ایکسپریس فورم عوام نے نفرت پھیلانے والوں اور کرپٹ مافیا کو رد کردیا ماہرین
عمران کی وکٹری اسپیچ متاثر کن، روزگار، تعلیم و دیگر مسائل کا احاطہ، خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کر دیے، اعجاز بٹ
سیاسی، اقتصادی و دفاعی ماہرین نے ''نئی حکومت کو درپیش چیلنجز اور عوامی توقعات'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مثبت سمت میں چل پڑا ہے، عوام نے نفرت پھیلانے والوں اور کرپٹ مافیا کو رد کردیا اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ حالیہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے بہترین اور شفاف انتخابات تھے، انتخابی عمل انتہائی ہموار طریقے سے چلتا رہا جس پر فافن اور یورپی یونین نے بھی اعتماد کا اظہار کیا لیکن الیکشن کمیشن کا سسٹم فیل ہونے کی وجہ سے ہارنے والی سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کا شور مچانے کا موقع مل گیا ہے، لوگ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر نکلے، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں اور پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی تھی، عمران خان کی وکٹری اسپیچ متاثر کن اور بہترین تھی جس میں نواجونوں کیلیے روزگار، تعلیم و دیگر مسائل کا احاطہ کیا گیا، خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کردیے اور تمام مسائل کا احاطہ بھی کیا تاہم اب انھیں گڈ گورننس کی مثال قائم کرنا ہوگی، عمران خان نے ''اسٹیٹس کو'' کے خاتمے کا جو نعرہ بلند کیا اسے عوام میں پذیرائی ملی، اب اگر وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہتے، گورنر ہاؤسز کو بھی خالی کروا دیتے ہیں تو یہ اچھا اقدام ہوگا اور اس کا اثر نیچے تک جائے گا، آئندہ 100دن انتہائی اہم ہیں جن میں معلوم ہو جائے گا کہ حکومت کیا کرے گی اور اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ نے کہا کہ سابقہ حکومت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا، اس کی خرابیوں کی وجہ سے اب نئی حکومت کو چیلنجز سے بھرپور ملک ملے گا جس میں معاشی، سیاسی، سماجی و سفارتی چینلجز سرفہرست ہیں، پاکستان کو عالمی سطح پر مسائل درپیش ہیں، آئندہ آنے والی حکومت کو سفارتی محاذ پر بہت محنت کرنا پڑے گی، عمران خان کی نیت صاف ہے، ان کی وکٹری اسپیچ اچھی تھی جو غریب عوام سے شروع ہوئی اور ان ہی پر ہی ختم ہوئی، مجھے امید ہے کہ اب پاکستان کے بہتر دن شروع ہونے والے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ نئی حکومت کیلیے ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ سب سے بڑا چیلنج ہے، 40 بلین کا تجارتی خسارہ ہے جس میں کمی کیلیے سرمایہ داروں کو مراعات دینا پڑیں گی، برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ممبر ہونے کی وجہ سے ہم درآمد پر بندش نہیں لگا سکتے مگرکل قیمت کا 35 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جا سکتا ہے، ہم خوردنی تیل کی دوسری بڑی درآمد کرتے ہیں، اس میں کمی کیلیے سورج مکھی و مکئی کا تیل وغیرہ پیدا کر سکتے ہیں، اس حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ درآمدات کو کیسے کم کیا جائے، اوورسیز پاکستانی 50 بلین پاکستان بھیجتے ہیں جس میں سے 19بلین بینکوں جبکہ31 بلین ہنڈی کے ذریعے آتا ہے، اس میں بہتری کیلیے بینکنگ ریفارمز اور پیسہ بھیجنے والوں کو مراعات دینی چاہئیں، 40 فیصد تو قرض اتارنے میں چلا جاتا ہے، ضروری ہے کہ پارٹنر ممالک سے مذاکرات کیے جائیں اور ان سے 5 سال کیلیے کچھ رعایت لے لی جائے اس سے تقریباَ 50 فیصد پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔
شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زمرد اعوان نے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نواز شریف جیل میں ہونے کی وجہ سے ملک کی ایک بڑی جماعت نے بغیر سربراہ کے الیکشن لڑا، عوام نے تحریک انصاف کے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کو عزت دی اور بڑے بڑے برج الٹ دیے، الیکشن کمیشن کی پری پول تیاری بہترین تھی، الیکشن صاف و شفاف ہوئے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام اداروں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب گلے سڑے نظام کو کسی بھی مصلحت کے تحت سپورٹ نہیں کرنا، 2013 کے مقابلے میں تحریک انصاف نے زیادہ لوگوں کو متحرک کیا، عمران خان نے سیاسی کلچر کی تبدیلی و انسانی ترقی پر بات کی جسے قوم نے پذیرائی دی، 1970 کے انتخابات کی یاد تازہ ہوگئی ہے، تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک جماعت کا سربراہ 5 حلقوں سے الیکشن لڑا اور پانچوں ہی جیت گیا، اب تحریک انصاف کیلیے پہلا چیلنج تمام صوبوں و مرکز میں حکومت بنانا ہے، مرکز و دیگر صوبوں میں تو باآسانی بن جائے گی تاہم پنجاب میں حمزہ شہباز ن لیگ کی حکومت بنانے کیلیے کوشاں ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اندرونی انتشار کا شکار ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اس سے اب تخت لاہور بھی چھن جائے گا، دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کی پوزیشن واضح ہے، انھوں نے تحقیقات کروانے کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے جو خوش آئند ہے۔
ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ حالیہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے بہترین اور شفاف انتخابات تھے، انتخابی عمل انتہائی ہموار طریقے سے چلتا رہا جس پر فافن اور یورپی یونین نے بھی اعتماد کا اظہار کیا لیکن الیکشن کمیشن کا سسٹم فیل ہونے کی وجہ سے ہارنے والی سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کا شور مچانے کا موقع مل گیا ہے، لوگ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر نکلے، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں اور پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی تھی، عمران خان کی وکٹری اسپیچ متاثر کن اور بہترین تھی جس میں نواجونوں کیلیے روزگار، تعلیم و دیگر مسائل کا احاطہ کیا گیا، خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کردیے اور تمام مسائل کا احاطہ بھی کیا تاہم اب انھیں گڈ گورننس کی مثال قائم کرنا ہوگی، عمران خان نے ''اسٹیٹس کو'' کے خاتمے کا جو نعرہ بلند کیا اسے عوام میں پذیرائی ملی، اب اگر وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہتے، گورنر ہاؤسز کو بھی خالی کروا دیتے ہیں تو یہ اچھا اقدام ہوگا اور اس کا اثر نیچے تک جائے گا، آئندہ 100دن انتہائی اہم ہیں جن میں معلوم ہو جائے گا کہ حکومت کیا کرے گی اور اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ نے کہا کہ سابقہ حکومت نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا، اس کی خرابیوں کی وجہ سے اب نئی حکومت کو چیلنجز سے بھرپور ملک ملے گا جس میں معاشی، سیاسی، سماجی و سفارتی چینلجز سرفہرست ہیں، پاکستان کو عالمی سطح پر مسائل درپیش ہیں، آئندہ آنے والی حکومت کو سفارتی محاذ پر بہت محنت کرنا پڑے گی، عمران خان کی نیت صاف ہے، ان کی وکٹری اسپیچ اچھی تھی جو غریب عوام سے شروع ہوئی اور ان ہی پر ہی ختم ہوئی، مجھے امید ہے کہ اب پاکستان کے بہتر دن شروع ہونے والے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ نئی حکومت کیلیے ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ سب سے بڑا چیلنج ہے، 40 بلین کا تجارتی خسارہ ہے جس میں کمی کیلیے سرمایہ داروں کو مراعات دینا پڑیں گی، برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ممبر ہونے کی وجہ سے ہم درآمد پر بندش نہیں لگا سکتے مگرکل قیمت کا 35 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جا سکتا ہے، ہم خوردنی تیل کی دوسری بڑی درآمد کرتے ہیں، اس میں کمی کیلیے سورج مکھی و مکئی کا تیل وغیرہ پیدا کر سکتے ہیں، اس حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ درآمدات کو کیسے کم کیا جائے، اوورسیز پاکستانی 50 بلین پاکستان بھیجتے ہیں جس میں سے 19بلین بینکوں جبکہ31 بلین ہنڈی کے ذریعے آتا ہے، اس میں بہتری کیلیے بینکنگ ریفارمز اور پیسہ بھیجنے والوں کو مراعات دینی چاہئیں، 40 فیصد تو قرض اتارنے میں چلا جاتا ہے، ضروری ہے کہ پارٹنر ممالک سے مذاکرات کیے جائیں اور ان سے 5 سال کیلیے کچھ رعایت لے لی جائے اس سے تقریباَ 50 فیصد پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔
شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زمرد اعوان نے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نواز شریف جیل میں ہونے کی وجہ سے ملک کی ایک بڑی جماعت نے بغیر سربراہ کے الیکشن لڑا، عوام نے تحریک انصاف کے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کو عزت دی اور بڑے بڑے برج الٹ دیے، الیکشن کمیشن کی پری پول تیاری بہترین تھی، الیکشن صاف و شفاف ہوئے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام اداروں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب گلے سڑے نظام کو کسی بھی مصلحت کے تحت سپورٹ نہیں کرنا، 2013 کے مقابلے میں تحریک انصاف نے زیادہ لوگوں کو متحرک کیا، عمران خان نے سیاسی کلچر کی تبدیلی و انسانی ترقی پر بات کی جسے قوم نے پذیرائی دی، 1970 کے انتخابات کی یاد تازہ ہوگئی ہے، تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک جماعت کا سربراہ 5 حلقوں سے الیکشن لڑا اور پانچوں ہی جیت گیا، اب تحریک انصاف کیلیے پہلا چیلنج تمام صوبوں و مرکز میں حکومت بنانا ہے، مرکز و دیگر صوبوں میں تو باآسانی بن جائے گی تاہم پنجاب میں حمزہ شہباز ن لیگ کی حکومت بنانے کیلیے کوشاں ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اندرونی انتشار کا شکار ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اس سے اب تخت لاہور بھی چھن جائے گا، دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کی پوزیشن واضح ہے، انھوں نے تحقیقات کروانے کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے جو خوش آئند ہے۔