پیپر لیس انتخابات میں کیا قباحت ہے

اگر پیر لیس انتخابی عمل وجود میں آجائے تو ٹرن آؤٹ پینتالیس فیصد کے اوسط سے بڑھ کر نوے فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

ویسے تو ٹیکنالوجی کے پیٹے ہوئے ڈھنڈورے کے مطابق مکمل انتخابی نتائج چھبیس جولائی کی صبح تک آ جانے چاہیے تھے مگر کیا کیا جائے نگوڑی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا۔ جہاں ایپ کو سگنلز ملے وہاں اس نے کام دکھایا اور نتائج رات دو بجے تک ہی مرتب ہو گئے جیسے ملتان میں شاہ محمود قریشی کا حلقہ۔لیکن جہاں سگنل نہیں آ رہے تھے جیسے لیاری وہاں کے نتائج کو مرتب ہونے میں اڑتالیس گھنٹے لگ گئے۔اب نادرا کے بنائے اس نادر ایپ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اگلے پانچ برس پڑے ہیں۔

مگر جس تیزی سے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اسے دیکھ کے لگتا ہے کہ دو ہزار تئیس تک کوئی ایسا ڈیوائس بھی آجائے جو انتخابی عمل کو پولنگ اسٹیشن کے جھنجھٹ سے ہی آزاد کر دے۔ممکن ہے کہ ہر حلقے میں آبادی کے تناسب سے الیکٹرونک دروازے لگائے جائیں۔ان کی خوبی یہ ہو کہ ہر ووٹر کا ذہن پڑھ لیں گے۔جیسے ہی ووٹر دروازے میں سے گذرے ایک بزر بجے اور دروازے کی پیشانی پر چمک اٹھے پاکستان تحریکِ انصاف ، دوسرا ووٹر گذرے تو پیپلز پارٹی کانام چمک جائے ، تیسرا ووٹر گذرے تو لبیک کا بزر بج جائے گا۔اس طریقے سے گھنٹے دو گھنٹے میں لمبی سے لمبی ووٹر قطار بھی فارغ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ دو ہزار تئیس میں کوئی ایسا ایپ آ جائے جسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد آپ اپنا اور انتخابی حلقے کا نام اور شناختی کارڈ نمبر ڈالیں اور ووٹ کا بٹن دبا دیں۔ آپ کا ووٹ سیدھا الیکشن کمیشن کے ماسٹر کمپیوٹر میں لینڈ کر جائے۔جن ووٹروں کے پاس یہ ایپ نہ ہو انھیں مصنوعی ذہانت سے لیس الیکٹرونک دروازے سے گذار دیا جائے۔

یوں پاکستان پیپر لیس جمہوریت کے دور میں داخل ہو جائے گا اور معذور افراد ، قیدی ، سمندر پار پاکستانی ، خواجہ سرا غرض ہر وہ شہری ووٹ کا حق استعمال کر پائے گا جو کرنا چاہے۔آدھے ووٹر دھوپ، گرمی ، دیر سے اٹھنے کی عادت یا پولنگ اسٹیشن معلوم نہ ہونے کے سبب ووٹ دینے کا تکلف ہی نہیں کرتے۔اگر پیر لیس انتخابی عمل وجود میں آجائے تو ٹرن آؤٹ پینتالیس فیصد کے اوسط سے بڑھ کر نوے فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

سوچئے اس ایک کام کے سیدھے ہونے سے اور کتنے کام سیدھے ہو سکتے ہیں۔ساڑھے چار سو ارب روپے کا سرکاری و نجی انتخابی خرچہ ، پچاسی ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن، سولہ لاکھ انتخابی عملہ ، پونے چار لاکھ مسلح افواج اور نیم فوجی سپاہیوں کے پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر پہرہ دینے والے سپاہی، پولیس کی چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹیاں ، پبلسٹی ، الیکشن ورکرز، ٹرانسپورٹ، اشتہار بازی، خرچے کے گوشواروں میں بھرا جانے والا جھوٹ ، کروڑوں ورکنگ گھنٹوں کی بچت سمیت جانے کس کس مسئلے سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ سوچئے انتخابی دن کے موقع پر تشدد میں کتنی کمی آ جائے گی۔

عمران خان نے ایک ایک دن میں آٹھ آٹھ جلسوں سے خطاب کیا ، شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر پانچ مختلف جلسہ گاہوں میں اترا۔مگر کیوں ؟ اتنا ہلکان ہونے اور روزانہ ایک جلسے سے دوسرے میں پہنچنے کے لیے لاکھوں روپے ہیلی کاپٹر کے پروں سے باندھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھے حیرت ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں اور کمپیوٹر اسکرینوں پر گھمسان کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کو ہالوگرام ٹیکنالوجی کے استعمال کا خیال کیوں نہیں آیا۔


انتخابی مہم میں تھری ڈی ہالوگرام ٹیکنالوجی کا وسیع استعمال دو ہزار چودہ میں نریندر مودی کی ٹیم نے کامیابی سے کیا۔یعنی گوشت پوست کا اصلی نریندر مودی تو ایک جگہ تقریر کر رہا تھا لیکن اس کا ہو بہو تھری ڈی جیتا جاگتا وجود بھارت کے طول و عرض میں نوے مختلف جلسہ گاہوں میں بھی بنائے گئے اسٹیج پر ہزاروں حامیوں کو فل ایکشن میں دکھائی دے رہا تھا۔گویا اب ایک ساتھ بہت سے جلسوں سے خطاب کرنا اور بیک وقت بہت سی جگہوں میں نظر آنا ممکن ہے۔

بلاول بھٹو نے سال بھر پہلے بس ایک بار ہالوگرام ٹیکنالوجی کو اپنے خطاب کے لیے استعمال کیا۔مگر الیکشن میں ایک بار بھی کسی کو اس کا استعمال یاد نہ آیا۔حالانکہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے سیاسی پارٹی کے مرکزی رہنما بلا تکان اپنے جلسوں کی تعداد درجنوں سے بڑھا کر باآسانی سیکڑوں تک لے جا سکتے ہیں۔

استعمال نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ انسانی نفسیات پرانے طور طریقے چھوڑنے اور نئے طریقے اپنانے میں وقت لیتی ہے۔جیسے سب سے افضل چپاتی وہ نہیں جو سامنے دھری ہے بلکہ وہ ہے جو ابھی ابھی توے سے اتر کے گرما گرم آئی ہے اور یہ روٹی اماں کے ہاتھ کی ہو تو کیا کہنے۔سالن مائیکرو ویو میں باآسانی اور بغیر کام پھیلائے گرم ہو سکتا ہے مگر سالن کی دیگچی چولہے پر رکھ کے گرم کرنے سے جو آنند زبان کو ملتا ہے وہ مائیکرویو میں کہاں۔جو مزا توے کے پراٹھے میں ہے وہ بازار کی پیکنگ میں دستیاب فروزن پراٹھے میں آ ہی نہیں سکتا۔آٹا تو ہاتھ سے گندھا ہی اچھا ہوتا ہے۔مشین سے گندھے آٹے کی روٹی میں بھلا کیا مزہ۔

اسی طرح آئس کریم وہ بہترین ہے جو ہینڈ میڈ ہو ، گرم مصالحہ وہ اچھا جو تازہ تازہ کچن کے گرائینڈر میں تیار ہو ، چٹنی وہ لاجواب جو سل بٹے پر پیسی جائے۔بوتل کی چٹنی میں وہ مزہ کہاں۔بال وہ جو قینچی سے کٹیں۔مشینی استرے میں کیا لطف ؟ شیو وہ جو نائی بنائے ، شیونگ مشین سے تسلی تھوڑی ہوتی ہے۔

تصویر وہ جو ہاتھ سے فوکس کرنے والے کیمرے سے لی جائے۔موبائیل فون کے کیمرے میں وہ بات پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔کتاب وہ جو ہاتھ میں ہو ، ای بک کتاب تھوڑی ہے۔شادی کا دعوت نامہ کسی ہانپتے کانپتے رشتے دار کو موٹر سائیکل پرگھر پہنچانا مانگتا۔بھلے میرا گھر پچاس کلومیٹر دور ہی کیوں نہ ہو۔حالانکہ یہی دعوت نامہ ای میل ، وٹس ایپ اور ایس ایم ایس پر بھی تو آ سکتا ہے۔مگر اس میں غیریت کا پہلو نکل آتا ہے اور شادی میں شرکت کو جی نہیں چاہتا۔

اس ذہن کو بدلنے میں کم ازکم دو نسلیں درکار ہیں۔ لیکن لیڈر چاہے تو قوم مختصر عرصے میں بھی ڈجیٹائز ہو سکتی ہے۔انتخابی نظام پہلے سے زیادہ سہل ، شفاف ، پھرتیلا اور کم سے کم خامیوں والا بنایا جا سکتا ہے۔مگر زندگی اتنی ہی آسان ہو جائے تو کاہے کی زندگی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story