حجاج کے لیے زادِ سفر

کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں اس دیارِ مقدس میں حاضری اور اس کوچۂ محبت میں دِیدۂ و دِل فرش راہ کا شرف حاصل ہوا۔

کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں اس دیارِ مقدس میں حاضری اور اس کوچۂ محبت میں دِیدۂ و دِل فرش راہ کا شرف حاصل ہوا۔ فوٹو: فائل

حرمِ کعبہ، تجلیاتِ اِلٰہی کا مظہرِ جلیل، اہلِ اِیمان کے احترام و تقدیس کا دُنیا میں سب سے بڑا مرکز، اُمت مسلمہ کی وحدت و اِجتماعیت کا نشانِِ عالی شان، جہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس نے بارگاہِ ربانی کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دی ہے اور اس کے گناہ گار ہاتھوں میں کعبہ کا غلاف نہیں، بل کہ خدائے رحیم و کریم کا دامنِ رحمت آگیا ہے، جہاں عاصی و نافرمان پیشانیوں میں بھی سجدے مچلنے لگتے ہیں اور جہاں گونگی زبانیں بھی خدائے ذوالجلال سے ہم کلام ہوجاتی ہیں۔

مکہ مکرمہ سے قریب ہی شہرِ جاناں مدینہ منورہ ہے، یہاں کعبہ ابراہیمی تو موجود نہیں اور قبلۂ عبادت بھی یہ نہیں ہے، لیکن یہ مسلمانوں کا کعبۂ محبت اور قبلۂ مقصود ہے، جس کے ہر ذرّے سے محبت کی بوئے شمیم اُٹھتی ہے اور ہر مسلمان کے مشامِ جان کو عطر بیز کردیتی ہے، جس کا تصور بھی قلب کے لیے سامانِ سکون ہے اور جس کی گردِ راہ چشمِ محبت کا سرمہ اور مریضِ عشق کے لیے اکسیر ہے، کہ اسی کی آغوش میں وہ پاک اور عظیم ہستی آسودۂ خواب ہے، جس کی غلامی کا طوق بادشاہوں کے لیے تمغۂ اِفتخار اور وسیلۂ عزت و وقار ہے، پھر اسی شہر جاناں میں شمع نبوتؐ کے ہزاروں پروانے آرام فرما ہیں، یہاں کی فضاؤں میں بھی جاں نثارانِ اِسلام اور فداکارانِ محمدیؐ کے لہو کی خوش بو رَچی بسی ہے۔

کتنے خوش بخت اور سعادت نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اس دیارِ مقدس میں حاضری کا اور اس کوچۂ محبت میں دِیدۂ و دِل بچھانے کا شرف حاصل ہوا، کہ اَگر اِنسان یہاں سر کے بل چل کر بھی جائے، تب بھی شاید اس زمین کے تقدس کا حق اَدا نہ ہو، جہاں امام مالکؒ پورِی زندگی رہنے کے باجود ہمیشہ برہنہ پا چلا کیے اور چپل پہننا گوارا نہیں فرمایا۔ اس سعادت کا حال اُن عاشقانِ نامراد سے پوچھنا چاہیے جن کے سینوں میں تمنائیں کروٹ لیتی ہیں اور بعض دفعہ یہ آرزو اور اِشتیاق موتی بن کر دِیدۂ دِل سے دِیدۂ چشم تک پہنچ جاتا ہے، لیکن ان کے خواب تشنۂ تعبیر رہ جاتے ہیں، شاید ان کی یہ چاہت اور آرزو ہی ان کے حق میں حرمین شریفین کی حاضری کا بدل بن جائے کہ لذتِ ہجر کا مقام لذتِ وصال سے بھی سِوا ہے۔

لیکن جیسے زیارتِ حرمین کی سعادت ''سعادتِ عظمیٰ '' ہے، اِسی طرح اُسی قدر اس کی رِعایت اور پاس و لحاظ بھی ضروری ہے، جو نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے، اس کی ناقدری اور مرتبہ ناشناسی اسی قدر نقصان دہ بھی ہوتی ہے۔ اِس لیے جو لوگ حج کو جائیں، ضروری ہے کہ ان آداب کی رعایت بھی رکھیں، جو اس سفر سعادت اور سفر شوق و محبت کے لیے مطلوب ہیں اور یہی ان کا اصل توشۂ سفر ہے، ایسا نہ ہو کہ دُنیا کی متاعِ حقیر اور مادّی توشہ سفر سے تو آپ خوب آراستہ ہوں، لیکن جو سامانِ سفر اس سے زیادہ اہم ہے اور جو قلب و رُوح کی غذا ہے، اسی سے آپ محروم جائیں۔ راحت و آسائش کے سامان تو کہیں بھی خریدے جاسکتے ہیں اور قرار و سکون کے لمحات کے لیے ساری عمر پڑی ہے، لیکن جب آپ بے قراری کے خریدار ہیں اور راہِ خدا میں تڑپنے اور بے سکون ہونے کی راہ منتخب کر رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ پہلے دِل و رُوح کے لیے توشہ سفر تیار کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نوجوان آئے اور عرض کیا کہ میں حج کے لیے نکل رہا ہوں۔ آپؐ تھوڑِی دُور اُن کے ساتھ ساتھ چلے، پھر سر مبارک اُٹھایا اور اُس نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے اِرشاد فرمایا: '' اے لڑکے! اللہ تمہارا حج قبول فرمائے، تمہارے گناہ معاف کرے اور تمہارے اخراجات کا بدل عطا کرے۔''

(مجمع الزوائد، عن ابن عمرؓ )


دیکھا آپ نے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عازم حج کو جو زادِ سفر عطا کیا، وہ تقویٰ اور دعا کا تھا، تقویٰ گناہوں اور اللہ کو ناراض ہونے والی باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا نام ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ حج خالص اور غیر مشتبہ مال سے کیا جائے اور حرام تو کجا، انسان اپنے آپ کو مالِ مشکوک سے بھی بچائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: ''جس نے حرام کمائی سے بیت اللہ شریف کا اِرادہ کیا، تو جب وہ احرام باندھتا ہے، اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور سواری اسے لے کر چلتی ہے، پھر وہ کہتا ہے: لبیک اللّٰہم لبیک تو آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا لگاتا ہے: لا لبیک و لا سعدیک (تمہاری حاضری قبول نہیں ) تمہاری کمائی حرام، تمہارا توشہ سفر حرام اور تمہاری سواری حرام، گناہوں کا بوجھ لے کر اور اجر و ثواب سے محروم لوٹ جاؤ اور ایسی خبر سنو جو تم کو غمگین کرے اور جب حاجی مالِ حلال کے ذریعہ سفر شروع کرتا ہے، اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور سواری اسے لے کر چلتی ہے، پھر وہ کہتا ہے: لبیک اللّٰہم لبیک! تو منادی آسمان سے ندائے غیبی لگاتا ہے: لبیک و سعدیک (میں نے تمہارا آنا قبول کیا) تمہاری سوارِی حلال ہے، تمہارا کپڑا حلال ہے اور تمہارا توشہ سفر حلال ہے، اجر کے ساتھ گناہ کے بوجھ سے محفوظ لوٹ جاؤ اور ایسی خبر سنو جو تمہارے لیے خوش کن ہو۔'' (مجمع الزوائد: باب فی الحج و الاحرام)

سود کا پیسہ ہو، رِشوت کی رقم ہو، ناجائز تجارت یا ملازمت کی آمدن ہو، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسے فروخت کیا گیا ہو، شادی میں بیوی یا بہو کے والدین سے رقمیں اینٹھی گئی ہوں، بہنوں کو میراث سے محروم کر کے جائیداد بڑھائی گئی ہو، یا کسی اور طور پر مالِ حرام حاصل کیا گیا ہو، نہ ان کو حج میں استعمال کرنا جائز ہے اور نہ یہ درست ہے کہ حاجی اپنے کاندھوں پر یہ بارِ گناہ رکھ کر ساتھ لے جائے اور اس سے تائب نہ ہو۔

حج کے ذریعے مومن کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور اِیمان کی تجدید عمل میں آتی ہے، اِسی لیے اِسلام کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلے گناہوں کو ختم کرنے والا قرار دیا ہے اور حج کو بھی!

نئی زندگی کے لیے اس میں اِنقلاب اور صالح تبدیلی کا آنا ضروری ہے اور اس اِنقلاب کی اِبتداء توبہ سے ہوتی ہے۔ توبہ کیا ہے؟ اپنے گناہوں پر شرم ساری اور اس کی تلافی کی کوشش، خاص کر جہاں لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہو، وہاں ضروری ہے کہ حقوق کو اَدا کیا جائے یا حقوق معاف کرائے جائیں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ کہیں: خداوندا! میں حاضر ہوں اور خدا کی طرف سے جواب آئے: بندے! تیری حاضری قبول نہیں۔ یہ کیسی محرومی و نامرادی اور کم نصیبی و بدبختی ہوگی۔۔۔۔۔

حج کا مقصد رُوح کو غذا پہنچانا اور اس کے لیے قوت و تازگی کا سر و سامان مہیا کرنا ہے، اگر انسان وہاں پہنچ کر بھی سامانِ دُنیا کی خریدارِی کے لیے بے چین ہو اور لوگوں کے لیے دعاؤں اور نیک تمناؤں کی سوغات لے جانے کے بہ جائے کپڑے اور میووں کا تحفہ خریدتا پھرے، تو اس سے زیادہ ناموزوں بات اور کیا ہوگی؟ یہ متاعِ ناپائیدار تو ہر جگہ میسر ہے، وہاں تو دِین و اِیمان کی متاعِ گراں مایہ جمع کرنی ہے، لیکن افسوس! کہ ارکانِ حج پورے بھی نہیں ہوتے ہیں کہ بہت سے حجاج واپسی کا اور واپس ہوتے ہوئے اپنے قرابت داروں اور رشتے داروں کے لیے تحائف کے خرید نے کا پروگرام بنانا شروع کردیتے ہیں۔ حج کا اصل تحفہ دُعا ہے اور میسر ہو تو ارضِ مبارک کے تبرکات ''زم زم اور کھجور'' اور بس!

اللہ کا شکر ہے کہ حجاج کی تعداد میں ہر سال اِضافہ ہی ہوتا جاتا ہے، حج کی مشقتیں بھی نسبتاً کم ہوتی جارہی ہیں، کسی زمانے میں حج کو بڑھاپے کی عبادت سمجھا جاتا تھا، لیکن آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حج کا سفر کرتی ہے، لیکن اُمت کی ذِلت و رُسوائی اور اس کی حرماں نصیبی بھی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے، ہمارِی دُعائیں، ہمارِی اِلتجائیں اور آہ و زاریاں لگتا ہے کہ بارگاہِ ربانی سے واپس کردی جاتی ہیں، آخر یہ کیوں ہے؟ اِس لیے کہ ہماری عبادتیں بے رُوح ہوگئی ہیں، وہ اِخلاص و اہتمام سے عارِی ہیں، اِسی لیے وہ بے تاثیر سی ہوگئی ہیں کیوں کہ جو صورتیں حقیقت سے محروم ہوں، وہ بے تاثیر ہی ہوا کرتی ہیں۔
Load Next Story