تبدیلی آ گئی ہے

اپریل 2016ء میں پاناما کا طوفان آتے ہی میں نے نواز شریف کے زوال کی پیش گوئی کردی تھی۔

www.facebook.com/shah Naqvi

عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد کہا ہے کہ اگر کسی کو دھاندلی کی شکایت ہے تو ہم تعاون کریں گے اور وہ حلقے کھلوائیں گے۔ بائیس سالہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور نیا پاکستان بنانے کا خواب پورا کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ ہماری حکومت میں احتساب مجھ سے شروع ہوگا۔ اس کے بعد میرے وزراء کا احتساب ہوگا۔

قانون کی بالادستی قائم کریں گے، کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ ساری پالیسیاں کمزور طبقے اور غریب کسانوں کے لیے بنائیں گے۔ ثابت کرکے دکھاؤں گا ہم گورننس بہتر کر سکتے ہیں۔ عوام سے وعدہ کرتا ہوں ان کے ٹیکس کے پیسے کی حفاظت کروں گا۔ وزیراعظم ہاؤس ایک بہت بڑا محل ہے اس میں جا کر رہنا میرے لیے شرم کی بات ہوگی۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیاں کرنے کی روایت کو تبدیل کرنا ہوگا۔

ہمیں خود مسائل سے نکلنا ہوگا، کوئی باہر سے آکر ہمیں نہیں نکالے گا۔ خارجہ پالیسی میں چین اور ایران سے تعلقات مزید بہتر کریں گے۔ افغانستان سے ایسے تعلقات چاہتا ہوں کہ سرحدیں کھلی ہوں۔ امریکا سے متوازن تعلقات چاہتے ہیں۔ عمران خان نے بھارت سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ہمیں بلیم گیم سے نکلنا ہو گا ،اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت عوام کی خوش حالی کا باعث بن سکتی ہے۔ تمام مسائل ڈائیلاگ سے حل ہوں گے۔ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ان کا ماڈل حضور نبی اکرمؐ کے زمانے کا مدینہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے ہے جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔

ڈھائی کروڑ بچہ اسکول سے باہر اور لاکھوں بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ جس گھر میں فاقہ ہوگا وہ بچے غذائی کمی کا شکار نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔ ایک بڑھتے ہوئے بچے کو صرف روٹی نہیں بلکہ دودھ، دہی، انڈے، گوشت اور پھل بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد ذرا غور سے نظر دوڑائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ غذائی کمی کی وجہ سے بچوں کی اکثریت پست قد ہے۔جسمانی کمزوری، دماغی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔

بڑھتی ہوئی بچیوں کا اس معاملے میں زیادہ ہی برا حال ہے، جنھیں آگے چل کر مائیں بننا ہے۔ یعنی خود جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور تو آنے والی نسل بھی کمزور تو یہ نسل کس طرح مختلف شعبوں میں دنیا کا مقابلہ کرسکے گی۔ ہمارے ملک میں دوران ڈلیوری ماؤں کی مرنے کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ تصور کریں کہ جب ایسی مائیں مرتی ہیں تو ان کے پیچھے رہ جانے والے بچوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں معاشرہ کمزور اور ہر طرح کی خرابی کا شکار ہوجاتا ہے۔


سب سے بڑا مسئلہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیات، صاف پانی اور شجرکاری ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ ان معاملات میں جنگی اقدامات لیں۔ عمران خان کی تقریر اندرون بیرون ملک دونوں جگہ پسند کی گئی۔ اگلے کالم میں اس پر مزید گفتگو ہوگی۔

گزشتہ کالم میں میں نے ایک فقرہ لکھا تھا کہ 80ء اور 90ء کی دہائی میں جس لہر کا آغاز ہوا اب اپنے اختتام کو پہنچنے جارہی ہے۔ سابقہ دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ گزشتہ 30سالہ دور جس میں عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات یک جا ہوگئے تھے۔ پیپلزپارٹی کا خاتمہ بھی ان ہی مقاصد کے تحت پنجاب میں ہوا۔ نواز شریف، الطاف حسین اور طالبان کی تخلیق اسی مشترکہ ایجنڈے کے تحت ہوئی۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ کچھ اپنے مفادات اور بعد میں اپنی مجبوریوں کے تحت دیا۔ اب ایسی کوئی مجبوری باقی نہیں رہ گئی۔ طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں، ان کا ساتھ دینے میں ہی پاکستان کی بقاء ہے۔

ایران پر امریکا کا متوقع حملہ چین، روس ، پاکستان اور ایران کو مزید قریب لے آئے گا۔ آصف علی زرداری نے اس متوقع صورتحال کو بھانپ کر کسی بھی ایجی ٹیشن میں شریک ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اپنی بقاء کے لیے انھوں نے پارلیمانی فورم کو تھامے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کو لاحق خطرات کچھ دور ضرور ہوگئے ہیں لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے نہ ہی ہوں گے۔ صرف مہلت ملی ہے ''وقت معینہ تک'' شہباز شریف اسی سمجھداری کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن طویل المدت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آخر کار ن لیگ کا انجام بھی پیپلزپارٹی کی طرح ہوگا ۔ رہے نام اللہ کا۔

اپریل 2016ء میں پاناما کا طوفان آتے ہی میں نے نواز شریف کے زوال کی پیش گوئی کردی تھی۔ ویسے تو اس زوال کا آغاز 2013ء کے الیکشن کے فوراً بعد سے ہوگیا تھا۔ فیصلہ کن مرحلہ جون 2014ء سے شروع ہوا۔ پہلے پاناما پھر پچھلے سال 28 جولائی نواز شریف نااہل ہوئے، پھر اس سال جولائی کا آخر جیسے ہی نواز شریف 12 ویں گھر میں آئے وہ اقتدار سے محرومی کے ساتھ جیل میں مقید اور ان کی پارٹی بھی انتخاب ہار گئی۔ یہ ہیں صدی کے طویل ترین خون رنگ مکمل چاند گرہن کے اثرات۔ اس سے پہلے 13 جولائی کا سورج گرہن، یہ وہی دن ہے جب نواز شریف کو پاکستان واپسی پر اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔ ابھی 11 اگست کا سورج گرہن باقی ہے۔ یہ وقت دنیا کی روایتی قدامت پرست قوتوں کے زوال کا وقت بھی ہے۔

... قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور نئے سیٹ اپ کے حوالے سے اہم تاریخیں 30,29 جولائی، 3,2,1 اگست ہیں۔

سیل فون:۔0346-4527997
Load Next Story