نغمہ نگار نخشب جارچوی کے دلنواز نغمات

نخشب ایک دن بمبئی کے فلمی ماحول میں موجود تھے ان کی پہلی ملاقات مشہور فلمساز و ہدایت کار وی شانتارام سے ہوئی تھی۔

hamdam.younus@gmail.com

KARACHI:
ہدایت کار کمال امروہی کی فلم ''محل'' اور شاعر نخشب جارچوی کی فلم ''زندگی یا طوفان'' اپنے وقت کی دو شاندار نغماتی فلمیں تھیں جن کی کہانیاں تو خاص نہیں تھیں مگر ان فلموں کے دلکش نغمات نے فلم بینوں کے دل موہ لیے تھے اور ان دونوں ہی فلموں کے نغمات نخشب جارچوی کے لکھے ہوئے تھے ان نغمات میں پھولوں کی سی تازگی اور دلوں کو مسحور کردینے والی نغمگی بدرجہ اتم موجود ہوتی تھی اور ان کی شاعری کا یہی کمال انھیں دہلی سے ممبئی کی فلم انڈسٹری تک لے آیا تھا۔

نخشب جارچوی کا گھریلو نام اختر عباس تھا یہ 1925ء میں اتر پردیش کے ایک ضلع جارچہ میں پیدا ہوئے تھے اور جب انھوں نے شاعری کا آغاز کیا تو اپنا شاعرانہ نام بھی اپنے قصبے کی مناسبت سے نخشب جارچوی رکھا تھا۔ نوعمری کے زمانے ہی سے شاعری کا آغاز کردیا تھا ابتدا ہی سے رومان پرست تھے تو ان کی شاعری بھی رومانی اندازکی تھی۔ یہ پہلی بار جب دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں منظر عام پر آئے تو ان کی شاعری نے سننے والوں کے دل جیت لیے تھے اور اپنے پہلے مشاعرے ہی سے شہرت کے راستے کے ہم سفر بن گئے تھے، مذکورہ مشاعرے کی صدارت مشہور شاعرکنور مہندر سنگھ بیدی نے کی تھی۔ پھر نخشب جارچوی مہندر سنگھ بیدی کی معاونت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے رہے تھے۔

ایک دن مہندر سنگھ بیدی نے ہی نخشب جارچوی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ نخشب تمہاری جگہ دہلی نہیں بلکہ ممبئی کی فلم انڈسٹری ہے۔ مہندر سنگھ بیدی ایک جید شاعر اور بڑے جہاندیدہ شخص تھے، ان کے اندر جوہریوں جیسی پرکھ تھی۔ انھوں نے نخشب کی شاعری سے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ نخشب کی شاعری بڑی آسانی سے فلموں کی زینت بنائی جا سکتی ہے۔

نخشب ایک دن بمبئی کے فلمی ماحول میں موجود تھے ان کی پہلی ملاقات مشہور فلمساز و ہدایت کار وی شانتارام سے ہوئی تھی، ان کے پاس کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا ایک سفارشی خط بھی تھا اس خط نے پہلا راستہ دکھایا پھر ان کے کام نے وی شانتارام کو بھی اچھی طرح رام کر لیا تھا۔ اس طرح بحیثیت فلمی گیت نگار ان کے کیریئر کا آغاز وہی شانتارام کسی فلم ''پربت پہ اپنا ڈیرا'' سے ہوا تھا، اس فلم کے موسیقار وشت ڈیسائی تھے۔ مذکورہ فلم میں نخشب کے لکھے ہوئے ایک گیت کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی جس کے بول تھے:

جو درد بن کے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں

وہ گیت ٹوٹے ہوئے دل سے گائے جاتے ہیں

اس گیت نے فلم بینوں کے دلوں پر اس طرح دستک دی تھی کہ نخشب جارچوی کی شاعری نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ ان کی شاعری کا یہ بیساختہ انداز اس دور کے نامور فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی کو بھی پسند آیا تھا۔ ان دنوں وہ اپنی فلم ''زینت'' بنا رہے تھے اور فلم زینت کے شاعروں میں پہلے ہی سے شیون رضوی، انجم پیلی بھیتی اور ماہر القادری گیت لکھ رہے تھے۔ پھر شوکت حسین رضوی نے نخشب جارچوی کو بھی شاعروں کی ٹیم میں شامل کر لیا تھا اور ان سے اپنی فلم کے لیے ایک قوالی لکھوائی تھی اور یہ کسی فلم کی پہلی قوالی تھی جو نور جہاں، کلیانی اور زہرہ بائی انبالے والی کی آوازوں میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس قوالی کے بول تھے:

آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے

کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا

ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے

ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا

فلم ''زینت کی اس قوالی نے سارے برصغیر میں ایک دھوم مچادی تھی اور قوالی گھر گھر میں مشہور ہو گئی تھی اور صحیح معنوں میں نخشب جارچوی کی شہرت کا آغاز فلم زینت کی اس قوالی سے ہوا تھا۔ زینت 1945ء میں ریلیز ہوئی تھی اس فلم کے دو موسیقار تھے حفیظ خان اور میر صاحب اور فلم کے مصنف تھے وجاہت مرزا چنگیزی۔ فلم زینت اپنے دور کی بڑی کامیاب ترین فلم تھی۔

اس فلم کے بعد کمال امروہی جو فلمساز و اداکار اشوک کمار کی فلم ''محل'' کے ہدایت کار تھے انھیں نخشب کی قوالی نے بڑا متاثر کیا تھا حالانکہ وہ خود بھی شاعر تھے مگر انھوں نے فلم محل کے گیتوں کے لیے نخشب جارچوی کا انتخاب کیا تھا۔ فلم کے موسیقار کلیم چند پرکاش تھے۔ فلم محل کی سب سے بڑی خوبی اس فلم کے گیت اور موسیقی تھی۔ ہرگیت ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ وہ سارے گیت ایسے تھے کہ آج بھی اگر انھیں سنو تو وہ دل پر اثرکرتے ہیں اور لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر کی وہ پہلی قابل ذکر فلم تھی جس کی مدھر موسیقی اور دلنواز گیتوں نے اسے بھی شہرت دوام بخشی تھی۔ ہر گیت ایسا تھا جیسے انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے۔ چند گیتوں کے مکھڑے قارئین کی نذر ہیں جن کی دلکشی آج بھی برقرار ہے:

آئے گا، آئے گا آنے والا آئے گا آئے گا

جوانی بیت جائے گی یہ رات پھر نہ آئے گی

دل نے پھر یاد کیا بے وفا لوٹ کے آ

مشکل ہے بہت مشکل چاہت کا بھلا دینا

ہائے میرا دل ہائے میرا دل

گھبراکے جو ہم سر کو ٹکرائیں تو اچھا ہو

اس جینے میں سو دکھ ہیں مرجائیں تو اچھا ہو


ان گیتوں کو لتا منگیشکر کے علاوہ راج کماری اور زہرہ بائی انبالے والی نے گایا تھا۔ فلم محل کوئی زیادہ کامیاب تو نہیں تھی مگر اس کے گیتوں نے اس فلم کو بڑا سہارا دیا تھا اور فلم محل کے گیتوں ہی سے نخشب کی شہرت کا چاند چمکنے لگا تھا۔پھر 1948ء میں ایک فلم بنی تھی ''میری کہانی'' اس کے موسیقار کے دتہ تھے اور شاعروں میں انجم پیلی بھیتی اور نخشب جارچوی تھے، اس فلم میں نخشب جارچوی کے ایک گیت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جس کے بول تھے:

دل تڑپ کر رہ گیا حسرت مچل کر رہ گئی

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل کر رہ گئی

یہ گیت گلوکار و اداکار سریندر نے گایا تھا۔ نخشب نے پھر بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں نتیجہ، نمونہ، نشانہ، کھلاڑی، ایکٹریس، آیئے اور ایک فلم تھی کمرہ نمبر 9۔ نخشب صاحب کا شمار ممبئی میں اب صاحب ثروت شاعروں میں ہونے لگا تھا۔ انھوں نے اپنی فلم نغمہ پروڈیوس کی جس میں انھوں نے دلیپ کمارکی فلم آن میں روشناس ہونے والی اداکارہ نادرہ کو ہیروئن لیا تھا اور فلم کے ہیرو اشوک کمار تھے۔ فلم نغمہ کی موسیقی کے لیے نخشب نے ایک نئے موسیقار شوکت علی دہلوی کو منتخب کیا تھا اور اس کا نام ناشاد رکھا تھا۔ ناشاد کی موسیقی نے بھی بڑا اثر دکھایا تھا۔ فلم کے ہٹ گیتوں کے مکھڑے درج ذیل ہیں:

بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا

کہ جس ظالم نے تڑپایا اسی پر مجھ کو پیار آیا

اے میرے مجبور دل ہو نہ بہت بے قرار

یوں نہ تڑپ رات دن یوں نہ مچل بار بار

کا ہے جادو کیا مجھ کو اتنا بتا جادو گر بالما جادوگربالما

اوتیر چلانے والے ذرا آسامنے آکر تیر چلا

یہ گیت گلوکارہ شمشاد بیگم، امیر بائی کرناٹکی اور طلعت محمود کی آوازوں میں ریکارڈ ہوئے تھے۔

فلم نغمہ کی فلم بندی کے دوران نادرہ اور نخشب نے شادی کر لی تھی مگر یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی تھی۔ نخشب صاحب نے نغمہ کے بعد تین فلمیں اور بنائی تھیں جن میں رفتار، مسٹرچکرم اور ایک فلم کا نام زندگی یا طوفان تھا۔

نخشب جب پاکستان آئے تو اپنی فلم بھی ساتھ لے کر آئے تھے اور اس فلم نے پاکستان میں جو کسر ہندوستان میں رہ گئی تھی وہ پاکستان میں پوری ہوگئی تھی اور فلم ''زندگی یا طوفان'' نے پاکستان کے ہر شہر میں اپنی بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ایسے گیت تھے جنھیں بار بار سننے کو دل چاہتا تھا۔

اے دل والوں پیار نہ کرنا، اس پاپی سنسار سے ڈرنا، اے دل والو پیار نہ کرنا

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے، ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھاکے ہاتھ۔ دیکھا جو ہم نے چھوڑدیے مسکراکے ہاتھ

زلفوں کی سنہری چھاؤں تلے۔ اک آگ لگی دو دیپ جلے

جب پہلی نظر کے تیر چلے۔ مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری

نخشب جارچوی نے پاکستان میں زندگی یا طوفان سے جتنا کمایا تھا وہ انھوں نے دو فلمیں فانوس اور میخانہ پروڈیوس کرکے سب کچھ گنوادیا تھا۔ ان کی دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہو گئی تھیں حالانکہ فلم میخانہ کی ریڈیو سیلون سے بڑی پبلسٹی بھی کی گئی تھی مگر سب بے سود ثابت ہوئی تھی۔ نخشب صاحب کو ان دو فلموں کی ناکامی نے بڑا صدمہ پہنچایا تھا اور وہ بیمار ہو گئے تھے پھر فلمی دنیا سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا تھا اور اندر ہی اندر ایک دکھ ان کو کسی پل چین لینے نہیں دیتا تھا۔ یہ دکھ ہی ان کا جان لیوا بنا اور 24 اگست 1967ء کو دل کا دورہ پڑنے سے کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

(نوٹ:گزشتہ کالم میں فلم بوٹ پالش کا گیت محمد رفیع نے نہیں بلکہ منا ڈے کا گایا ہوا تھا۔)
Load Next Story