25 جولائی کے بعد کا پاکستان
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس ملک کی معیشت کو ٹھوس ستونوں پر استوار کریں۔
ISLAMABAD:
خیر سے پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مسلسل بیلیٹ باکس اختتام پذیر ہوا۔ بہت سے مبصرایسے بھی تھے جو انتخابات تو ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے تھے۔ میری اس تحریر تک کچھ بھی واضح نہیں لیکن اس مضمون کے چھپنے تک آپ کے سامنے تقریباً مکمل نتائج آچکے ہوں گے۔ انتخابات سے پہلے جو ماحول تھا اس پر تو بہت لکھ چکے لیکن انتخابات کے کیا دن پولنگ شفاف ہوئی ہوگی۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کا مقامی زور ہوتا ہے اور جو پارٹیاں مسلسل اقتدار میں رہی ہوتی ہیں ان کے پاس اپنے انداز کی دھاندلی کروانے کے گر بہتر ہوتے ہیں اس بار شاید یہ کام آسانی سے نہ ہوسکا ہو۔
پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے اور یہ بات ہم ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں۔ لیکن اس بار بحث بہت گرم ہوچکی ہے۔ اس بحث نے اب اک سمت لینی ہے۔ اس بار اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ نئے ووٹوں کا اندراج سب سے زیادہ ہوا ہے۔ نوجوانوں میں بیداری کا عمل بھی تیزی پکڑ چکا ہے۔
اس ملک کو نوجوان قیادت مریم نواز اور بلاول بھٹو کے روپ میں مل رہی ہے اب کے آنے والے زمانوں میں ہماری سیاست میں بہت سا عمل دخل نوجوانوں کا ہوگا۔ اس بار جو بات طے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک کو اب ایڈہاک بنیادوں پر نہیں چلایا جاسکتا۔ ایک مضبوط جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ ملک اب سرد جنگ کے زمانوں کی طرح امریکا کا اتحادی بھی نہیں رہا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم ایک بین الاقوامی اتحاد سے نکل کر دوسرے اتحاد میں چلے جائیں۔ ساتھ ساتھ ہم مکمل طور پر غیر وابستہ بھی نہیں رہ سکتے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہماری داخلی صورتحال پر بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہے اس لیے اس کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے ہم مکمل طور پر نظریاتی ریاست کے تصور کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
ہماری معیشت آپ کے سامنے ہے ہم چار فیصد شرح نمو سے زیادہ آگے بڑھ نہیں سکتے اور اگر قرضے لے کر بڑھے بھی ہیں تو ان قرضوں نے ہمارے خسارے کو اور مجموعی قرضوں کے بوجھ کو اس حد تک بڑھادیا ہے جہاں سے خود ہم قرضوں کے بحران Debt Crises کے بھنور میں پھنستے جا رہے ہیں۔
بنیادی طور پر جو حقیقت اس ملک کو اس نہج تک لے کر آئی وہ ہے ہماری مجموعی داخلی سیاسی صورتحال اس ملک میں کوئی بھی آزادانہ انداز میں سیاسی طور پر ابھر نہ سکا۔ لگ بھگ سب جو اقتداری سیاست میں رہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار کو پہنچے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آگے جاکے ٹکراؤ بھی ہو۔ خود اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بھی کسی معروضی حقیقتوں کے تناظر میں نہیں بنی ہوئی تھی۔ یعنی اس تصادم میں بھی کچھ ذاتی مفادات تھے جو ملکی مجموعی مفادات کے ٹکراؤ میں تھے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر ملک کے اندر ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور اس کی سوچ بہت حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔ محض یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے معنی عسکری قوتیں وغیرہ مناسب و حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ اس حقیقت جو ریاست کے بنائے ہوئے سوچ کے منصوبے کو آگے لے کر چلتی ہے اور اس سے جو بھی ٹکراؤ میں یا اختلاف میں آتا ہے اسٹیبلشمنٹ اس سے اختلاف رکھتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ لے وہ صحیح ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک سیکیورٹی کے حوالے سے Paradigm ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کا خواہ کتنا ہی پاپولر وزیر اعظم کیوں نہ ہو وہ اس سیکیورٹی Paradigm سے باہر نہیں جا سکتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے سیکیورٹی Paradigm اگر Organic نہ ہوں وہ ملک کے آئین اور باقی اداروں کے ساتھ مل کر ترتیب نہیں دیے ہوں یا یوں کہیے کہ ایک جگہ آکر یکسانیت کا شکار ہو گئے ہوں تو خود ایسے Paradigm تنقید کی نظر مانگتے ہیں اور ایسی تنقید مگر تعمیری ہونی چاہیے۔
ہم جن زمانوں میں رہتے ہیں وہاں خود جنگیں اپنی ماہیت تبدیل کرچکی ہیں۔ اس طرح ہماری سیکیورٹی نئے زاویے اور نئی سوچ مانگتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ کہیں بھی احساس نہ تھا کہ ہمارے مجموعہ قرضے اس حد تک بڑھ جائیں گے جہاں پر وہ ہماری آزاد حیثیت کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
معاملہ قرضوں کا بھی نہیں اتنے قرضے ہونا کوئی بڑی بات بھی نہیں۔ بنیادی طور پر معاملہ ہمارے برآمدات اور درآمدات میں خطرناک حد تک عدم توازن کا ہے۔ ہم اتنے ڈالر کماتے نہیں جتنے ڈالرکھپاتے ہیں۔ ہم ڈالر کمائیں بھی تو کیسے کمائیں ہم لوگوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ ان کی خوابیدہ قوتوں اور صلاحیتوں کو نہیں جگاتے۔ یہ بات درست ہے کہ کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی بار CPEC کے حوالے سے بہت بڑا Instructional پلان ہمارے سامنے آیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمارے دیہی سماج و معاشی رشتوں میں ابھی تبدیلی نہیں آئی اور یہاں تک کہ یہ دیہی سماج کے خد و خال ہمارے ملک کی مجموعی سیاست پرمنفی اثرات چھوڑتے ہیں۔
ان ووٹرز سے ووٹ لے کر ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچتے ہیں جو قانون سازی سے کوئی شوق نہیں رکھتے۔ وہ فلور پر کھڑے ہوکر بات تک نہیں کرتے۔ انھیں صرف یہ پتہ ہوتاہے کہ اقتدار کی ڈور حقیقی معنی میں کس کے پاس ہے اور جوں ہی حالات تبدیل ہوئے تو یہ بھی اپنا بوریا بستر باندھ دیتے ہیں۔ ان دیہی ووٹرز سے ووٹ لے کر جو ایوانوں میں پہنچتے ہیں ان کو اپنے لوگوں کے رہن سہن میں تبدیلی لانے سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اگر ترقی کر گئے تو پھر ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ دوسری طرف لوگوں کامعیار زندگی بہتر ہونا ہماری معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے ڈالر کمانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے دیہی پاکستان کا تبدیل ہونابہت اہم ہے۔ ان لوگوں کا ہنرمند ہونا ہمیں اور ڈالر کما کے دے گا جوکہ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ستر سال جس طرح ہم نے پاکستان چلایا ہے وہ اب اس طرح سے نہیں چل سکتا۔ ہمارے لیے بہت سے چیلنجز آگے پڑے ہیں جن کے لیے سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔
خیر سے 25 جولائی گزر گئی جو ووٹ لینے کے لیے آپ کو جھوٹے وعدے وغیرہ کرنے تھے یا جو اپنی پاپولیریٹی کو یقینی بنانے کے لیے کرنا تھا وہ آپ نے کرلیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس ملک کی معیشت کو ٹھوس ستونوں پر استوار کریں اور اس کے لیے جو مشکلات درپیش ہیں اس سے قوم کو آگاہ کریں۔
خیر سے پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مسلسل بیلیٹ باکس اختتام پذیر ہوا۔ بہت سے مبصرایسے بھی تھے جو انتخابات تو ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے تھے۔ میری اس تحریر تک کچھ بھی واضح نہیں لیکن اس مضمون کے چھپنے تک آپ کے سامنے تقریباً مکمل نتائج آچکے ہوں گے۔ انتخابات سے پہلے جو ماحول تھا اس پر تو بہت لکھ چکے لیکن انتخابات کے کیا دن پولنگ شفاف ہوئی ہوگی۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کا مقامی زور ہوتا ہے اور جو پارٹیاں مسلسل اقتدار میں رہی ہوتی ہیں ان کے پاس اپنے انداز کی دھاندلی کروانے کے گر بہتر ہوتے ہیں اس بار شاید یہ کام آسانی سے نہ ہوسکا ہو۔
پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے اور یہ بات ہم ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں۔ لیکن اس بار بحث بہت گرم ہوچکی ہے۔ اس بحث نے اب اک سمت لینی ہے۔ اس بار اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ نئے ووٹوں کا اندراج سب سے زیادہ ہوا ہے۔ نوجوانوں میں بیداری کا عمل بھی تیزی پکڑ چکا ہے۔
اس ملک کو نوجوان قیادت مریم نواز اور بلاول بھٹو کے روپ میں مل رہی ہے اب کے آنے والے زمانوں میں ہماری سیاست میں بہت سا عمل دخل نوجوانوں کا ہوگا۔ اس بار جو بات طے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک کو اب ایڈہاک بنیادوں پر نہیں چلایا جاسکتا۔ ایک مضبوط جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ ملک اب سرد جنگ کے زمانوں کی طرح امریکا کا اتحادی بھی نہیں رہا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم ایک بین الاقوامی اتحاد سے نکل کر دوسرے اتحاد میں چلے جائیں۔ ساتھ ساتھ ہم مکمل طور پر غیر وابستہ بھی نہیں رہ سکتے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہماری داخلی صورتحال پر بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہے اس لیے اس کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے ہم مکمل طور پر نظریاتی ریاست کے تصور کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
ہماری معیشت آپ کے سامنے ہے ہم چار فیصد شرح نمو سے زیادہ آگے بڑھ نہیں سکتے اور اگر قرضے لے کر بڑھے بھی ہیں تو ان قرضوں نے ہمارے خسارے کو اور مجموعی قرضوں کے بوجھ کو اس حد تک بڑھادیا ہے جہاں سے خود ہم قرضوں کے بحران Debt Crises کے بھنور میں پھنستے جا رہے ہیں۔
بنیادی طور پر جو حقیقت اس ملک کو اس نہج تک لے کر آئی وہ ہے ہماری مجموعی داخلی سیاسی صورتحال اس ملک میں کوئی بھی آزادانہ انداز میں سیاسی طور پر ابھر نہ سکا۔ لگ بھگ سب جو اقتداری سیاست میں رہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار کو پہنچے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آگے جاکے ٹکراؤ بھی ہو۔ خود اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بھی کسی معروضی حقیقتوں کے تناظر میں نہیں بنی ہوئی تھی۔ یعنی اس تصادم میں بھی کچھ ذاتی مفادات تھے جو ملکی مجموعی مفادات کے ٹکراؤ میں تھے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر ملک کے اندر ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور اس کی سوچ بہت حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔ محض یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے معنی عسکری قوتیں وغیرہ مناسب و حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ اس حقیقت جو ریاست کے بنائے ہوئے سوچ کے منصوبے کو آگے لے کر چلتی ہے اور اس سے جو بھی ٹکراؤ میں یا اختلاف میں آتا ہے اسٹیبلشمنٹ اس سے اختلاف رکھتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ لے وہ صحیح ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک سیکیورٹی کے حوالے سے Paradigm ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کا خواہ کتنا ہی پاپولر وزیر اعظم کیوں نہ ہو وہ اس سیکیورٹی Paradigm سے باہر نہیں جا سکتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے سیکیورٹی Paradigm اگر Organic نہ ہوں وہ ملک کے آئین اور باقی اداروں کے ساتھ مل کر ترتیب نہیں دیے ہوں یا یوں کہیے کہ ایک جگہ آکر یکسانیت کا شکار ہو گئے ہوں تو خود ایسے Paradigm تنقید کی نظر مانگتے ہیں اور ایسی تنقید مگر تعمیری ہونی چاہیے۔
ہم جن زمانوں میں رہتے ہیں وہاں خود جنگیں اپنی ماہیت تبدیل کرچکی ہیں۔ اس طرح ہماری سیکیورٹی نئے زاویے اور نئی سوچ مانگتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ کہیں بھی احساس نہ تھا کہ ہمارے مجموعہ قرضے اس حد تک بڑھ جائیں گے جہاں پر وہ ہماری آزاد حیثیت کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
معاملہ قرضوں کا بھی نہیں اتنے قرضے ہونا کوئی بڑی بات بھی نہیں۔ بنیادی طور پر معاملہ ہمارے برآمدات اور درآمدات میں خطرناک حد تک عدم توازن کا ہے۔ ہم اتنے ڈالر کماتے نہیں جتنے ڈالرکھپاتے ہیں۔ ہم ڈالر کمائیں بھی تو کیسے کمائیں ہم لوگوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ ان کی خوابیدہ قوتوں اور صلاحیتوں کو نہیں جگاتے۔ یہ بات درست ہے کہ کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی بار CPEC کے حوالے سے بہت بڑا Instructional پلان ہمارے سامنے آیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمارے دیہی سماج و معاشی رشتوں میں ابھی تبدیلی نہیں آئی اور یہاں تک کہ یہ دیہی سماج کے خد و خال ہمارے ملک کی مجموعی سیاست پرمنفی اثرات چھوڑتے ہیں۔
ان ووٹرز سے ووٹ لے کر ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچتے ہیں جو قانون سازی سے کوئی شوق نہیں رکھتے۔ وہ فلور پر کھڑے ہوکر بات تک نہیں کرتے۔ انھیں صرف یہ پتہ ہوتاہے کہ اقتدار کی ڈور حقیقی معنی میں کس کے پاس ہے اور جوں ہی حالات تبدیل ہوئے تو یہ بھی اپنا بوریا بستر باندھ دیتے ہیں۔ ان دیہی ووٹرز سے ووٹ لے کر جو ایوانوں میں پہنچتے ہیں ان کو اپنے لوگوں کے رہن سہن میں تبدیلی لانے سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اگر ترقی کر گئے تو پھر ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ دوسری طرف لوگوں کامعیار زندگی بہتر ہونا ہماری معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے ڈالر کمانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے دیہی پاکستان کا تبدیل ہونابہت اہم ہے۔ ان لوگوں کا ہنرمند ہونا ہمیں اور ڈالر کما کے دے گا جوکہ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ستر سال جس طرح ہم نے پاکستان چلایا ہے وہ اب اس طرح سے نہیں چل سکتا۔ ہمارے لیے بہت سے چیلنجز آگے پڑے ہیں جن کے لیے سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔
خیر سے 25 جولائی گزر گئی جو ووٹ لینے کے لیے آپ کو جھوٹے وعدے وغیرہ کرنے تھے یا جو اپنی پاپولیریٹی کو یقینی بنانے کے لیے کرنا تھا وہ آپ نے کرلیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس ملک کی معیشت کو ٹھوس ستونوں پر استوار کریں اور اس کے لیے جو مشکلات درپیش ہیں اس سے قوم کو آگاہ کریں۔