چلو چلیں حساب لینے جواب دینے غصہ دکھانے طاقت آزمانے

ووٹ کی پرچی ہی ہمارے شکوے، شکایت، برہمی اور قوت کا اظہار ہے

ووٹ کی پرچی ہی ہمارے شکوے، شکایت، برہمی اور قوت کا اظہار ہے۔ فوٹو: فائل

''یہ سیاست داں چور ہے، وہ لُٹیرا، اُس نے خزانہ لوٹا، اِس نے پیسہ ہڑپ کرلیا، فلاں سیاسی جماعت خرابیوں کا مجموعہ ہے، فلاں بُرائیوں کی گٹھری، ہمارے نمائندے نے پلٹ کر خبر نہیں لی۔۔۔۔''

ڈرائنگ روم سے تھڑوں تک اور گلی محلوں لگی مُنڈلیوں سے اہل دانش کی محفلوں تک، پورے پانچ سال یہ یا ان جیسے شکوے شکایات اور الزامات کی گونج رہی۔ یہ میں اور آپ تھے، کوئی سیاسی جماعت سے نالاں اور کسی پارٹی سے شاکی۔ غصہ مغلظات کی صورت فضا مکدر اور دیواریں سیاہ کرتا رہا۔

دولت کے بل پر سیاست کرنے والوں کے لیے الزامات کی فصل لگا کر تندوتیزلہجے سے اُسے سینچنا سیاسی ضرورت ہے، زندگی کی ساری نرماہٹ سمیٹے سوفوں میں دھنس کر دُھواں اڑاتے اور منہگی کافی کے چسکے لیتے ہوئے ''نظام'' کو کوستے دانش وروں کے لیے ذہنی تعیش۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بس ہوائی اڈے تک کا سفر انھیں کانٹوں اور دلدلوں سے بھری اس زمین سے دور دیسوں میں آباد خواب کے جزیروں کی طرف لے جاتا ہے۔

لیکن ہم عام آدمی، جو دفتروں، کارخانوں، کھیتوں میں محنت کرکے زندگی کرتے ہیں، ٹھیلا لگا کر، رکشا ٹیکسی چلاکر، چھوٹی چھوٹی دکانوں کے ذریعے جینے کا سامان کرتے ہیں، ہمارے لیے کہیں کوئی شجرِسایہ دار اور مسافرنواز نہیں، ہم زر کے پَروں سے محروم ہیں کہ جلتی ڈال چھوڑ کر محفوظ چمن زاروں کو پرواز کر جائیں۔ ہمیں تو اس دھرتی ہی کو رہنے کے قابل بنانا ہے، اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے، آج کی خاطر کل کے لیے۔

ہمیں منجدھار سے یہی کاغذ کی کشتی نکال سکتی ہے، جسے ووٹ کہتے ہیں۔

''ووٹ دینا آپ کا فرض ہے''،''ووٹ ایک امانت ہے''،''یہ آپ کی ذمے داری ہے''۔۔۔۔۔رائے دہندگان کو ان کے فریضے کا احساس دلاتے یہ رَٹے پِٹے جُملے بہت دل کش صحیح مگر اخلاقیات کا درس ہیں، اور مفلسی تو حِس لطافت کو سموچا نگل لیتی ہے، بھوک آنکھیں دھندلانے لگے تو چمکتا چاند روٹی اور دمکتے تارے چاول کے دانے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ہمارے ملک میں افلاس ہی کی ڈائن کلیجے نہیں چبارہی، یہاں ہر بَلا عوام کا خون پی رہی ہے، زندگی کے ہر پیڑ پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔

تعلیم کا راستہ ہو، علاج کی راہ گزر یا انصاف کی ڈگر، عام آدمی جس راہ پر قدم رکھتا ہے منہگائی، بدنظمی اور ظلم کی کالی بلی راستہ کاٹ جاتی ہے۔

ایسے میں اخلاقیات کا درس دینے کی کس کو ہمت اور سُنے گا کون؟

مگر مسئلہ اخلاقیات کا نہیں، حقائق کا ہے، بنیادی مسائل کا ہے، ان مشکلات کا ہے جو ہر عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کے حل کا ایک ہی راستہ ہے جو پولنگ بوتھوں پر لگی قطاروں سے نکلتا ہے، ایک ہی راہ گزر ہے جو انگلی پر لگی سیاہی کی لکیر سے پھوٹتی ہے، ایک ہی سڑک ہے جو پرچیوں سے بھرے ڈبے سے نکلتی ہے۔ یہ قطاریں، یہ پرچی، یہ سیاہی یہ سارا انتخابی عمل عام آدمی کی زندگی تبدیل کرسکتا ہے، اس کے حالات میں بدلاؤ لاسکتا ہے، مسائل کے حل کا سبب بن سکتا ہے۔

لیکن کیا بس بھیڑ چال چلتے ہوئے پردے کے پیچھے جانا اور کاغذ پر بنے خانوں میں چھپے کسی ایک نام اور نشان پر مُہر ثبت کردینا کافی ہے؟ ایسا کرکے فرض ادا ہوگیا؟ ذمے داری پوری ہوگئی؟ ہرگز نہیں۔ یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے کم ازکم اتنی چھان پھٹک اور کھوج لازمی ہے جو ہم سبزی، کپڑے اور جوتے وغیرہ خریدتے ہوئے کرتے ہیں، کہ ووٹ کی پرچی پر مُہر لگاتے ہوئے تو ہم کہیں بڑا سودا کر رہے ہوتے ہیں۔

ہم پورے پانچ سال کے لیے کسی امیدوار کو اپنا نمائندہ بنارہے ہوتے ہیں، کسی جماعت کو ملک اور اپنے صوبے کا اقتدار سونپ رہے ہوتے ہیں، اپنے معاملات کسی قیادت کے ہاتھوں میں رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُس نمائندے، جماعت اور قیادت کے ماضی پر ہماری نظر ہونی چاہیے، اس کی اہلیت صلاحیت اور کردار سے ہمیں واقف ہونا چاہیے، ہمیں جاننا چاہیے کہ کس جماعت کا منشور کیا ہے اور وہ جماعت ہمارے مسائل کا کس حد تک ادراک رکھتی ہے۔ اس کے برعکس ذات برادری، فرقہ ومسلک، محبت نفرت اور ہم دردی کی بنیاد پر جانتے بوجھتے غلط لوگوں کو ووٹ دے کر ہم اپنے قتل نامے پر دست خط کردیتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل داؤ پر لگادیتے ہیں۔ پھر شکایت کیسی، شکوہ کیسا، گلہ کیوں، غصہ کس لیے؟

یہ دن تبدیلی کا موقع، عدم کارکردگی اور بے ضابطگیوں کا حساب لینے اور بدلہ چکانے کا کٹہرا بن کے ہی نہیں آتا، یہ یوم آزمائش بھی ہے۔ اس دن کی دھوپ چھاؤں میں اُترتے لمحے ہمیں آزماتے ہیں کہ ہم خود سے کتنے وفادار ہیںِ، خود سے کتنے ایمان دار ہیں، ہم عقل وشعور کی کس منزل پر ہیں، ہم جن حالات پر کڑھتے اور روز جن مسائل کی باتیں کرتے رہے ہیں، ان کے حل اور انھیں بدلنے کے لیے ہم کتنے سنجیدہ ہیں؟


''ووٹ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے'' کہہ کر انتخابات کے روز گھر بیٹھے رہنے کا رویہ خودغرضی، بے حسی اور بے اعتنائی کی ریت میں سر چھپالینے اور حقائق دیکھ کر آنکھیں موند لینے کے سوا کچھ نہیں۔ یہی رویے اور مایوسی ہے جس کی وجہ سے انتخابات میں رائے دہندگان کی بہت بڑی تعداد اور بعض دفعہ اکثریت ووٹ دینے کے حق اور فرض سے منہہ موڑے رہتی ہے۔

یہ ووٹ دینے کا فرض ہی ہے جو آپ کو شکوے شکایت اور احتجاج کرنے کا حق دیتا ہے۔ ووٹ دیجیے، اور پھر منتخب ہونے اور اقتدار میں آنے والوں کی کارکردگی پر نظر رکھیے، خبر رکھیے کہ آپ کے مسائل کس حد تک حل ہوئے یا صورت حال جوں کی توں ہے۔ مُڑ کر دیکھیے کہ کس جماعت کا منشور کیا تھا، کس راہ نما نے کیا وعدے کیے تھے، کس امیدوار نے کن دعوؤں کے ساتھ آپ سے ووٹ مانگا تھا۔ اگلے انتخابات میں یہ ''بہی کھاتا'' دیکھ کر چُناؤ کے پَِنّے پر ٹھپا لگائیے۔ اور اُس سے پہلے جیتنے والوں کی کارکردگی پر سوال اُٹھاتے رہیے، آئینہ دکھاتے رہیے۔ یہ کچھ کر کے ہی ہم اپنے ووٹ کو قابل عزت اور طاقت بناسکیں گے۔

رہی بات کسی ''انجنیئرنگ'' اور دھاندلی کی، تو جب انتخابی مراکز پر قطار درقطار ہاتھ ہی ہاتھ اور آنکھیں ہی آنکھیں ہوں تو کوئی نتیجہ چُرایا جاسکے گا نہ ''انجنیئرنگ'' سے بنی کوئی ریت کی دیوار عوام کے سیلاب کے سامنے ٹھیر پائے گی۔



جنتا کا تیوہار
آج ہے آشاؤں کا دن اور جنتا کا تیوہار
دیکھ لگی ہے تیری کچہری، سجا ترا دربار
''کل'' ہے تیرے ہاتھ میں پیارے، تو ہوجا تیار
سوچ سمجھ کر دھیان سے اس پرچی پر ٹھپّا مار
یہ پرچی ہے تیری شکتی یہی ترا ہتھیار
تیری یہی کُدال کہ جس سے ٹوٹے ہر دیوار
سوچ لے، پورے پانچ برس ہیں ڈھلتی شام کے پار

یہ ٹھپّا لگنے کی ٹھپ ٹھپ، ہو جیسے جھنکار
آج ہیں پیارے بڑے بڑے اس اک ٹھپّے کی مار
ہارے جیتے کوئی تری آشا نہ جائے ہار
جیت گیا اپنا تو بجیں گے کَھن کَھن دل کے تار
ہار گیا تو بھی دُکھ کیسا، ٹھیک ہے اگلی بار
کہہ دے، دھاندلی نہیں چلے گی، بہت ہوئی سرکار
یہ اپنی پنچایت بھیّا، نہیں کوئی بیوپار
Load Next Story