کتاب ایک بہترین دوست

دور جدید کا انسان اپنی ذات میں اگر منتشر ہے تو اس نے خود کو پریشان کرنے کے لیے عجیب روگ پال رکھے ہیں

shabnumg@yahoo.com

دور جدید کا انسان اپنی ذات میں اگر منتشر ہے تو اس نے خود کو پریشان کرنے کے لیے عجیب روگ پال رکھے ہیں، خود ساختہ مسائل اور پریشانیاں بے شمار ہیں، مسائل کی تکرار تو ہے مگر حل کسی کے پاس نہیں ہے، کسی قسم کا بھی انتشار ہو اس میں الجھ کر کبھی باہر نکلنے کے لیے راستہ نہیں مل پاتا۔

حل اس وقت نظر آتاہے جب ذہن پرسکون ہو، اگر انسان کسی تعمیری مشغلے میں مصروف ہو تو ذہن کو یکسوئی نصیب ہوتی ہے جو انسان کو الجھنوں سے نجات دلادیتے ہیں، ذہن کے ابہام زندگی کو مشکل ترین بنادیتے ہیں، سوچ کے یہ زاویے اکثر حقیقتوں سے بہت دور ہوتے ہیں، بعض اوقات تو وہ چیزیں وجود ہی نہیں رکھتیں جن کا تانا بانا ذہن بنتا رہتاہے، زیادہ سوچنے سے خیال پرفریب جال بن جاتاہے، جدید دنیا میں یہ خیال کئی عرصے سے محو سفر ہے کہ سوچ کا کوئی مرکزہونا چاہیے،محور نہ ہو تو خیال کسی سرکش گھوڑے کی طرح انسانی قدروں کو روندتا چلاجاتاہے، مرکز سے ہٹی ہوئی منتشر قوموں کی کئی مثالیں عروج وزوال کے اس سفر میں ملتی ہیں، خیال کو مرکز اور ذہن کو یقین کی قوت چاہیے، یقین علم کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور معلومات حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ مطالعے کی عادت ہے۔

ہمارے ملک میں مطالعے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ یورپ اور امریکا میں الیکٹرانک میڈیا کے پھیلائو کے باوجود کتاب پڑھنے کی شرح میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے، وہاں صحت، غذائی ضروریات، ورزش، میڈیٹیشن سے لے کر مثبت سوچ کی حامل کتابیں زیادہ پڑھی جاتی ہیں وہاں لوگ ریلوے اسٹیشن ہوں یا جہاز کا سفر کتاب پڑھنے میں مصروف نظر آتے ہیں، مشغلے ہمیں غیر ضروری سوچوں سے دور رکھتے ہیں، سوچ ہی انسان کے عروج وزوال کا سبب بنتی ہے۔

کتاب شعور وآگہی کی منزلیں طے کرنے میں مدد کرتی ہے، زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، رویوں میں وسعت اور اعتدال پیدا ہوتا ہے، کتاب ہر فرد کی ذہنی ضرورت ہے، جو معاشرتی سوچ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کتاب سے جہاں ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں تصور کی طاقت سوچ کے زاویے بدل دیتی ہے، اکثر یہ کہاجاتا ہے کہ آج کے اس مصروف دور میں کتاب پڑھنے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل کام ہے، عام طورپر ایک متوسط قاری ایک منٹ میں300لفظ پڑھ سکتاہے، پندرہ منٹ میں 4,500لفظ پڑھے جاسکتے ہیں، عموماً کتاب میں 60,000 سے 100,000 تک الفاظ ہوتے ہیں، اس سے زیادہ الفاظ بھی متوقع ہیں، اگر روز پندرہ منٹ مطالعے کی عادت ڈالی جائے تو پندرہ دن میں ایک کتاب ختم کی جاسکتی ہے، یوں سال میں بیس کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں، بعض لوگ دفاتر میں کتاب پڑھنے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔

اکثر سفر میں مطالعے کے ذوق سے محظوظ ہوتے نظر آتے ہیں اگر رات کو سونے سے قبل بیس منٹ مطالعے کی عادت ڈالی جائے تو ہم دوسروں کے لکھے ہوئے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہوسکتے ہیں اور ہم زندگی کو وسیع تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔


والدین، بچوں کی ابتدائی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب بچے بڑوں کو مطالعہ کرتے نہیں دیکھتے تو ان کے دل میں بھی کتاب پڑھنے کی جستجو پیدا نہیں ہوتی، بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے کتاب کا پڑھنا بہت ضروری ہے اور تصور کی یہ اڑان انھیں دنیاوی کامیابی کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے میں معاونت کرتی ہے، ہمارے ذہن کے دو حصے ہیںRight brainدائیں طرف کا ذہن جس میں رنگ آہنگ تصورات، خواب، سمت کا تعین، موسیقی وآگہی شامل ہیں جب کہ دوسرے حصے Left brainبائیں طرف کا ذہن جس میں منطق، ترتیب، زبان، لفظ، گنتی مطابقت اور تجزیہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں، چونکہ بچوں کے بائیں ذہن پر زیادہ بوجھ ہوتاہے اس لیے وہ اس یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بچے غیر یکسوئی کا شکار دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے دائیں ذہن پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، تاکہ بچوں کی تعمیری وتخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں، بچوں کو تخلیقی سرگرمیاں فراہم کرنا،کتاب کی طرف مائل کرنا یا انھیں کھیل وکود میں مصروف رکھنے کی کوشش حقیقت میں ان کے دائیں ذہن کی تصوراتی طاقت کو مضبوط کرنا ہے اکثر والدین بچوں کے جارحانہ رویوں اور پڑھائی میں عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ بچوں کو مستقل تنقید کا نشانہ نہ بنائیں جو خیال بار بار دہرایاجائے وہ اپنی افادیت کھوبیٹھتاہے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے مستقل رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، والدین کو چاہیے کہ مہینے میں ایک مرتبہ وہ بچوں کو کتابوں کی دکان پر لے جاکر انھیں پسند کی کتابیں دلوایاکریں۔

ادب زندگی کا ترجمان ہے، افسانے ہوں یا ناول یا شاعری انسان کی مکمل زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، عام لوگوں کو اپنے جذبات، احساسات، دکھوں ومسائل کا عکس، ان تحریروں میں نظر آتاہے، جس سے قاری کی تحلیل نفسی ہوتی ہے اور اس کی برداشت میں بھی اضافہ ہوتاہے، دنیا کے ادب میں ناول نگاری کی صنف بہت مقبول رہی ہے آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ ناول پڑھا جاتا ہے بہت سے ناولوں پر مبنی فلمیں بنائی گئی ہیں افسانے وناول پر ٹی وی ڈرامے تشکیل دیے گئے، مگر قارئین نے ان ٹیلی ویژن ڈراموں وفلموں کو مسترد کردیا، بقول ان کے کہ جو لطف انھیں تحریر میں ملا وہ اسکرین نے کھودیا، لاطینی امریکا کے نوبل انعام یافتہ ادیب گارشیا مارکیز سے جب ان کے شہرہ آفاق ناول ''تنہائی کے سو سال'' فلمانے کے لیے اصرار کیاگیا تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔

وہ اپنے انکار میں حق بجانب تھے، کیونکہ گارشیا مارکیز کی تحریریں پڑھ کر قاری لفظوں کی گہرائی میں ڈوب جاتاہے، وہ ان کے لفظوں کے سہارے اپنے تخیل کی مدد سے محسوسات کی انوکھی دنیا میں پہنچ جاتاہے جو تخیل اسکرین پر دکھایاجاتاہے اس میں دیکھنے والے کی بصارت ملوث ہوتی ہے،جس سے وہ تاثر لے کر ذہن تک منتقل کرتاہے جو پردے پر دیکھتاہے، اسی طرح سے محسوس کرنے لگتاہے لیکن تحریر سے جو تاثر لے کر ہم اسے اپنے تصور میں محسوس کرتے ہیں، اس کا ذائقہ اسکرین نہیں دے سکتا یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جن ناولوں پر فلمیں بنائی گئی ہیں ان ناولوں کی مانگ میں ہر سال کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے لہٰذا یورپ وامریکا میں مطالعے کی اہمیت کو ٹیلی ویژن وکمپیوٹرز کم نہیں کرسکے، آج بھی امریکا میں آپ کو لوگ سفر یا فرصت کے اوقات میں کتاب پڑھتے دکھائی دیتے ہیں، کتاب ختم کرکے ساتھ نہیں لے کر جاتے بلکہ اس جگہ چھوڑ کے چلے جاتے ہیں جو کسی اور کے زیر مطالعہ آتی ہے یوں کتابیں مستقل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک سفر کرتے ہوئے ذہن کو جلا بخشتی رہتی ہے۔

جدید ریسرچ کے مطابق جن بچوں نے بچپن میں گھر کے بڑوں سے کہانیاں سنی ہیں وہ آنے والی زندگی میں ذہنی طورپر متحرک اور فعال شخصیت کے حامل ہوتے ہیں بہ نسبت ان بچوں کے جنھوںنے بچپن میں کہانیاں نہیں سنیں یا کھیل وکود میں حصہ نہیں لیا۔

اردو کے بعد سندھی زبان میں زیادہ کتابیں شایع ہوتی ہیں خاص طورپر سندھ کا لوک ادب ایک بیش بہا خزانہ ہے دنیا کی مختلف زبانوں میں بچوں کے لیے لوک کہانیاں لکھی گئی ہیں جنھیں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے یہ کہانیاں بچوں کے تصور وسیکھنے کے عمل کو جلابخشتی ہیں ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتاب کودوبارہ اپنی زندگی کا اہم حصہ بنانے کی کوشش کریں ملک بھر کے ویران کتب خانوں کو دوبارہ آباد کریں، آج کے اس پر آشوب دور میں حالات کی بے یقینی کے اس سفر میں کتاب ہی بہترین دوست ثابت ہوسکتی ہے۔
Load Next Story