منتوں مرادوں کا دن

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔ کتنی منتوں مرادوں کے بعد اور کتنی آس و یاس کے۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔ کتنی منتوں مرادوں کے بعد اور کتنی آس و یاس کے موسم چڑھنے اترنے کے بعد یہ دن آیا تھا۔ آس و یاس ایسی ویسی۔ غالب کے اس شعر کو دھیان میں لایئے۔

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے یہ گہر ہونے تک

کیسا کیسا نازک مرحلہ آیا اور اللّہ اللّہ کر کے گزر گیا۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔ اس وقت بھی کیسا کیسا نازک وقت آیا کہ کمند اب ٹوٹی اور اب ٹوٹی۔ مگر لشتم پشتم منزل پہ پہنچ ہی گئے۔ پھر تو باسی کڑی میں ابال آنا ہی تھا۔ اور ابال سا ابال۔ ہم نے ایک دوست کو فون کیا کہ تم ڈیفنس میں رہتے ہو۔ ووٹ بھی شاید ڈال آئے ہو۔ کچھ سناؤ کہ کیا دیکھا اور الیکشن کے دن کو کیسا پایا۔ بولا' مت پوچھو۔ بہار آئی ہوئی ہے۔ مشترکہ بوتھ میں لڑکے لڑکیاں ٹُوٹے پڑ رہے ہیں۔ یہ وقت ہے شگفتن گلہائے ناز کا۔

اس پر ہمیں اس علاقہ میں رہنے والے ایک دوست یاد آئے۔ کب سے پیپلز پارٹی کے ووٹر چلے آ رہے تھے، اب وہ شکایت کر رہے تھے کہ میرے بیٹوں بیٹیوں نے پوتیوں نواسیوں نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ عمران خان' عمران خان' میں کہاں جاؤں کیا کروں۔

ہم نے اس عزیز کو یاد دلایا تھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو طلوع ہوئے تھے تب کیا ہوا تھا۔ تم بھی تو اسی گلیمر کے کشتہ ہو۔ مگر

اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے


اور گلیمر تو ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔ آج یہاں کل وہاں۔ اب نیا سورج چڑھا ہے۔ نئی دھوپ' نیا گلیمر اور ہم ویسے بھی اس میدان میں پھسڈی ہیں۔ گلیمرس شخصیت بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوس ہندوستان میں کیسی بہار آئی رہتی ہے۔ خدا ان کی دنیائے فلم کو نظر بد سے بچائے۔ کیسا کیسا گل تازہ کھلتا ہے اور بہار دکھاتا ۔ ارے حسین جیسا نامی گرامی مصور دیوانہ بن گیا۔ جو شکل نظرآئی تصویر نظر آئی۔ اب اس کے لیے اپنی ساری مصوری' ساری نقش گری وقف تھی۔ ہمارے ادھر کیا ہے۔ لے دے کے کرکٹ سارا گلیمر ادھر ہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ اگر ایک گلیمرس شخصیت دستیاب ہو گئی ہے تو وہ تو مجھے لوٹے گی اور نوجوانوں کا معاملہ یہ ہے کہ گھسے پٹے سکے انھیں اپیل نہیں کرتے۔ انھیں گل تازہ چاہیے۔ اور وہ انھیں مل گیا ہے۔ سو بھائی

خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو

یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

ہم کسی کی وکالت نہیں کر رہے۔ ہم نے تو سچی بات ہے سوال کیے جانے پر کچھ اور ہی جواب دیا تھا۔ کسی چینل کی ایک بی بی پوچھتی گُچھتی ہمارے گھر آن پہنچی۔ سوال کیا کہ بتایئے ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔ ہم نے کہا کہ بی بی اگر معاشرہ باشعور ہو تو ووٹ کی بہت اہمیت ہے۔ اگر معاشرہ باشعور نہیں ہے یا معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو دیہات میں ہیں تو اپنے زمیندار کے اشارے پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں اور شہر میں ہیں تو جس نے زور دار تقریر کی اور چمک دکھائی اس کے پیچھے ہو لیے۔ تو پھر ایسے معاشرے میں ووٹ کی کوئی اہمیت کوئی قیمت نہیں ہے۔

جب' ان کی سمجھ میں ہماری بات نہ آئی تو ہم نے ایک مثال پیش کی۔ بتایا کہ آج ہی ہم نے اخبار میں پڑھا ہے کہ وزیرستان میں ایک گروپ نمودار ہوا ہے۔ وزیرستان ایکشن کمیٹی کے نام سے۔ اس نے اہل علاقے سے الیکشن میں کھڑے ہونے والوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم سے سودا کرو۔ ہم تمہیں ووٹ دیں گے۔ سودا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یہ وعدہ کرو اور ضمانت دو کہ تم پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد ہمارے علاقے کے گورنمنٹ اسکولوں کی عمارتوں کو قبضہ گروپوں سے خالی کراؤ گے اور استاد مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں انھیں مجبور کرو گے کہ وہ اسکول میں باقاعدگی سے آئیں اور لڑکوں کو پڑھائیں۔

دوسری بات یہ کہ یہاں جو ہیلتھ یونٹ قائم ہیں وہاں وہ ڈاکٹر جو مفت کی تنخواہ بٹورتے ہیں وہ یہاں آ کر بیٹھیں اور مریضوں کا علاج کریں۔ مطلب یہ نکلا کہ وزیرستان کے لوگ باشعور ہیں۔ اپنے مسائل سے آگاہ ہیں اور وہ اپنے امیدواروں سے یہ ضمانت چاہتے ہیں کہ وہ ایم این اے' ایم پی اے بننے کے بعد مسائل حل کریں گے۔ باقی ہمارے شہروں میں جو تعلیم یافتہ ووٹر ہیں ان کی طرف سے ابھی کسی ایسے شعور کا مظاہرہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے ووٹ کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

جو ہم نے جواب دیا اس سے قطع نظر یہ کیا بات ہے کہ وزیرستان جیسے دور افتادہ علاقوں میں جہاں تعلیم بہت کم ہے۔ ان لوگوں نے ہر مرحلہ میں باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں شہروں کی مخلوق زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ مگر وہ ایسے شعور سے بے بہرہ ہے۔ وہ ووٹ دیتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کیا ہم ایسے امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں جو پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد ہمارے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ووٹ دیتے وقت ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ کچھ اپنے مالی مفادات' کچھ ذات برادری کی طرفداری' کچھ جوشیلی تقریروں سے مرعوب اور متاثر ہونے کی روش اور نوجوان ان کا ووٹ گلیمر کے لیے وقت ہے۔ ان کی تعلیم نے انھیں یہی کچھ سکھایا ہے۔ ایسے لوگوں کے بیچ ووٹ کی کیا اہمیت اور کیا وقعت ہے۔

یہ وہ مخلوق ہے جو رو میں بہنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اب یہ اس رو پر موقوف ہے کہ وہ کس طرف انھیں بہا لے جاتی ہے۔
Load Next Story