بے رحم جمہوریت

پیپلزپارٹی کی جانباز لیڈر شہید محترمہ بے نظیر نے اپنے ایک جملے میں سیاست کا نچوڑ بیان کر دیا ہے کہ ’’جمہوریت سب سے...

Abdulqhasan@hotmail.com

COLOMBO:
پیپلزپارٹی کی جانباز لیڈر شہید محترمہ بے نظیر نے اپنے ایک جملے میں سیاست کا نچوڑ بیان کر دیا ہے کہ ''جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے'' اور مرحومہ کی بدقسمتی سے یہ خود اس کی اپنی پارٹی پر صادق آ گیا۔ اس کی پارٹی نے بلاشرکت غیرے آمرانہ انداز میں پانچ برس تک حکومت کی جو بلاشبہ ایک منتخب جمہوری حکومت تھی لیکن اس حکومت نے اپنی جمہوریت کا انتقام ماضی کی آمرانہ ا ور غیرجمہوری حکومت کی خرابیوں سے نہیں خود اپنے ان ووٹروں سے لیا جنہوں نے خوشدلانہ ووٹ دے کر بڑی امیدوں کے ساتھ یہ حکومت قائم کی تھی۔ چنانچہ ان ووٹروں نے پھر اس کا انتقام دوسرے الیکشن میں لے لیا اور آج پیپلزپارٹی مسترد اور اس کی فرینڈلی یعنی دوستانہ اپوزیشن کی حکومت بن رہی ہے۔

ایک حکومت کے جانے اور دوسری کے آنے میں شاندار کردار پاکستان کے عوام کا ہے جنہوں نے نصف قومی زندگی آمریت میں گزاری لیکن پھر بھی جمہوریت کی برکات کو فراموش نہ کر سکے اور بہت سے دھکے کھانے کے بعد بالآخر جمہوریت بحال کر ہی لی۔ کوئی انصاف پسند مورخ اور پولیٹیکل سائنس کا استاد پاکستانی عوام کو خراج تحسین ادا کرے گا۔ پاکستان کے ووٹروں نے انصاف سے کام لیا ہے اور جس نے جتنا کیا تھا اس کو اتنی ہی سزا دی ہے اور پورے انصاف کے ساتھ پنجاب کے ساتھ صوبہ خیبرپختونخوا کو بھی رگڑا دیا ہے کیونکہ دونوں صوبوں کے عوام کو گزشتہ حکومت نے خوب سزا دی تھی، اجتماعی سزا بھی اور انفرادی بھی۔

حکومت نے عام آدمی کو بجلی کی بندش' ریل کی بندش' جہازوں کی بندش' کاروباری بندش اور ان تمام بندشوں کی سزا دی جنہوں نے عوام کی زندگی میں تلخیاں گھول دی تھیں بلکہ اسے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ جس طرح جمہوری انداز میں یہ سزا دی گئی تھی عوام نے اسی جمہوری انداز میں یہ سزا لوٹا دی ہے۔ کل کے حکمران آج اقتدار جیسی نعمت سے محرومی میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اقتدار بھی ایسا جس میں لاکھوں کروڑوں نہیں اربوں روپے کھائے گئے۔ یہ دولت عوام کی جیبوں سے نکالی گئی اور طرح طرح کے حکومتی بہانوں سے چھینی گئی۔ پاکستان کے عوام لازماً ایک تحریک ان حکمرانوں کے احتساب کی بھی شروع کریں گے جس عوام نے غلط کار لوگوں کو برداشت نہیں کیا وہ ان کی غلط کاریوں کا حساب بھی لیں گے کیونکہ اس کے بغیر ان کا یہ جمہوری الیکشن مکمل ہی نہیں ہوتا۔ جمہوریت کا انتقام تشنہ رہ جاتا ہے۔


میں جب گزشتہ پانچ برسوں کو یاد کرتا ہوں جن کا ایک ایک لمحہ میرے وجود میں سے گزر گیا اور اسے چھلنی کرتا گیا تو حیرت زدہ ہوتا ہوں، اپنے پاکستانی بھائیوں کے صبر پر جنہوں نے خاموشی اور تحمل کے ساتھ یہ عرصہ گزار دیا۔ مجھے آنحضرت کی امت کا یہ عرصہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شعب ابی طالب کی قید کے انتہائی تکلیف دہ دنوں کی یاد دلاتا رہا جب مکہ کی دولت مند خاتون حضرت زینب کی کھانا پکانے کے لیے مٹی کی دیگچی بھی بک گئی۔ ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے بھی پانچ برس اسی شعب ابو طالب جیسے کرب وبلا میں گزارا، اپنے بے پناہ صبر وتحمل کے ساتھ اور اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب جمہوریت کے انتقام کا موقع ملے گا اور قوم کو ان کے کرب وبلا سے نجات ملے گی۔ آج ہم اپنی قوم کی اس حکمت عملی اور اجتماعی فراست کا پھل کھانے والے ہیں لیکن پھر بھی ڈر رہے ہیں۔

شاید اس لیے کہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں کہ بار بار دودھ کے جلے ہیں مگر ایک بات اطمینان کی ہے کہ اگر ہمارے سیاست دانوں میں ذرا سی عقل بھی ہوتی اور انھیں ہماری نہ سہی اپنی ہی فکر ہوئی تو وہ حکمرانی میں زیادہ نہیں تو کسی حد تک انصاف سے کام لیں گے۔ خود بھی مناسب حد تک کھائیں گے اور عوام کے لیے بھی کچھ چھوڑ دیں گے۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں نے تو ہر حد پار کر لی تھی اور کیا عرض کریں یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے یہ الیکشن اسی کا تو ردعمل تھے اور بڑا ہی سخت ردعمل' کئی غلط کار سیاست دانوں کے پورے خاندان اپنی قدیم خاندانی کامیاب سیاست سے بھی محروم ہو گئے اور اقتدار کی طلب ان کے لیے ایک خطرہ بن کر سامنے آ گئی۔ ایک بھیانک خطرہ ہم ان کے گزشتہ اقتدار کی طرح ان کے لیے دیکھ رہے ہیں لیکن ہم پریشان نہیں ہیں کیونکہ وہ ہمارے لیے کبھی ایک لمحہ بھی پریشان نہ ہوئے۔ یہ خودغرض دنیا قصہ زمیں برسرزمین کی قائل ہے۔

احتساب کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا اور وہ بھی کسی اچھے حکمران سے مشروط ہے۔ فی الحال ایک اچھی عام سی نارمل حکومت کی خواہش ہے جس میں عام آدمی زیادہ دھکے نہ کھائے۔ اس کا جائز کام ہوتا رہے اور ہر سرکاری کارندے کو اس کا جائز معاوضہ ملتا رہے۔ ہمیں ابھی سرکاری ملازمین کو صرف تنخواہ پر کام کرنے کی عادت ڈالنے میں بڑا وقت لگے گا لیکن یہ عادت لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ مرادوں بھری حکومت بھی ناکام ہو سکتی ہے۔ اچھی انتظامیہ ہی کسی کامیاب حکومت کی ضمانت اور علامت بن سکتی ہے۔

یہ موضوع نہ ختم ہونے والا موضوع ہے اور ہمیں جو بات بھی کہنی ہے وہ عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر کہنی ہے۔ دائمی عوامی مفاد کی طرح ہم بھی جاری رہیں اس لیے فوج ایسا حکمران سیاستدان موجود نہیں جس کی خوشنودی یا رہنمائی ہمیں مطلوب ہو۔ ہمیں تو جو مطلوب ہے وہ یہ کہ عوام کو اتنا خوش رکھیں کہ وہ کسی دوسرے الیکشن کاانتظار نہ کریں۔
Load Next Story