کیا تبدیلی آگئی ہے
زندگی بھر کی کمائی سے ایک مکان بنتا ہے، کرپشن کرنے والے تو بھاگ گئے غریب خریدار پھنس گئے۔
اس سے قطع نظر کہ عام انتخاب کے دن کیا کچھ ہوا؟ دھاندلی وغیرہ کس حد تک ہوئی، زمینی حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بنانے جا رہی ہے اور کراچی جو کبھی ایم کیو ایم کا شہر تھا، کراچی سے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے کے بعد اس کو اب پی ٹی آئی کا شہر کہا جا رہا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے طویل دہائیوں کے بعد کراچی سے اس جماعت کو کثرت سے ووٹ ملے ہیں جو مرکز میں حکومت بنانے جا رہی ہے ورنہ تو یہ شہر مسلسل اپوزیشن کا گڑھ ہی بنا رہا تھا، جس کے باعث اس شہر کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے تھے۔
بہرکیف پی ٹی آئی کو ایک خاص حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ جس کے تحت یہاں سے شہریوں کی بڑی تعداد نے ایم کیوایم کو ووٹ ڈالنے کے اپنے روایتی فیصلے پر نظر ثانی کی اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے ماضی کے نمایندوں نے ایک جانب اس بات کی تسبیح پڑھی کہ ''ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں، ہم خدمت کیسے کریں؟'' اور دوسری جانب ان ہی نمایندوں میں سے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ یوں اب پی ٹی آئی کے منتخب نمایندوں کو کرپشن کے داغ سے اپنے دامن کو تو بچانا ہی ہو گا مگر ''اختیارات نہیں ہیں'' کے مسئلے کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا اور یہی ان کا ایک بڑا امتحان بھی ہو گا، کیونکہ مرکز میں بھی ان ہی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔
مرکز کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی سندھ بلدیاتی نمایندوں کے اختیارات بڑھا سکتی ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہیے، لیکن اگر اس نے خیبرپختونخوا میں اپنی پالیسی اس حوالے سے الگ اور کراچی جیسے شہر کے لیے الگ رکھی تو پھر اس میں اور پی پی پی کی حکومتوں کے ماضی کے کردار میں کوئی فرق نہیں ہو گا اور کراچی کی حالت بھی کوئی خاص تبدیل نہیں ہو سکے گی اور خدانخوستہ ایسا ہوا تو ووٹرز پھر سے یو ٹرن بھی لے سکتے ہیں اور قومی دھارے سے پھر لسانی دھارے میں آ سکتے ہیں۔
کراچی کے حالیہ نتائج صرف پی ٹی آئی کی جیت ہی نہیں بنے بلکہ تمام جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے لیے ایک سخت امتحان بھی بن گئے ہیں کہ مہاجروں نے خود کو ایک بڑے قومی دھارے میں ڈال دیا ہے، اب ان مہاجروں کو کس حد تک خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اس شہر کے مسائل کس حد تک حل کیے جاتے ہیں۔
شہری حکومت یا بلدیاتی اختیارات کی بحالی جیسے اہم مسئلے کے بعد جو مسائل اس شہر کے لیے اہم ہیں ان میں رہائش اور اس سے متعلق مسائل اہم ترین ہیں۔ پینے کے پانی اور صفائی کے علاوہ چائنا کٹنگ کے ذریعے اس شہر کی بدصورتی اور بدحالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو غریبوں کو چائنا کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کرکے پیسے بنائے گئے، مگر یہاں رہنے والے پریشان ہیں کہ ان کا کیا بنے گا؟
زندگی بھر کی کمائی سے ایک مکان بنتا ہے، کرپشن کرنے والے تو بھاگ گئے غریب خریدار پھنس گئے۔ اسی طرح شہر کے تمام خالی پلاٹ ٹھکانے لگا دیے گئے، چنانچہ اب گلی محلے کے بچوں کو کھیلنے کے لیے کوئی میدان بھی دستیاب نہیں، گھر کے قریب چھوٹے چھوٹے پارک بھی ٹھیکیداروں کو دے کر پیسے بنانے کا دھندہ جاری ہے، جس کے سبب ہر ٹھیکیدار ان پارکوں میں کمرشل جھولے لگا کر پیسا کما رہا ہے اور غریب والدین پریشان ہیں کہ محلے کے پارک میں جانے کے لیے بھی بچوں کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔
کتنا بڑا ظلم ہے کہ اتنے بڑے شہر میں بچوں کے لیے کھلے میدان اور پارکس بھی دستیاب نہیں۔ جو نوجوان کرکٹ کھیلتے ہیں ان سے باقاعدہ ہزاروں روپے فیس لی جاتی ہے۔ کسی کو ثبوت چاہیے تو بفرزون اور نارتھ کراچی سیکڑ الیون بی جیسے بہت سے علاقے موجود ہیں۔ پی ٹی آئی نوجوانوں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے، اس کو دیکھنا چاہیے کہ کراچی میں کھیلوں کے میدانوں اور پارکوں میں کیسی کرپشن جاری ہے، جس سے شہریوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ انھی پارکس کے باہر کار پارکنگ کے نام پر فیس بھی لی جاتی ہے۔ غور کیجیے ایک غریب موٹر سائیکل پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتا ہے تو اسے موٹر سائیکل پارک کرنے کی فیس بھی دینا ہوتی ہے، پھر پارک کے اندر جانے کی اور پھر بچوں کو جھولے دینے کے لیے ٹکٹ بھی خریدنا ہوتا ہے۔
ناگن چورنگی پر بی اماں پارک اس کی ایک مثال ہے۔ اس کو بھی کمرشل مقصد کے لیے ٹھیکیداروں کو دیا گیا ہے، مگر اس بڑے پارک میں صرف جس حصے پر جھولے قائم ہیں وہیں کچھ ہری گھاس نظر آتی ہے، ورنہ اس بڑے پارک کی تمام گھاس سوکھ کر ختم ہو چکی ہے۔ پارکنگ کے نام پر فٹ پاتھ اور سڑکوں پر غریب موٹرسائیکل والوں سے تیس روپے فی عدد رقم 'لوٹی' جاتی ہے۔ یہ عمل اب اسپتالوں کے سامنے بھی جاری ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والوں کو حق ہوتی ہے، یہ کیا تماشا ہے؟ یہ سب 'بھتے' کی جدید شکلیں ہیں، جن سے شہری صبح شام پریشان رہتے ہیں۔ یہ بھتے پی ٹی آئی کو ختم کرانے چاہئیں۔
اسی طرح اس شہر کا ایک اور اہم ترین مسئلہ رہائش کا ہے، اسٹیٹ ایجنٹ سے لے کر بڑے بڑے بلڈرز کی مافیاؤں نے اس شہر کی پراپرٹی کی قیمتوں کو اس قدر آسمان پر پہنچادیا ہے کہ ایک متوسط طبقے کا آدمی نہ تو کوئی پلاٹ خرید سکتا ہے نہ ہی چھوٹے مکان کا کرایہ ادا کر سکتا ہے۔ شہر ی منصوبہ کے ٹو کا پانی کسی اور کو دیدیا گیا ہے۔ شہر کراچی میں اسکیم نمبر 33 وغیرہ میں بہت سی اسکیموں پر ناجائز قابضین موجود ہیں اور غریب و مجبور لوگ انتظار میں ہیں کہ کب قبضہ ختم ہو گا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو ایک بڑی کمیٹی بنا کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا ہو گا، ورنہ یہ مسئلہ قابو سے باہر ہی رہے گا۔
عمران خان تعلیم پر بار بار بات کرتے ہیں، اس سلسلے میں عرض ہے کہ اس شہر کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی طویل عرصہ سے مالی بحران کا شکار ہے، جہاں ہر ماہ اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے بھی مشکل سے رقم دستیاب ہوتی ہے، اس ضمن میں عرض ہے کہ فوری طور پر کوئی بڑا مالی امدادی پیکیج جاری کرنے کے علاوہ اس کی گرانٹ میں کئی سو فیصد اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت رہی ہے اور عوام کا مطالبہ بھی رہا ہے مگر یہاں کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم آج تک یہ وعدہ پورا نہ کر سکی، عمران خان یونیورسٹی بنا کر حیدرآباد کے عوام کا دل جیت سکتے ہیں۔
یوں توشہری مسائل کے انبار ہیں، تاہم راقم نے یہاں چند اہم مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، امید ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور نمایندے اپنے اپنے طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا کر دار ادا کریں گے تاکہ کراچی والے بھی کہہ سکیں کہ ''تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔''
بہرکیف پی ٹی آئی کو ایک خاص حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ جس کے تحت یہاں سے شہریوں کی بڑی تعداد نے ایم کیوایم کو ووٹ ڈالنے کے اپنے روایتی فیصلے پر نظر ثانی کی اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے ماضی کے نمایندوں نے ایک جانب اس بات کی تسبیح پڑھی کہ ''ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں، ہم خدمت کیسے کریں؟'' اور دوسری جانب ان ہی نمایندوں میں سے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ یوں اب پی ٹی آئی کے منتخب نمایندوں کو کرپشن کے داغ سے اپنے دامن کو تو بچانا ہی ہو گا مگر ''اختیارات نہیں ہیں'' کے مسئلے کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا اور یہی ان کا ایک بڑا امتحان بھی ہو گا، کیونکہ مرکز میں بھی ان ہی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔
مرکز کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی سندھ بلدیاتی نمایندوں کے اختیارات بڑھا سکتی ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہیے، لیکن اگر اس نے خیبرپختونخوا میں اپنی پالیسی اس حوالے سے الگ اور کراچی جیسے شہر کے لیے الگ رکھی تو پھر اس میں اور پی پی پی کی حکومتوں کے ماضی کے کردار میں کوئی فرق نہیں ہو گا اور کراچی کی حالت بھی کوئی خاص تبدیل نہیں ہو سکے گی اور خدانخوستہ ایسا ہوا تو ووٹرز پھر سے یو ٹرن بھی لے سکتے ہیں اور قومی دھارے سے پھر لسانی دھارے میں آ سکتے ہیں۔
کراچی کے حالیہ نتائج صرف پی ٹی آئی کی جیت ہی نہیں بنے بلکہ تمام جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے لیے ایک سخت امتحان بھی بن گئے ہیں کہ مہاجروں نے خود کو ایک بڑے قومی دھارے میں ڈال دیا ہے، اب ان مہاجروں کو کس حد تک خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اس شہر کے مسائل کس حد تک حل کیے جاتے ہیں۔
شہری حکومت یا بلدیاتی اختیارات کی بحالی جیسے اہم مسئلے کے بعد جو مسائل اس شہر کے لیے اہم ہیں ان میں رہائش اور اس سے متعلق مسائل اہم ترین ہیں۔ پینے کے پانی اور صفائی کے علاوہ چائنا کٹنگ کے ذریعے اس شہر کی بدصورتی اور بدحالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو غریبوں کو چائنا کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کرکے پیسے بنائے گئے، مگر یہاں رہنے والے پریشان ہیں کہ ان کا کیا بنے گا؟
زندگی بھر کی کمائی سے ایک مکان بنتا ہے، کرپشن کرنے والے تو بھاگ گئے غریب خریدار پھنس گئے۔ اسی طرح شہر کے تمام خالی پلاٹ ٹھکانے لگا دیے گئے، چنانچہ اب گلی محلے کے بچوں کو کھیلنے کے لیے کوئی میدان بھی دستیاب نہیں، گھر کے قریب چھوٹے چھوٹے پارک بھی ٹھیکیداروں کو دے کر پیسے بنانے کا دھندہ جاری ہے، جس کے سبب ہر ٹھیکیدار ان پارکوں میں کمرشل جھولے لگا کر پیسا کما رہا ہے اور غریب والدین پریشان ہیں کہ محلے کے پارک میں جانے کے لیے بھی بچوں کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔
کتنا بڑا ظلم ہے کہ اتنے بڑے شہر میں بچوں کے لیے کھلے میدان اور پارکس بھی دستیاب نہیں۔ جو نوجوان کرکٹ کھیلتے ہیں ان سے باقاعدہ ہزاروں روپے فیس لی جاتی ہے۔ کسی کو ثبوت چاہیے تو بفرزون اور نارتھ کراچی سیکڑ الیون بی جیسے بہت سے علاقے موجود ہیں۔ پی ٹی آئی نوجوانوں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے، اس کو دیکھنا چاہیے کہ کراچی میں کھیلوں کے میدانوں اور پارکوں میں کیسی کرپشن جاری ہے، جس سے شہریوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ انھی پارکس کے باہر کار پارکنگ کے نام پر فیس بھی لی جاتی ہے۔ غور کیجیے ایک غریب موٹر سائیکل پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتا ہے تو اسے موٹر سائیکل پارک کرنے کی فیس بھی دینا ہوتی ہے، پھر پارک کے اندر جانے کی اور پھر بچوں کو جھولے دینے کے لیے ٹکٹ بھی خریدنا ہوتا ہے۔
ناگن چورنگی پر بی اماں پارک اس کی ایک مثال ہے۔ اس کو بھی کمرشل مقصد کے لیے ٹھیکیداروں کو دیا گیا ہے، مگر اس بڑے پارک میں صرف جس حصے پر جھولے قائم ہیں وہیں کچھ ہری گھاس نظر آتی ہے، ورنہ اس بڑے پارک کی تمام گھاس سوکھ کر ختم ہو چکی ہے۔ پارکنگ کے نام پر فٹ پاتھ اور سڑکوں پر غریب موٹرسائیکل والوں سے تیس روپے فی عدد رقم 'لوٹی' جاتی ہے۔ یہ عمل اب اسپتالوں کے سامنے بھی جاری ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والوں کو حق ہوتی ہے، یہ کیا تماشا ہے؟ یہ سب 'بھتے' کی جدید شکلیں ہیں، جن سے شہری صبح شام پریشان رہتے ہیں۔ یہ بھتے پی ٹی آئی کو ختم کرانے چاہئیں۔
اسی طرح اس شہر کا ایک اور اہم ترین مسئلہ رہائش کا ہے، اسٹیٹ ایجنٹ سے لے کر بڑے بڑے بلڈرز کی مافیاؤں نے اس شہر کی پراپرٹی کی قیمتوں کو اس قدر آسمان پر پہنچادیا ہے کہ ایک متوسط طبقے کا آدمی نہ تو کوئی پلاٹ خرید سکتا ہے نہ ہی چھوٹے مکان کا کرایہ ادا کر سکتا ہے۔ شہر ی منصوبہ کے ٹو کا پانی کسی اور کو دیدیا گیا ہے۔ شہر کراچی میں اسکیم نمبر 33 وغیرہ میں بہت سی اسکیموں پر ناجائز قابضین موجود ہیں اور غریب و مجبور لوگ انتظار میں ہیں کہ کب قبضہ ختم ہو گا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو ایک بڑی کمیٹی بنا کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا ہو گا، ورنہ یہ مسئلہ قابو سے باہر ہی رہے گا۔
عمران خان تعلیم پر بار بار بات کرتے ہیں، اس سلسلے میں عرض ہے کہ اس شہر کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی طویل عرصہ سے مالی بحران کا شکار ہے، جہاں ہر ماہ اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے بھی مشکل سے رقم دستیاب ہوتی ہے، اس ضمن میں عرض ہے کہ فوری طور پر کوئی بڑا مالی امدادی پیکیج جاری کرنے کے علاوہ اس کی گرانٹ میں کئی سو فیصد اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت رہی ہے اور عوام کا مطالبہ بھی رہا ہے مگر یہاں کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم آج تک یہ وعدہ پورا نہ کر سکی، عمران خان یونیورسٹی بنا کر حیدرآباد کے عوام کا دل جیت سکتے ہیں۔
یوں توشہری مسائل کے انبار ہیں، تاہم راقم نے یہاں چند اہم مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، امید ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور نمایندے اپنے اپنے طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا کر دار ادا کریں گے تاکہ کراچی والے بھی کہہ سکیں کہ ''تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔''