سید پناہ علی شاہ ایک تعلیم دان

شاہ صاحب پر لوگوں کا بڑا اعتماد تھا کیونکہ وہ نہ صرف مذہبی تھے بلکہ پورے ایماندار تھے اور لوگوں کے بڑے کام آتے تھے۔

مجھے کبھی کبھی بڑا دکھ ہوتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ ہم کتنے خود غرض اور لالچی ہوگئے ہیں کہ دنیا داری کے چکر میں ہم لوگوں نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا ہے، جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں بے تحاشا خدمات سرانجام دی ہیں، جن کی وجہ سے آج ہمارے درمیان تعلیم حاصل کرنے والے اور اپنی معاشی حالت بہتر بنانے والے موجود ہیں۔ مرنا تو سب ہی نے ہے مگر جن لوگوں نے ملک، عوام اور تعلیم کے لیے کام کیا ہے وہ اب بھی زندہ ہیں ،کیونکہ ان کی تحریریں اور ان کے کارنامے بھلانے سے بھی نہیں بھلائے جائیں گے۔

ہم نے تاریخ پر بہت ہی کم کام کیا ہے جس کی وجہ سے ہماری نئی پود اپنے بڑوں کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، حکومت میں وہ لوگ آتے ہیں جنھیں سوائے اقتدارکے باقی نہ تو اپنے کلچر، زبان، تاریخ اور ماضی کی اہمیت سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ میں لوگوں کے بارے میں جاننے کے لیے کتنی محنت کرتا ہوں جب جا کرکچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں مگر اس میں بھی بڑے اختلافات موجود ہوتے ہیں۔

نسل در نسل آنے والی پود کو اپنے بڑوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں آتا۔ شاباش ہے ان لوگوں کو جو ماضی اور موجودہ شخصیات کی زندگی اور کارناموں کو ڈھونڈنے میں اپنی زندگی وقت اور قابلیت خرچ کرکے تاریخ کو سمیٹ کر آنے والے لوگوں کے لیے قلم بند کر دیتے ہیں۔

میں آج سندھ کی مشہور تعلیمی شخصیت سید پناہ علی شاہ کے بارے میں کچھ لکھنے جا رہا ہوں، جن کی تفصیل معلوم کرنے میں مجھے بڑی پریشانی اٹھانی پڑی ہے اور کئی مہینے لگ گئے ہیں۔ اس عمل میں نور محمد بھٹو جو خود بھی رائٹر ہیں انھوں نے میری بڑی مدد کی ہے۔ اب بھی کئی ایسی شخصیات ہماری نظر سے اوجھل ہیں جنھیں میں کھوج لگا کر پڑھنے والوں کے لیے پیش کروں گا۔

شاہ صاحب 6 جنوری 1918ء میں لاڑکانہ شہر کے قریب گاؤں دودائی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید امید علی شاہ اپنے بیٹے کی پیدائش کے ایک سال بعد چل بسے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سرائی شاہ محمد پرائمری اسکول لاڑکانہ اور میٹرک کا امتحان مدرسہ ہائی اسکول لاڑکانہ سے پاس کیا۔ بی اے کی ڈگری علی گڑھ یونیورسٹی سے اور ایم اے کی ڈگری بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ جیساکہ والد کی وفات کے بعد انھیں بڑی غربت کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے اس نے بی اے کا امتحان کئی سالوں میں پاس کیا کیونکہ وہ ایک سال نوکری کرکے کماتے تھے اور پیسے اکٹھے ہونے کے بعد تعلیم اورگھر چلانے کا خرچہ پورا کرتے تھے۔

جب کہ ان کی والدہ 1964ء میں انتقال کرگئیں تو وہ لوگ سکھر شہر شفٹ ہوگئے۔ انھوں نے بی ٹی کا امتحان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے، مونٹیسوری سسٹم کی تعلیم میں انھوں نے ڈپلومہ حاصل کیا جس کا امتحان میڈم مونٹیسوری نے خود کراچی میں 1946ء میں لیا تھا۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے سرٹیفکیٹ ان Experimental Psychology کا امتحان پاس کیا جب کہ پرائمری لیول کی انتظامیہ کا امتحان پوسٹ گریجویشن آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی سے کیا جس کے لیے انھیں حکومت پاکستان نے اسکالر شپ دے کر بھیجا تھا۔


شاہ صاحب کو ناز ہائی اسکول خیرپور میرس میں ٹیچر کی جاب ملی جہاں پر انھیں ماہانہ 25 روپے تنخواہ ملتی تھی وہاں یہ چار سال نوکری کرتے رہے اور ان کی تنخواہ 100 روپے تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد انھیں ڈائریکٹر پبلک ایڈمنسٹریشن خیرپور میرس اسٹیٹ میں بھرتی کیا گیا، پھر وہ پرنسپل ٹریننگ کالج خیرپور میرس، پرنسپل ناز ہائی اسکول خیر پور میرس، وہ انسپکٹر اسکولز کے طور پر پشاور، لاہور، راولپنڈی، حیدرآباد اورکراچی میں اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھاتے رہے۔ اس کے بعد وہ ڈپٹی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن، لاہور، کراچی اور حیدرآباد بھی رہے۔

ان کی قابلیت اتنی تھی کہ ہر طرف سے انھیں کئی عہدے آفر ہوتے تھے مگر وہ تعلیم کی خدمت کے لیے کہیں بھی نہیں گئے۔ وہ سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار، فاؤنڈر ڈائریکٹر آف بیورو آف کریکیولم حیدرآباد، ڈائریکٹر آف ایجوکیشن حیدرآباد اور آخر میں سیکریٹری ایجوکیشن سندھ 5 سال تک کام کرتے رہے۔ انھیں اسکاؤٹنگ سے بھی بڑی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے انھیں صدارتی میڈل آف میرٹ ملا، اس کے علاوہ وہ اسکاؤٹنگ کا سب سے بڑا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے تھے۔ گرلزگائیڈنگ کا سب سے بڑا ایوارڈ بھی انھیں مل چکا تھا۔ سندھ یونیورسٹی والوں نے شاہ صاحب کی تعلیمی خدمات کے صلے میں گولڈ میڈل 15 جولائی 1992ء میں یونیورسٹی میں منعقد کانووکیشن کے موقعے پر دیا۔ اس کے علاوہ انھیں سچائی گولڈ میڈل ایوارڈ 1997ء میں آل پاکستان مسلم ویلفیئر فورم کی طرف سے حاصل ہوا تھا۔

ذوالفقارعلی بھٹو انھیں بہت پسند کرتے تھے اور اس نے سب سے کہا ہوا تھا کہ جب تک پناہ علی شاہ زندہ ہیں وہ سیکریٹری ایجوکیشن ہی رہیں گے۔ ایک مرتبہ جب پیار علی الانہ جو سندھ کے تعلیم کے وزیر تھے اور انھوں نے شاہ صاحب سے کوئی ایسا کام کہا جو کرنے جیسا نہیں تھا اور شاہ صاحب نے الانہ کو ایک دم جواب دے دیا جس پر وہ چیف منسٹر غلام مصطفی جتوئی کے پاس شکایت لے کر گئے۔ انھوں نے بھی کہا کہ بھائی شاہ صاحب ایک ایماندار افسر ہے اور بھٹو اسے پسند کرتے ہیں اس لیے ہم خود کوئی بھی کام نہیں کہتے، اس لیے چپ ہوجاؤ۔ بھٹو کے بعد بھی وہ کام کرتے رہے اور 1978ء میں ریٹائر ہوگئے۔

وہ 1959ء تک میونسپلٹی پشاور کے ممبر رہے جب کہ 1962ء سے 1964ء لاہور میونسپل کارپوریشن کے ممبر، چائلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن پاکستان کے آنریری جنرل سیکریٹری، ویسٹ پاکستان جونیئر ریڈ کراس سوسائٹی پاکستان کے آنریری جنرل سیکریٹری رہے جب کہ وہ چالیس سال اسکاؤٹ کے طور پر کام کرتے رہے جہاں سے صوبائی اسکاؤٹ کمشنر سندھ ہوکر ریٹائرڈ ہوئے۔ آخر تک اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سندھ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے ممبر کے طور پر کام کرتے رہے۔

شاہ صاحب کو ٹاول بڑے پسند تھے اس لیے وہ ساری عمر جہاں بھی جاتے اچھے اچھے ٹاول خرید کے لاتے اور انھیں حفاظت سے استعمال بھی کرتے اور انھیں سنبھال کر بھی رکھتے۔ ان کی دوسری Hobby تھی ہر ملک کی پوسٹل ٹکٹیں جمع کرنا جو ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں موجود تھیں۔ بعد میں انھیں چائے اور کھانا کھانے کے چمچ جمع کرنے کا شوق ہوگیا اور وہ کسی بھی ملک یا شہرجاتے نئے نئے اسٹائل کے چمچ لے آتے جب وہ فارغ ہوتے تو اپنی جمع کی ہوئی چیزیں نکال کر انھیں دیکھتے رہتے۔

جب تک وہ زندہ رہے چست اور چوبند رہے ان کی یاد داشت بہت اچھی تھی اور آخری لمحوں تک انھیں ایک ایک بات یاد رہتی تھی۔ کھیلوں میں انھیں والی بال،کرکٹ اور ٹینس پسندتھی اور ان کھیلوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ وہ کلاسیکل موسیقی کو بہت پسند کرتے اور ٹی وی دیکھنے کا بڑا شوق تھا اور ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو جاتے تھے۔ وہ ایک پکے مذہبی شخص تھے جو باقاعدگی سے گھر میں نماز ادا کرتے تھے جب کہ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھتے۔ اسے نئے نوٹوں کی گڈیاں بڑی پسند تھیں اور جب بھی وہ تنخواہ یا پھر پنشن لیتے تو بینک والوں سے نئے نوٹ لیتے تھے۔

شاہ صاحب پر لوگوں کا بڑا اعتماد تھا کیونکہ وہ نہ صرف مذہبی تھے بلکہ پورے ایماندار تھے اور لوگوں کے بڑے کام آتے تھے اور وہ کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے۔ اکثر لوگوں کے درمیان شادی اور رشتے کرواتے تھے جو ہمیشہ کامیاب رہے اور دونوں پارٹیاں ان پر اندھا اعتماد کرتیں۔ ان کی بات کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوئی اس لیے لوگ ان کے پاس رشتوں کے لیے آتے تھے۔
Load Next Story