ن لیگ کی 19 ' ایم کیو ایم کی 17 نیشنل الائنس نے 16نشستیں حاصل کیں۔ فنکشنل لیگ نے 5' مسلم لیگ جونیجو گروپ نے 3اور پیپلز پارٹی شیر پاؤ نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ پی ٹی آئی اور چھ علاقائی جماعتوں کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی جبکہ3آزاد امیدوار کامیا ب ہوئے۔

2002ء کے عام انتخابات کے حوالے سے یورپین یونین کے مبصرین نے اپنی رپورٹ میں انتخابات کو انتہائی جانبدارانہ قرار دیا۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ۔ مخصوص جماعتوں کو برتری دلوانے کے لئے ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگست 2002ء میں صدر مشرف کو غیر معمولی اختیارات دلانے کے لئے آئین میں ترمیم کر دی گئی تھی جو درحقیقت الیکشن پر اثر انداز ہونے کا ایک ذریعہ بنی۔

19 نومبر 2002ء مسلم لیگ (ق) کے چوہدری امیر حسین قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے ۔ دو روز بعد قومی اسمبلی نے میر ظفر اللہ خان جمالی کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا۔

2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں مسلم لیگ ق نے صوبائی حکومت بنائی جس کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی منتخب ہوئے۔

سند ھ میں بھی مسلم لیگ (ق) حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ یہاں پہلے علی محمد مہر وزیراعلیٰ بنے جبکہ بعدازاں 9 جون 2004ء تا 19 نومبر2007ء تک ارباب غلام رحیم وزیراعلیٰ سندھ رہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اکرم خان درانی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ پلوچستان میں بھی مسلم لیگ(ق) اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی جس کے وزیراعلیٰ جام محمد یوسف منتخب ہوئے۔

یورپین یونین کے مبصرین کی رپورٹ میں 2002ء کے انتخابات کو انتہائی جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پسندیدہ جماعت کے لیے ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
Load Next Story