سیاسی تدبر اور صبر وتحمل کی ضرورت
ملک میں جمہوری نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے...
عام انتخابات کا مرحلہ بخیروخوبی مکمل ہو چکا ہے اور نتائج سامنے آ چکے ہیں' پولنگ کا عمل بھی پرامن انداز میں مکمل ہوا' اب تک کے ملکی حالات قدرے بھی پرسکون ہیں لیکن کراچی' لاہور اور اندرون سندھ سے دھاندلی کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ کراچی' لاہور اور اندرون سندھ کے بعض شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ اس دوران میں ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے خطاب نے سیاسی حدت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ جناب الطاف حسین نے اپنے خطاب میں خاصا سخت لب ولہجہ کیوں اختیار کیا؟ یقیناً اس کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہوں گی تاہم موجودہ حالات میں ایسا سخت لہجہ بہت سے خطرات وخدشات کی نشاندہی کرتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران کسی حلقے یا کسی پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی یا بدنظمی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
پولنگ چونکہ ایک وسیع اور ہمہ گیر عمل کا نام ہے، اس لیے کہیں گڑبڑ یا جعلی ووٹ کاسٹ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ہر الیکشن کے دوران ایسی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ پولنگ کے دوران لڑائی' مار کٹائی اور دنگے فساد بھی ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں الیکشن کے دوران بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں، وہاں کئی حلقوں میں پولنگ روک دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ پولنگ ہو جاتی ہے اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے لیکن وہاں پورے الیکشن کو متنازعہ کبھی نہیں بنایا گیا۔ پاکستان کے حالیہ الیکشن میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے جو یقیناً حوصلہ افزاء بات ہے جو الیکشن ہار گئی ہیں، انھیں اگرمگر چونکہ چنانچہ کا سہارا لینے کے بجائے سیدھے بھاؤ شکست تسلیم کر لینی چاہیے کیونکہ یہی تہذیب وشائستگی کی علامت ہے۔
ملک میں جمہوری نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے جس سیاسی جماعت کو جتنا مینڈیٹ دیا ہے، اسے صدق دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ کسی کے مینڈیٹ میں کمی یا بیشی کی کوشش انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت ہو یا سرکاری مشینری کے کل پرزے' سب کو ذاتی پسند وناپسند' نفرت یا انتقام کے رویے سے باہر نکل کر ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو صبر وتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے نہ کہ اشتعال انگیزی کی فضا پیدا کی جائے۔ پولنگ کے دوران اگر کسی شہر کے کسی حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے تو اس حوالے سے آئینی اور قانونی طریقہ موجود ہے۔ تحریک انصاف ہو' پیپلزپارٹی ہو' مسلم لیگ (ن) ہو' اے این پی ہو یا سندھ کی قوم پرست جماعتیں' سب کو بلاجواز بیان بازی یا گھیراؤ جلاؤ کے بجائے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فورم موجود ہے۔ جو لوگ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں، انھیں دھاندلی کے مکمل ثبوتوں کے ساتھ الیکشن ٹریبونل میں جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتیں بھی موجود ہیں۔ جہاں تک دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا تعلق ہے تو یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ پرامن انداز میں احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن اس میں احتیاط یہ برتی جانی چاہیے کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ پاکستان اس وقت ٹرانزیشن کے عمل سے گزر رہا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صبر وتحمل سے کام لیا جائے۔ تدبر سے معاملات کو سلجھایا جائے نہ کہ اشتعال انگیزی سے انھیں بگاڑا جائے۔ پاکستان مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں کوئی مہم جوئی خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
جناب الطاف حسین کے خطاب میں جو غصے کا عنصر نظر آتا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ عوام کی نمایندہ اور بالغ نظر سیاسی جماعت ہے۔ اس کی قیادت بھی صاحب علم اور مہذب اقدار کی حامل ہے۔ انھیں کسی حوالے سے اگر تحفظات ہیں تو انھیں دور کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو پہل کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ سیاست میں کسی کی کسی سے ذاتی پرخاش نہیں ہوتی اور نہ ہی سیاست میں ایک دوسرے کے لیے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کو اس حوالے سے قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں گے تو کوئی غیرجمہوری قوت اپنا کھیل نہیں کھیل سکے گی۔
پولنگ چونکہ ایک وسیع اور ہمہ گیر عمل کا نام ہے، اس لیے کہیں گڑبڑ یا جعلی ووٹ کاسٹ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ہر الیکشن کے دوران ایسی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ پولنگ کے دوران لڑائی' مار کٹائی اور دنگے فساد بھی ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں الیکشن کے دوران بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں، وہاں کئی حلقوں میں پولنگ روک دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ پولنگ ہو جاتی ہے اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے لیکن وہاں پورے الیکشن کو متنازعہ کبھی نہیں بنایا گیا۔ پاکستان کے حالیہ الیکشن میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے جو یقیناً حوصلہ افزاء بات ہے جو الیکشن ہار گئی ہیں، انھیں اگرمگر چونکہ چنانچہ کا سہارا لینے کے بجائے سیدھے بھاؤ شکست تسلیم کر لینی چاہیے کیونکہ یہی تہذیب وشائستگی کی علامت ہے۔
ملک میں جمہوری نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے جس سیاسی جماعت کو جتنا مینڈیٹ دیا ہے، اسے صدق دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ کسی کے مینڈیٹ میں کمی یا بیشی کی کوشش انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت ہو یا سرکاری مشینری کے کل پرزے' سب کو ذاتی پسند وناپسند' نفرت یا انتقام کے رویے سے باہر نکل کر ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو صبر وتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے نہ کہ اشتعال انگیزی کی فضا پیدا کی جائے۔ پولنگ کے دوران اگر کسی شہر کے کسی حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے تو اس حوالے سے آئینی اور قانونی طریقہ موجود ہے۔ تحریک انصاف ہو' پیپلزپارٹی ہو' مسلم لیگ (ن) ہو' اے این پی ہو یا سندھ کی قوم پرست جماعتیں' سب کو بلاجواز بیان بازی یا گھیراؤ جلاؤ کے بجائے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فورم موجود ہے۔ جو لوگ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں، انھیں دھاندلی کے مکمل ثبوتوں کے ساتھ الیکشن ٹریبونل میں جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتیں بھی موجود ہیں۔ جہاں تک دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا تعلق ہے تو یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ پرامن انداز میں احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن اس میں احتیاط یہ برتی جانی چاہیے کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ پاکستان اس وقت ٹرانزیشن کے عمل سے گزر رہا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صبر وتحمل سے کام لیا جائے۔ تدبر سے معاملات کو سلجھایا جائے نہ کہ اشتعال انگیزی سے انھیں بگاڑا جائے۔ پاکستان مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں کوئی مہم جوئی خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
جناب الطاف حسین کے خطاب میں جو غصے کا عنصر نظر آتا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ عوام کی نمایندہ اور بالغ نظر سیاسی جماعت ہے۔ اس کی قیادت بھی صاحب علم اور مہذب اقدار کی حامل ہے۔ انھیں کسی حوالے سے اگر تحفظات ہیں تو انھیں دور کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو پہل کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ سیاست میں کسی کی کسی سے ذاتی پرخاش نہیں ہوتی اور نہ ہی سیاست میں ایک دوسرے کے لیے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کو اس حوالے سے قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں گے تو کوئی غیرجمہوری قوت اپنا کھیل نہیں کھیل سکے گی۔