ایک پریزائیڈنگ اسٹاف کی ڈائری
میرے لیے تو جنگ کا سماں تھا، مزیدیکہ حساس اسٹیشن جس کے بارے میں انتہائی خوفناک قسم کی رائے عامہ تھی
جولائی 25 کی صبح کا آغاز ہر ایک کےلیے مختلف تھا۔ کچھ لوگ نئے پاکستان کی آس لیے پر جوش تھے اور کچھ پرانے کےلیے بضد۔ ایسے بھی عوام تھے جن کےلیے یہ صرف ہلے گلے کا دن تھا اور بس۔ ایسے میں گورنمنٹ آفیسرز سب کے سب ٹینشن کے مختلف لیولز پر براجمان تھے۔ ہر اسکیل کا ہر بندہ اپنی ڈیوٹی کےلیے ایک ٹانگ پر کھڑا تھا۔ آرمی، عدلیہ، ایجوکیشن، ہیلتھ، پولیس، سب ہائی الرٹ۔
مجھ جیسے نو آموز کےلیے توجنگ کا سا سماں تھا۔ مزید یہ کہ حساس اسٹیشن اور اس کے بارے میں انتہائی خوفناک اور نامعقول قسم کی رائے عامہ۔ جس نے بھی سنا کھلے منہ سے ''اوووہ!'' کے تاثرات سے نوازا۔ رفتہ رفتہ میری حالت بھی پتلی ہونے لگی۔
سنجیدگی کے ساتھ والدہ سے پوچھا، ''بارڈر پر وفات تو شہادت کا درجہ دلاتی ہے، ادھر کا کیا حساب ہوگا؟''
''اگر ایمانداری کی حالت ہوئی تو شہادت، اور اگر دھاندلی کراتے ہوئے کوچ کیا توووووو...'' یہ نامکمل جواب بھائی کی طرف سے موصول ہوا۔ کچھ تسلی ہوئی کہ چلو دنیا کی خیر ہے، آخرت ہی سنور جائے گی۔
پہلی ڈیوٹی کا جوش بہرحال غیرمعمولی تھا جو خوف پر غالب رہا۔ آرمی، پولیس اور مختلف چیکنگ ٹیمز کی آمد نے رہا سہا ڈر بھی بھگا دیا، اور بڑی موج میں ڈیوٹی ہوئی۔ مجھے انسٹرکشنز تھیں کہ اگر عورتوں کو ووٹ سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہو تو اطلاع دیجیے لیکن وہاں تو تانتا بندھا رہا۔ خواتین میں ووٹ کی اہمیت کا احساس بہت خوش آئند بات ہے۔ بریک کا ٹائم نہیں تھا جس پر اعتراض واجب ہے اور منتظمین کو آئندہ دھیان رکھنا چاہیے۔ میرا اپنا عملہ ایک وقت پر آ کر بار بار غلطیاں دہرانے لگا؛ جان بوجھ کر نہیں بلکہ ذہنی و جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے۔ سو بریک تو ضروری تھی۔
بہرحال، سب سے دلچسپ مرحلہ ''ووٹ کاؤنٹنگ'' (ووٹ گننے) کا تھا، بچپن یاد آ گیا۔ اس کے بعد والے مراحل اگرچہ مشکل تھے مگر خوش اسلوبی سے نمٹ گئے۔ پھر ہماری سواری بجانب عدالت چلی۔ وہاں جاکر حقیقت میں چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اوووف ف ف... بے تحاشا عوام الناس اور لمبی لائنیں۔ اولڈ اسٹاف پریزائیڈنگز کی حالت زیادہ بری ہورہی تھی کیونکہ صبح سے رات تک کی ڈیوٹی اور پھر لمبا انتظار۔ بہرحال برداشت کا امتحان تھا۔
رزلٹ ریسیونگ پر زیادہ لوگ تعینات ہوتے تو بہتر تھا۔ یقیناً ہمارے آنے والے وزیراعظم نہیں جان پائیں گے کہ ایک اہل بندے کو اس مقام تک لانے میں ہم سب کی ایماندارانہ مشقت اور محنت بھی ہم قدم رہی ہے۔ اس کا احساس ہونے کےلیے سسٹم کا حصہ بننا ضروری ہے۔
عدلیہ، پاک فوج، پولیس اور تمام انتظامی آفیسرز سلیوٹ کے مستحق ہیں۔ اللہ پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور ہنستا مسکراتا مستقبل عطا کرے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مجھ جیسے نو آموز کےلیے توجنگ کا سا سماں تھا۔ مزید یہ کہ حساس اسٹیشن اور اس کے بارے میں انتہائی خوفناک اور نامعقول قسم کی رائے عامہ۔ جس نے بھی سنا کھلے منہ سے ''اوووہ!'' کے تاثرات سے نوازا۔ رفتہ رفتہ میری حالت بھی پتلی ہونے لگی۔
سنجیدگی کے ساتھ والدہ سے پوچھا، ''بارڈر پر وفات تو شہادت کا درجہ دلاتی ہے، ادھر کا کیا حساب ہوگا؟''
''اگر ایمانداری کی حالت ہوئی تو شہادت، اور اگر دھاندلی کراتے ہوئے کوچ کیا توووووو...'' یہ نامکمل جواب بھائی کی طرف سے موصول ہوا۔ کچھ تسلی ہوئی کہ چلو دنیا کی خیر ہے، آخرت ہی سنور جائے گی۔
پہلی ڈیوٹی کا جوش بہرحال غیرمعمولی تھا جو خوف پر غالب رہا۔ آرمی، پولیس اور مختلف چیکنگ ٹیمز کی آمد نے رہا سہا ڈر بھی بھگا دیا، اور بڑی موج میں ڈیوٹی ہوئی۔ مجھے انسٹرکشنز تھیں کہ اگر عورتوں کو ووٹ سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہو تو اطلاع دیجیے لیکن وہاں تو تانتا بندھا رہا۔ خواتین میں ووٹ کی اہمیت کا احساس بہت خوش آئند بات ہے۔ بریک کا ٹائم نہیں تھا جس پر اعتراض واجب ہے اور منتظمین کو آئندہ دھیان رکھنا چاہیے۔ میرا اپنا عملہ ایک وقت پر آ کر بار بار غلطیاں دہرانے لگا؛ جان بوجھ کر نہیں بلکہ ذہنی و جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے۔ سو بریک تو ضروری تھی۔
بہرحال، سب سے دلچسپ مرحلہ ''ووٹ کاؤنٹنگ'' (ووٹ گننے) کا تھا، بچپن یاد آ گیا۔ اس کے بعد والے مراحل اگرچہ مشکل تھے مگر خوش اسلوبی سے نمٹ گئے۔ پھر ہماری سواری بجانب عدالت چلی۔ وہاں جاکر حقیقت میں چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اوووف ف ف... بے تحاشا عوام الناس اور لمبی لائنیں۔ اولڈ اسٹاف پریزائیڈنگز کی حالت زیادہ بری ہورہی تھی کیونکہ صبح سے رات تک کی ڈیوٹی اور پھر لمبا انتظار۔ بہرحال برداشت کا امتحان تھا۔
رزلٹ ریسیونگ پر زیادہ لوگ تعینات ہوتے تو بہتر تھا۔ یقیناً ہمارے آنے والے وزیراعظم نہیں جان پائیں گے کہ ایک اہل بندے کو اس مقام تک لانے میں ہم سب کی ایماندارانہ مشقت اور محنت بھی ہم قدم رہی ہے۔ اس کا احساس ہونے کےلیے سسٹم کا حصہ بننا ضروری ہے۔
عدلیہ، پاک فوج، پولیس اور تمام انتظامی آفیسرز سلیوٹ کے مستحق ہیں۔ اللہ پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور ہنستا مسکراتا مستقبل عطا کرے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔