انتخابات 2013

آخرکار عام انتخابات اختتام پذیر ہوگئے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ ان انتخابات کے اعلان کے بعد ہی سے یہ افواہیں گردش۔۔۔

S_afarooqi@yahoo.com

آخرکار عام انتخابات اختتام پذیر ہوگئے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ ان انتخابات کے اعلان کے بعد ہی سے یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ اول تو ان کا انعقاد ہی ممکن نہ ہوگا یا ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے کہ ان کی نوبت ہی نہ آنے دی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں انھیں معینہ یا غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑجائے گا۔ پھر ان افواہوں کے بعد تیزی کے ساتھ ایسے واقعات اور سانحات تسلسل سے رونما ہوتے چلے گئے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس شک یا خوف میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے کہ خدانخواستہ ان خدشات کا نتیجہ عام انتخابات کے التوا پر منتج ہوگا۔ مگر اللہ کے فضل وکرم، آرمی چیف کے عزم، عدلیہ کے تعاون اور الیکشن کمیشن کے حوصلے کی بدولت نہ صرف یہ کہ انتخابات ملتوی نہیں ہوئے بلکہ اپنے مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوئے۔

سچی اور کھری بات یہ ہے کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے تمام متعلقہ ادارے دادوتحسین کے مستحق ہیں کیونکہ یہ عظیم کارنامہ انتہائی نامساعد حالات میں جان پر کھیل کر ناممکن کو ممکن بنادینے کے مترادف ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات کی مخالف قوتوں نے ان کے انعقاد کو ناممکن بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا اور ان کی آخری دم تک یہی کوشش تھی کہ یہ بیل کسی طور منڈھے نہ چڑھنے پائے مگر سلام ہماری نگراں حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے تمام متعلقہ اداروں کو کہ جنہوں نے بے حد نامساعد حالات کے باوجود اپنے پایہ استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہ آنے دی اور''کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے'' جیسے اندیشوں اور وسوسوں کو کوئی اہمیت نہیں دی اورایک پختہ ارادے اور آہنی عزم کا عملی مظاہرہ کرکے ناممکن کو ممکن بناکر دکھادیا۔ ملک کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں خصوصاً مسلم لیگ، سابق حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اور نئی ابھرتی ہوئی قوت پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انھوں نے بھی اس خیال کو تقویت پہنچائی کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت کے فروغ اور تسلسل کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے عام انتخابات کا انعقاد اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق ضرور ہونا چاہیے اور الیکشن کو ملتوی کرانے کے لیے کوشاں مخالف قوتوں کی دھونس اور دھمکیوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے جانے چاہئیں۔

عام انتخابات کے بروقت انعقاد سے ان وطن دشمن قوتوں کو یقینا شدید ناکامی ہوئی ہوگی جو پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ریاست کے طور پر بدنام ہوتا ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔ الیکشن کے انعقاد سے منسلک تمام اداروں کے علاوہ پاکستانی عوام بھی دادوتحسین کے بجاطور پر مستحق ہیں جنہوں نے عام انتخابات میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے کر تمام مخالف قوتوں کی امیدوں اور قیاسات پر پانی پھیر دیا۔

اہل وطن نے الیکشن کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر اور تمام متعلقہ قومی اداروں سے بھرپور تعاون کرکے نہ صرف اپنی حب الوطنی بلکہ جمہوریت پسندی کا بھی عملی ثبوت پیش کردیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان کے تمام رائے دہندگان پر زور دیا تھا کہ وہ ملک کے ان تاریخی انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا ضرور استعمال کریں جس کے جواب میں پاکستانی ووٹرز نے ان کی توقعات سے بڑھ کر اپنے جوش و جذبے کا عملی مظاہرہ پیش کیا اور قومی اسمبلی کی 272 اور صوبائی اسمبلی کی 577 سیٹوں کے لیے اپنے پسندیدہ نمایندوں کا آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انداز میں انتخاب کیا۔


امید تو یہ تھی کہ انتخابی مرحلہ مکمل خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا مگر افسوس کہ بعض صوبوں اور حلقوں میں انتظامات فول پروف نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا، خصوصاً بلوچستان اور کراچی کے بعض انقلابی حلقوں میں جس میں ڈیفنس کا پوش علاقہ بھی شامل تھا جہاں سے پولنگ کے بارے میں شدید نوعیت کی شکایات موصول ہوئیں اور چند سیاسی جماعتوں نے کچھ حلقوں میں پولنگ کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا۔ بعض انتخابی حلقوں میں پولنگ بہت تاخیر سے شروع ہونے کی شکایات بھی موصول ہوئیں جس کے باعث ان حلقوں میں پولنگ کا وقت شب آٹھ بجے تک بڑھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بعض حلقوں سے دھاندلی اور بدامنی کے واقعات کی شکایات بھی موصول ہوئیں جو بدانتظامی یا ناقص انتظامات کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو آیندہ کے لیے اصلاح احوال اور احتیاط کا تقاضہ کرتی ہیں۔

توقع ہے کہ انشاء اللہ آیندہ انتخابات میں صورت حال بہت بہتر ہوگی اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اور ان کے حامی سیاسی بلوغت کا عملی مظاہرہ پیش کریں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ جن انتخابی حلقوں کے نتائج کے بارے میں لوگوں کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں ان حلقوں میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے اور ایسے عمدہ اور شفاف انتظامات کرائے جائیں کہ کسی بھی فریق کے لیے شکوے شکایت کی ذرہ برابر بھی کوئی گنجائش باقی نہ رہے تاکہ جمہوریت کا حسن برقرار رہے۔ دریں اثناء یہ بات نہایت خوش آیند اور لائق تحسین ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما غلام احمد بلور نے نہایت خوش دلی سے اپنی شکست تسلیم کرکے نہ صرف اپنی انتہائی اعلیٰ ظرفی کا قابل تقلید ثبوت پیش کیا ہے بلکہ اپنی جمہوریت پسندی اور Sportsman Spirt کا نہایت شاندار مظاہرہ بھی کیا ہے۔

ان انتخابات کا ایک خوش آیند پہلو یہ بھی ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر رینجرز پر مشتمل قبائلی علاقوں میں سیاسی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اپنی اپنی سیاسی جماعتوں، ناموں، پرچموں اور انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اترے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک اچھا شگون ہے کہ حالیہ الیکشن میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بھی توقع کے برعکس نہایت حوصلہ افزا رہا اور ماضی کی بہ نسبت لوگوں کی ایک بھاری تعداد نے ووٹنگ میں جوش اور ولولے اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ حالانکہ اندیشوں اور خدشات کی وجہ سے خوف و سراسیمگی کی وجہ سے یہ توقع نہیں تھی کہ عوام اتنی بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے۔

حالیہ انتخابات کی ایک خاص اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس میں بڑے بڑے برج زمین بوس ہوگئے ممولوں نے بعض شہبازوں کو بری طرح ہرا دیا۔ بڑے بڑے پہلوان انتخابی دنگل میں چاروں شانوں اس بری طرح سے چت ہوتے دکھائی دیے کہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ان کی شکست فاش پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ان انتخابات میں بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی وراثت کی دعوے دار پاکستان پیپلز پارٹی صف اول کی سیاسی جماعت سے سمٹ کر محض ایک صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی اور وہ بھی محض اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کی حد تک۔ عام انتخابات میں اس جماعت کی شکست کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی کیونکہ اس نے اپنے پورے پانچ سالہ دور میں لاقانونیت، کرپشن، بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ ملک کے مظلوم عوام کو اور کچھ نہیں دیا۔

کاش! اس پارٹی نے عام انتخابات سے قبل نوشتہ دیوار کو پڑھ لیا ہوتا۔ کم و بیش یہی انجام عوامی نیشنل پارٹی کا بھی ہوا جس کے اپنے گھر خیبرپختونخوا میں تقریباً صفایا ہی ہوگیا اور اس کے قد آور رہنما مثلاً اسفند یار ولی اور غلام احمد بلور بھی شکست سے دوچار ہوگئے۔ سچ پوچھیے تو حالیہ انتخابات شکست خوردہ سیاسی جماعتوں اور بعض بڑی بڑی اور نام ور شخصیات کے لیے چشم کشا ہیں اور اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اب بہت باشعور ہوچکے ہیں اور انھیں محض کھوکھلے نعروں اور بلند و بانگ جھوٹے نعروں اور وعدوں سے بہلایا اور پھسلایا نہیں جاسکتا۔ اس کے علاوہ انتخابات 2013 میں پاکستان تحریک انصاف بھی ایک بہت بڑی قوت بن کے ابھری ہے۔ دوسری جانب ملک کے عوام نے میاں نواز شریف کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
Load Next Story