ایشین گیمز پاکستان کی شرکت پر بدستور سوالیہ نشان موجود
سفری و رہائشی انتظامات کیلیے پی ایس بی کی طرف سے فنڈز جاری نہ ہو سکے، منتظمین پریشان
آئندہ ماہ انڈونیشیا میں شیڈول ایشین گیمزمیں پاکستانی دستے کی شرکت پر بدستور سوالیہ نشان ہے، سفری اور رہائشی انتظامات کے لیے پاکستان اسپورٹس بورڈ کی طرف سے تاحال فنڈز جاری نہ ہو سکے۔
آئندہ ماہ جکارتہ میں شیڈول ایشین گیمز میں شرکت کرنے والے تمام ممالک نے اپنے دستوں کے سفری اور رہائشی انتظامات کے بارے میں گیمزکے منتظمین کومطلع کردیا تاہم پاکستانی دستہ کو ابھی مشکلات کا سامنا ہے،ایتھلیٹس کی رہائشی اورسفری بکنگ تو دور کی بات ابھی تک پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ایتھلیٹس کی تعداد کے بارے بھی فیصلہ نہیں کر سکے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کو فنڈز کی کمی کا سامناہے، ابتدائی طور پر پی او اے نے 300 ایتھلیٹس اورآفیشلزکی لسٹ تیار کی جسے اسپورٹس بورڈ کے کہنے پر کم کرتے ہوئے 245 کر دیا گیا اور باقی ایتھلیٹس کے اخراجات متعلقہ فیڈریشنز کو خود برداشت کرنے کا کہا گیا۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ اس وعدے پر بھی قائم نہ رہ سکا اور 245 ایتھلیٹس کے رہائشی اور سفری انتظامات کرنے سے بھی قاصر ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اسپورٹس بورڈ چاہتا ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کی تعداد 245 سے مزید کم کی جائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کی ایکریڈیشن پہلے ہی ہو چکی ہے، اگر پلیئرز کی تعداد میں کمی کی گئی تو پاکستان کو کھیلوں کی عالمی تنظیموں کی جانب سے نہ صرف بھاری جرمانے بلکہ مستقبل کے انٹرنیشنل مقابلوں میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ ہم تاحال دستے کے ایتھلیٹس کی تعداد کا فیصلہ نہیں کر سکے تو ان حالات میں دستے کی کارکردگی بارے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی اسپورٹس دستے کی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کے اخراجات اٹھانا پاکستان اسپورٹس بورڈ کی ذمہ داری ہے جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور متعلقہ فیڈریشن کی ذمہ داری کھلاڑیوں کو مہیا کی گئی سہولتوں کے ساتھ ان مقابلوں کے لیے تیاری کرانا ہوتا ہے۔
اس حوالے سے جب نمائندہ ''ایکسپریس'' نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے خالد محمود سے رابطہ کیا توانھوں نے تصدیق کی کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی طرف سے تاحال فنڈز جاری نہیں ہو سکے، گذشتہ روز بھی ڈی جی پاکستان اسپورٹس بورڈ سے بات ہوئی، منگل تک فنڈز جاری ہونے کی امید ہے۔
آئندہ ماہ جکارتہ میں شیڈول ایشین گیمز میں شرکت کرنے والے تمام ممالک نے اپنے دستوں کے سفری اور رہائشی انتظامات کے بارے میں گیمزکے منتظمین کومطلع کردیا تاہم پاکستانی دستہ کو ابھی مشکلات کا سامنا ہے،ایتھلیٹس کی رہائشی اورسفری بکنگ تو دور کی بات ابھی تک پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ایتھلیٹس کی تعداد کے بارے بھی فیصلہ نہیں کر سکے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کو فنڈز کی کمی کا سامناہے، ابتدائی طور پر پی او اے نے 300 ایتھلیٹس اورآفیشلزکی لسٹ تیار کی جسے اسپورٹس بورڈ کے کہنے پر کم کرتے ہوئے 245 کر دیا گیا اور باقی ایتھلیٹس کے اخراجات متعلقہ فیڈریشنز کو خود برداشت کرنے کا کہا گیا۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ اس وعدے پر بھی قائم نہ رہ سکا اور 245 ایتھلیٹس کے رہائشی اور سفری انتظامات کرنے سے بھی قاصر ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اسپورٹس بورڈ چاہتا ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کی تعداد 245 سے مزید کم کی جائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کی ایکریڈیشن پہلے ہی ہو چکی ہے، اگر پلیئرز کی تعداد میں کمی کی گئی تو پاکستان کو کھیلوں کی عالمی تنظیموں کی جانب سے نہ صرف بھاری جرمانے بلکہ مستقبل کے انٹرنیشنل مقابلوں میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ ہم تاحال دستے کے ایتھلیٹس کی تعداد کا فیصلہ نہیں کر سکے تو ان حالات میں دستے کی کارکردگی بارے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی اسپورٹس دستے کی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کے اخراجات اٹھانا پاکستان اسپورٹس بورڈ کی ذمہ داری ہے جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور متعلقہ فیڈریشن کی ذمہ داری کھلاڑیوں کو مہیا کی گئی سہولتوں کے ساتھ ان مقابلوں کے لیے تیاری کرانا ہوتا ہے۔
اس حوالے سے جب نمائندہ ''ایکسپریس'' نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے خالد محمود سے رابطہ کیا توانھوں نے تصدیق کی کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی طرف سے تاحال فنڈز جاری نہیں ہو سکے، گذشتہ روز بھی ڈی جی پاکستان اسپورٹس بورڈ سے بات ہوئی، منگل تک فنڈز جاری ہونے کی امید ہے۔