پاکستان تحریک انصاف ابھرتی ہوئی نئی سیاسی قوت
گزشتہ تمام انتخابات میں تحریک انصاف صرف ایک مرتبہ ایک نشست جیت کر اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر سکی تھی۔
لاہور:
موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک میں نئی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔
حالانکہ گزشتہ تمام انتخابات میں تحریک انصاف صرف ایک مرتبہ ایک نشست جیت کر اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر سکی تھی، مگر ان انتخابات میں تحریک انصاف نے مرکز اور دو صوبوں میں اچھی کارکر دگی کا مظاہرہ کرکے سب کو حیران کر دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے چیر مین عمران خان نے نیا پاکستان کے نعرے کے ذریعے جس طرح سے پاکستانی نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ دیا اس نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی تقلید پر مجبو ر کر دیا اور انھوں نے بھی نوجوانوں کو پارٹی منشور میں ترجیح دی۔
تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی جانب سے نوجوانوں کو انتخابی عمل میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے متحرک کرنے پر ٹرن آوٹ میں حیران کن اضافہ ہوا، حالانکہ پاکستان میں امن و امان کے جس چیلنج کا سامنا ہے اور جس طرح سے غیر جمہوری طاقتیں الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی تھیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ ٹرن آوٹ شاید پہلے سے بھی کم رہے مگر تمام سیاسی تجزیے، اندازے اور خدشات دھواں بن کر اڑ گئے اور پاکستانی قوم نے ثابت کیا کہ وہ ملک میں جہوریت چاہتے ہیں، ایسی بات نہیں کہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہی نوجوانوں نے ووٹ دیئے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو نوجوانوں نے ووٹ دئیے تاہم اس کا زیادہ حصہ تحریک انصاف کے حق میں گیا، گویا تحریک انصاف کی کوششوں کا پھل سب نے کھایا، اس کا فائدہ ملک وقوم کو بھی ہوا اور انتخابی عمل بہت شاندار طریقے سے مکمل ہوا ۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو عروج اس وقت حاصل ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے اہم مسائل جیسے دہشت گردی ، کرپشن، تھانہ ،کچہری اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے اور اصلاحات کا اعلان کیا اور صرف دو ، تین سال میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر چلا گیا ، دیگر سیاسی پارٹیوں کے'' سٹیٹس کو'' کے نظریات سے تنگ نئی نسل اور روشن خیال طبقے کو گویا امید کی ایک نئی کرن نظر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد عمران خان کے گرد جمع ہو گئے اور دسمبر 2011ء میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان لاہور پر تاریخی جلسہ کیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور اسے تانگہ پارٹی کہنے والوں کے منہ بند کر دیئے ، اس کے بعد یہ کارواں آگے بڑھتا ہی چلا گیا اور پارٹی کی مقبولیت، روشن خیال اور تعمیری نظریا ت کو دیکھتے ہوئے جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی جیسے اہم سیاسی رہنما تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔
یوں تحریک انصاف کو تجربہ کار مشاورت بھی میسر آ گئی، عمران خان نے 17سال قبل پاکستان کے فرسودہ نظام کو بدلنے کی جو جد و جہد شروع کی تھی اب اس کا اصل سفر شروع ہو اہے ، اس سے قبل عمران خان اور اس کی پارٹی کے عہدیدار اپنا سارا وقت عوام کو تبدیلی کے لئے متحرک کرنے میں گزارتے تھے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی ناکامیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ، کیونکہ سابق حکومت نے مہنگائی، بیروزگاری، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور امن و امان جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی بھرپور کو شش نہ کی اور عوام کو خالی خولی نعروں سے راضی کیا جاتا رہاجبکہ عوام عرصہ دراز سے انھی نعروں سے بہلتے ہوئے تنگ آ چکے تھے ۔
موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 31 پنجاب میں 19اورخیبر پختونخوا میں34نشستیں حاصل کی ہیں اور اس کا شمار ملک کی تین بڑی پارٹیوں میں ہونے لگا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف موجودہ نشستوں کے ساتھ مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکتی ہے کیونکہ اس نے دیگر پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں ، خیبر پختونخوا کے الیکشن نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف نے صوبے میں 34نشستیں حاصل کی ہیں اور اسے حکومت بنانے کے لئے مزید 16نشستوں کی ضرورت ہے، جماعت اسلامی کی 7اور 13 آزاد امیدواروں سے اس کی یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جماعت اسلامی سے تحریک انصاف کے الیکشن سے قبل بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ راضی ہو جائیں گے اس کے علاوہ آزاد امیداروں سے مذاکرات کرنا پڑیں گے، اب یہ تحریک انصاف کی قیادت پر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیسے کامیابی حاصل کرتی ہے ۔
خیبر پختونخواہ میں دوسری پارٹیوں کی پوزیشن کچھ یوں ہے، جمعیت علما ء اسلام ف نے16نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ ن لیگ نے 12نشستیں حاصل کی ہیں ، سابق صوبائی مقتدر جماعت صرف تین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، دیگر جماعتیں بھی اتحاد کے لئے پر تول رہی ہیں تاکہ حکومت کا حصہ بن سکیں ، جمعیت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کو خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا عندیہ دے چکے ہیں مگر کم نشستوں کی وجہ سے ان دونوں پارٹیوں کو بہت زیادہ سودے بازی کرنا پڑے گی ، ان دونوں جماعتوں کی نشستیں جمع کی جائیں تو 28بنتی ہیں ،گویا اگر یہ دونوں مل کر حکومت بنانا چاہیں تو انھیں مزید 22نشستوں کی ضرورت ہے جو آزاد امیدوار ملانے سے بھی پوری نہیں ہوتیں اس طرح انھیں مزید 10نشستوں کی ضرورت ہو گی اور کسی دیگر پارٹی سے معاملات طے کرنا پڑیں گے، اس سارے تناظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے چیر مین عمران خان نے اس کا عندیہ بھی دے دیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں امن و امان ، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے گی اور اسے مثالی صوبے کے طور پر پیش کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کا دو بڑی عوامی سیاسی جماعتوں اور مذہبی اور گروہی سیاست کی موجودگی میں اتنی کامیابی حاصل کر لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف میں خاموش اور نوجوان ووٹر کو متحرک کرنے کا پوٹینشل ہے اور مستقبل میں وہ پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرے گی۔
موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک میں نئی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔
حالانکہ گزشتہ تمام انتخابات میں تحریک انصاف صرف ایک مرتبہ ایک نشست جیت کر اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر سکی تھی، مگر ان انتخابات میں تحریک انصاف نے مرکز اور دو صوبوں میں اچھی کارکر دگی کا مظاہرہ کرکے سب کو حیران کر دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے چیر مین عمران خان نے نیا پاکستان کے نعرے کے ذریعے جس طرح سے پاکستانی نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ دیا اس نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی تقلید پر مجبو ر کر دیا اور انھوں نے بھی نوجوانوں کو پارٹی منشور میں ترجیح دی۔
تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی جانب سے نوجوانوں کو انتخابی عمل میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے متحرک کرنے پر ٹرن آوٹ میں حیران کن اضافہ ہوا، حالانکہ پاکستان میں امن و امان کے جس چیلنج کا سامنا ہے اور جس طرح سے غیر جمہوری طاقتیں الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی تھیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ ٹرن آوٹ شاید پہلے سے بھی کم رہے مگر تمام سیاسی تجزیے، اندازے اور خدشات دھواں بن کر اڑ گئے اور پاکستانی قوم نے ثابت کیا کہ وہ ملک میں جہوریت چاہتے ہیں، ایسی بات نہیں کہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہی نوجوانوں نے ووٹ دیئے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو نوجوانوں نے ووٹ دئیے تاہم اس کا زیادہ حصہ تحریک انصاف کے حق میں گیا، گویا تحریک انصاف کی کوششوں کا پھل سب نے کھایا، اس کا فائدہ ملک وقوم کو بھی ہوا اور انتخابی عمل بہت شاندار طریقے سے مکمل ہوا ۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو عروج اس وقت حاصل ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے اہم مسائل جیسے دہشت گردی ، کرپشن، تھانہ ،کچہری اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے اور اصلاحات کا اعلان کیا اور صرف دو ، تین سال میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر چلا گیا ، دیگر سیاسی پارٹیوں کے'' سٹیٹس کو'' کے نظریات سے تنگ نئی نسل اور روشن خیال طبقے کو گویا امید کی ایک نئی کرن نظر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد عمران خان کے گرد جمع ہو گئے اور دسمبر 2011ء میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان لاہور پر تاریخی جلسہ کیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور اسے تانگہ پارٹی کہنے والوں کے منہ بند کر دیئے ، اس کے بعد یہ کارواں آگے بڑھتا ہی چلا گیا اور پارٹی کی مقبولیت، روشن خیال اور تعمیری نظریا ت کو دیکھتے ہوئے جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی جیسے اہم سیاسی رہنما تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔
یوں تحریک انصاف کو تجربہ کار مشاورت بھی میسر آ گئی، عمران خان نے 17سال قبل پاکستان کے فرسودہ نظام کو بدلنے کی جو جد و جہد شروع کی تھی اب اس کا اصل سفر شروع ہو اہے ، اس سے قبل عمران خان اور اس کی پارٹی کے عہدیدار اپنا سارا وقت عوام کو تبدیلی کے لئے متحرک کرنے میں گزارتے تھے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی ناکامیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ، کیونکہ سابق حکومت نے مہنگائی، بیروزگاری، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور امن و امان جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی بھرپور کو شش نہ کی اور عوام کو خالی خولی نعروں سے راضی کیا جاتا رہاجبکہ عوام عرصہ دراز سے انھی نعروں سے بہلتے ہوئے تنگ آ چکے تھے ۔
موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 31 پنجاب میں 19اورخیبر پختونخوا میں34نشستیں حاصل کی ہیں اور اس کا شمار ملک کی تین بڑی پارٹیوں میں ہونے لگا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف موجودہ نشستوں کے ساتھ مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکتی ہے کیونکہ اس نے دیگر پارٹیوں سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں ، خیبر پختونخوا کے الیکشن نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف نے صوبے میں 34نشستیں حاصل کی ہیں اور اسے حکومت بنانے کے لئے مزید 16نشستوں کی ضرورت ہے، جماعت اسلامی کی 7اور 13 آزاد امیدواروں سے اس کی یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جماعت اسلامی سے تحریک انصاف کے الیکشن سے قبل بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ راضی ہو جائیں گے اس کے علاوہ آزاد امیداروں سے مذاکرات کرنا پڑیں گے، اب یہ تحریک انصاف کی قیادت پر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیسے کامیابی حاصل کرتی ہے ۔
خیبر پختونخواہ میں دوسری پارٹیوں کی پوزیشن کچھ یوں ہے، جمعیت علما ء اسلام ف نے16نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ ن لیگ نے 12نشستیں حاصل کی ہیں ، سابق صوبائی مقتدر جماعت صرف تین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، دیگر جماعتیں بھی اتحاد کے لئے پر تول رہی ہیں تاکہ حکومت کا حصہ بن سکیں ، جمعیت علماء اسلام ف کے قائد مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کو خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا عندیہ دے چکے ہیں مگر کم نشستوں کی وجہ سے ان دونوں پارٹیوں کو بہت زیادہ سودے بازی کرنا پڑے گی ، ان دونوں جماعتوں کی نشستیں جمع کی جائیں تو 28بنتی ہیں ،گویا اگر یہ دونوں مل کر حکومت بنانا چاہیں تو انھیں مزید 22نشستوں کی ضرورت ہے جو آزاد امیدوار ملانے سے بھی پوری نہیں ہوتیں اس طرح انھیں مزید 10نشستوں کی ضرورت ہو گی اور کسی دیگر پارٹی سے معاملات طے کرنا پڑیں گے، اس سارے تناظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے چیر مین عمران خان نے اس کا عندیہ بھی دے دیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں امن و امان ، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے گی اور اسے مثالی صوبے کے طور پر پیش کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کا دو بڑی عوامی سیاسی جماعتوں اور مذہبی اور گروہی سیاست کی موجودگی میں اتنی کامیابی حاصل کر لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف میں خاموش اور نوجوان ووٹر کو متحرک کرنے کا پوٹینشل ہے اور مستقبل میں وہ پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرے گی۔